|
|
 |
<<<سابقہ مضامین<<< |
تاریخ اشاعت:۔20-06-2011 |
سورہ المرسلات |
اس سے پہلی سورہ میں فرمایا تھا کہ ہر ایک
کیلئے دونوں راستے کھلے ہیں گمراہی کا بھی
اور ہدایت کا بھی۔
موجودہ سورہ کے آغاز میں ہواﺅں کا ذکر
فرمایا کہ وہ پہلے تو اٹھتی ہیں‘ پھر زور
پکڑتی ہیں‘ پھرکہیں رحمت کے بادل لاتی ہیں‘
کہیں عذاب کا طوفان۔ کسی کیلئے اتمام حجت
بنتی ہیں اور کسی کیلئے برائی سے بچنے اور
نیکی اختیار کرنے کا سبب یعنی باعث عبرت۔
اسی طرح دین کی تحریک بھی پہلے آہستہ سے
اٹھتی ہے‘ پھر زور پکڑتی ہے۔ پھرکوئی اس
کا ساتھ دےکر رحمت کا مستوجب ہوتا ہے‘
اورکوئی اسکی مخالفت کرکے عذاب کا مورد
بنتا ہے۔
سابقہ سورہ کے آخر میں فرمایا تھا کہ قرآن
پاک ہدایت کی کتاب ہے۔ جو چاہے اس سے
ہدایت حاصل کرے۔ موجودہ سورہ کا اختتام اس
ارشاد پر فرمایا کہ قرآن پاک آسمانی ہدایت
کی کتابوں میں حرف آخر ہے۔ جو اسے نہ مانے‘
وہ کیسے ہدایت پا سکتا ہے۔
-1 قسم ہے ان (ہواﺅں) کی‘ جو چھوڑی جاتی
ہیں نرمی سے۔-2 پھر زور پکڑتی ہیں زور
کرکے۔
-3 اور ابھارتی ہیں (بادلوں کو) خوب سے۔
-4 پھر جدا کردیتی ہیں انہیں الگ الگ“ (رحمت
کی گھٹاﺅں اور عذاب کے طوفانوں کو الگ الگ
کردیتی ہیں) -5 پھر ڈالتی ہیں دلوں میں
نصیحت (موغظت) -6 عذر کیلئے یا نذر کیلئے“
(کسی کیلئے اتمام حجت کا کام دیتی ہیں اور
کوئی انکے سبب ڈر کر عذاب سے بچ جاتا ہے)
-7 بیشک تم سے جو وعدہ (قیامت) کیا جا رہا
ہے‘ وہ ضرور پورا ہو کے رہے گا“۔
-8 پھر جب ستارے گدلا دیئے جائیں۔
-9 اورجب آسمان میں رخنے ڈال دیئے جائیں۔
-10 اور جب پہاڑ ریزہ ریزہ کرکے اڑائے
جائیں۔ -11 اور جب رسولوں کو (باری باری)
وقت مقررہ پر بلایا جائے۔ (یعنی ہر ایک کی
امت کے حساب کے موقع پر) -12 کس دن اٹھا
رکھے گئے ہیں (یہ سب کام)؟ -13 فیصلے کے
دن تک
-14 اورکیا جانا تم نے کیا ہے فیصلے کا دن؟
-15 تباہی ہے اس دن اسے جھٹلانے والوں
کیلئے۔
-16 کیا ہم نے پہلوں کو ہلاک نہیں کیا؟
-17 پھرانکے پیچھے پیچھے رہے بعد والوں کو
“ (پہلے زمانہ میں برائی کرنےوالے ہلاک
ہوئے جیسے قوم نوحؑ‘ بعد میں جنہوں نے
برائی کی راہ اختیار کی‘ انکا بھی وہی
انجام ہوا۔ جیسے قوم فرعون‘ اشارہ ہے حضور
پر ایمان نہ لانے والوں کا بھی یہی حشر
ہوسکتا ہے۔)
-18 یہی سلوک کرتے ہیں ہم مجرموں کے ساتھ۔
-19 تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔
-20 کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے پیدا
نہیں کیا؟
-21 پھر رکھا اسے ٹھہرانے کی جگہ (ماں کے
رحم) میں -22 ایک جانے (بوجھے) وقت تک۔
-23 پھر ہم نے تخلیق کیا (اسے) اندازے کے
مطابق۔ تو ہم کیا خوف تخلیق کرنے والے ہیں |
 |
 |
|
 |
|
|
|