اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-rawalakotjk@gmail.com

Telephone:-        

 

 

 
 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت19-05-2010

عظمتوں کے نشان

 

مولانا محمد اکرم لکھتے ہیں۔
’’یہی وہ میدان (بدر) ہے، جہاں لڑنے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوئے تھے۔ اور یہاں وہ شہداء آرام فرما رہے ہیں، جنہوںنے حضور اکرمؐ کے مبارک قدموں میں اپنی جانیں نچھاور کر دیں۔ کٹے ہوئے سینے، پھٹے ہوئے جسم اور خون آلود لباس میں سونے والے یہ لوگ کیا ہیں۔ یہ عظمتوں کے نشان ہیں اسلام کی بنیاد ہیں ۔ یہی وہ قیمتی پتھر ہیں جن پر دین کی عمارت کھڑی ہے۔’’ظاہر تو قبروں کے نشان مٹا دئے گئے ہیں، مگر دل کی آنکھ کو دیکھنے سے کون روک سکتا ہے؟ سو ہم بھی چار دیواری کے پاس کھڑے دیکھتے ہیں۔ ’’جہاں جہاںکوئی شہید دفن ہے، وہاں یوں نظر آتا ہے جیسے نور کا فوارہ ابل رہاہو یا نور کا درخت ہو مگر عجیب بات ہے کہ سب درخت ایک برابر نہیں۔ چھوٹے بڑے ہیں۔
’’وہ گڑھا بھی پاس ہی ہے جہاں کفار کی لاشیں پھینکی گئی تھیں یہی وہ گڑھا ہے جس کے کنارے پر کھڑے ہو کر حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا ہم نے اپنے اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا پایا۔ کیا تم نے بھی اسے سچ پا لیا یا نہیں؟
حضورؐ نے فرمایا ’’یہ گڑھا آج بھی دوزخ کی آگ سے بھڑک رہا ہے۔ یہاں شعلوں کی زبانیں دور دور تک لپکتی ہیں۔ جیسے بھوکے اژدھے پھنکار رہے ہوں۔ میدان وہی ہے مقام وہی ہے پہاڑ اور ریگزار بھی وہی ہیں۔ شہداء اور کفار کی قبروں میں چند گزوں ہی کا فاصلہ تو ہے۔ مگر احوال میں بہت لمبا فاصلہ ہے۔ ایک طرف جنت نچھاور ہو رہی ہے نعمتیں ہیں۔نور ہے، رحمتیں اور بخششیں بٹ رہی ہیں۔ یہاں آنے والے بھی جھولیاں بھر بھر کر لے جا رہے ہیں۔ ادھر چند گز دور گرمی ہے تپش ہے۔ جہنم کے اژدھے ہیں۔ عذاب ہیں ایذائیں ہیں۔ چیخ وپکار ہے مگر کوئی فریاد رس نہیں۔’’یہ فاصلہ کیوں ہے؟‘‘
’’صرف اس لئے کہ اس فاصلہ کا تعلق نہ زمین سے ہے، نہ زبان سے۔ اس کا واسطہ ان تعلقات سے ہے، جو ان لوگوں کو حضور اکرمؐ سے نصیب ہوئے تھے جنہوں نے آپؐ پر اپنی جانیں نچھاور کیں۔ مگر آپؐ سے اپنے عقیدت مندانہ تعلقات پر آنچ نہ آنے دی۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی جنتیں نچھاور ہو رہی ہیں۔ مگر جنہوں نے اپنے باپ دادا کی رسوم و روایات کو عزیز رکھا، ان پر جان دی، اب ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ ’’جن کی فریاد اللہ تعالیٰ نہ سنے، ان کی بات کو کون سن سکتا ہے؟ یہ فاصلے تعلقات کے ہیں، معاملات کے ہیں واسطوں کے ہیں تو کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم (حضورؐ اکرم سے) اپنے تعلقات مستحکم بنائیں۔

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team