اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
Email:-ceditor@inbox.com

Telephone:-1-514-970-3200

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

<<<سابقہ مضامین<<<

تاریخ اشاعت:۔18-07-2010

حضرت ابراہیم ؑ …

قرآن پاک میں ارشاد ہے: (ترجمہ) ’’اور اللہ (تعالیٰ) نے ابراہیمؑ کو دوست بنا لیا‘‘۔ (سورہ النسائ: 125)۔ بڑی عزت افزائی ہے۔
یہ بھی فرمایا: ’’ابراہیمؑ جس نے وفا کی‘‘ (سورہ النجم: 37) انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنا عہد وفا اس انداز سے نبھایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی داد دی۔
سورہ النخل میں فرمایا: (ترجمہ) ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ ابراہیمؑ (اکیلے ہی) اُمت تھے۔ عبادت گزار اللہ (تعالیٰ) کے صرف اسی کے ہو کر اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ وہ اللہ (تعالیٰ) کی نعمتوں کے شکر گزار تھے۔ اللہ (تعالیٰ) نے انہیں منتخب فرما لیا تھا اور انہیں صراط مستقیم کی ہدایت دی تھی۔ (آیات: 120، 212)
سورہ الممتحنہ میں مذکور ہے کہ ابراہیمؑ نے اپنے شہر سے ہجرت کرتے وقت اہل شہر سے برملا کہا تھا کہ ’’میرے تمہارے درمیان عداوت و دشمنی ہے جب تک تم خدائے واحد پر ایمان نہ لائو‘‘۔ انکا یہ عمل اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آیا کہ دوبارہ فرمایا کہ اس میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ یعنی اچھی مثال ہے (آیہ 8)۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی خاطر اللہ تعالیٰ کے دوستوں سے دوستی رکھتے ہیں، انکا بڑا درجہ ہے لیکن جو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہیں اور انکے منہ پر برملا کہتے ہیں کہ ہماری تمہاری دشمنی ہے، کیونکہ تم اللہ تعالیٰ کے دشمن ہو، ان کا درجہ بلند تر ہے۔ دیکھا جائے تو جو لوگ ہمارے دوستوں سے دوستی رکھتے ہیں، ہم انکی قدر کرتے ہیں لیکن جو صرف ہماری خاطر ہمارے دشمنوں سے دشمنی مول لیتے ہیں، ہمارے دل میں انکی قدر و قیمت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کو یہ درجہ یونہی نہیں مل گیا تھا۔ بقول حالیؒ؎’’بہت دیکھ لیتے ہیں‘ دیتے ہیں تب کچھ‘‘ ایک لاکھ چوبیس یا چوالیس ہزار پیغمبر ہوئے ہیں۔ ان میں سے عہد ساز صرف پانچ ہیں۔ سورہ الاحزاب میں انہی پانچ سے عہد لینے کا مذکور ہے۔ ان میں ہمارے حضورؐ سرفہرست ہیں۔ باقی چار نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسٰیؑ ہیں۔ حضورؐ کا نام نامی سب سے پہلے ہے۔ باقی چاروں کا ان کی ترتیب زماں کیمطابق ہے۔
طوفان نوحؑ میں پانی کی بلندی اس قدر تھی کہ نوحؑ کی کشتی جُودی (جو موجودہ ترکی میں ہے) کی چوٹی پر جا کر رکی۔ کہا جاتا ہے کہ نوحؑ کا شہر موجودہ کوفہ ہی کی جگہ واقع تھا۔ گویا اس وقت کی ساری معلوم متمدن دنیا اس طوفان میں ہلاک ہو گئی‘ اسکے بعد نوحؑ اور انکے ساتھیوں کی نسل سے جن کی تعداد 72 بتائی جاتی ہے، نئے دور کا آغاز ہوا جو حضرت ابراہیمؑ تک رہا۔ حضرت ابراہیمؑ کا دور ہمارے حضورؐ اکرم کی بعثت تک رہا۔ حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیسٰیؑ کے ادوار سیدنا ابراہیمؑ کے سمندر کی لہریں ہیں۔ بقول اقبالؒ ہمارے حضورؐ اکرم دور جدید کے دروازے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ آنجنابؐ کی تشریف آوری سے پہلے اور بعد کے دور میں قدیم و جدید کا فرق ہے۔ حضورؐ اکرم نے دور جدید کا دروازہ کھولا اور اب حضورؐ کا دور قیامت تک کیلئے ہے۔

 

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team