اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-rawalakotjk@gmail.com

Telephone:-        

 

 

 
 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت11-06-2010

ملت اسلامیہ کے بنیادی ارکان

 

علامہ اقبالؒ نے رموزِ بے خودی میں ملتِ اسلامیہ کے بنیادی ارکان کی وضاحت کی ہے وہ توحید کو رکن اول قرار دیتے ہیں۔
پہلے دو اشعار کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
’’عقل اس جہان احساس و مسافت میں آوارہ پھرتی رہی‘ پھر توحید کے ذریعہ اس نے منزل کا راستہ پایا‘ توحید کے بغیرعقل منزل نہیں پا سکتی۔ توحید کے بغیر دنیا کے سمندر میں فکر کی کشتی کا ساحل تک پہنچنا محال ہے۔‘‘
اسکے بعد توحید کی تعریف میں چند اشعار لائے ہیں:
دیں ازو‘ حکمت ازو‘ آئیں ازو
زور ازو‘ قوت ازو‘ تمکین ازو
ترجمہ: دین‘ حکمت‘ آئین‘ زور ‘ قوت اور تمکین سب توحید ہی سے حاصل ہوتے ہیں۔
توحید کا جلوہ عالموں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے اور عاشقوں کو قوت عمل سے معمور کر دیتا ہے۔ توحید کے سائے میں پست قد‘ بلند و بالا شخصیت حاصل کر لیتا ہے‘ جو شخص مٹی کی طرح بے قیمت ہو‘ وہ توحید کی وجہ سے اکسیر کی مانند قیمتی ہو جاتا ہے۔‘‘
توحید سے مراد اللہ تعالیٰ کو کائنات کا خالق اور مالک سمجھنا اور ان سے بہت شدید محبت اور مکمل اطاعت کا گہرا تعلق قائم کرنا ہے۔ یہ توحید بندے کو تخلیق نو عطا کرتی ہے۔ توحید سے اسکی رگوں میں خون بجلی بن کر دوڑنے لگتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں تیزی سے سرگرم عمل ہو جاتا ہے‘ اسکے اندر سے خوف و شک نکل جاتا ہے۔ وہ جذبہ عمل سے معمور ہو جاتا ہے…؎
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
آگے فرماتے ہیں:
’’ملت دلوں کی یک رنگی سے بنتی ہے۔ یہ سینا ایک ہی جلوہ توحید سے روشن ہے۔ قوم کی سوچ ایک ہونی چاہئے۔ قوم کے ضمیر میں مقصود بھی ایک ہونا چاہئے۔ اسکی سرشت میں جذبہ بھی ایک ہونا چاہئے۔ اس کا نیکی اور برائی کا معیار بھی ایک ہونا چاہئے۔ جب تک ساز فکر میں حق تعالٰی کی محبت کا سوز شامل نہ ہو اس قسم کا انداز فکر پیدا نہیں ہو سکتا۔‘‘
علامہ اقبالؒ لکھتے ہیں کہ:
ناامیدی قبر کی طرح تیری شخصیت کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ ناامیدی سے ناتوانی اور نامرادی پیدا ہوتی ہے۔ مایوسی کا سرمہ زندگی کی آنکھ کو اندھا اور اسکی قوت مفلوج کر دیتا ہے۔ غمگینی اور مایوسی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
’’غیر اللہ کا خوف عمل کا دشمن اور کاروانِ زندگی کا راہزن ہے۔ یہ انسان کے عزم محکم کو متزلزل کر دیتا ہے اور اس سے ہمت متذبذب ہو جاتی ہے۔‘‘

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team