اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 

 

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

جڑوں کی تلاش

باب پنجم

تحریر۔۔۔------------ ابن صفی


اندھیری رات تھی۔ سڑک پر ویرانیاں رقص کر رہی تھیں! اور ان کا رقص دراصل جوزف کے وزنی جوتوں کی تال پر ہو رہا تھا! وہ اونٹ کی طرح سر اٹھائے چلا جا رہا تھا۔ گو اس وقت وہ فوجی لباس میں نہیں تھا! اور اس کے دونوں ریوالور بھی ہولسٹروں کی بجائے جیب میں تھے۔ اس سڑک پر الیکٹرک پول اتنے فاصلے پر تھے کہ دو روشنیوں کے درمیان میں ایک جگہ ایسی ضرورملتی تھی جہاں اندھیرا ہی رہتا تھا۔ درمیان میں دو پول چھوڑ کر بلب لگائے گئے تھے۔ یہ شہر سے باہر کا حصہ تھا۔ اگر ان اطراف میں دو چار فیکٹریاں نہ ہوتیں تو یہ سڑک بالکل ہی تاریک ہوتی۔ جوزف اس وقت کتھئی سوٹ اور سفید قمیض میں تھا! ٹائی تو وہ کبھی استعمال ہی نہیں کرتا تھا! آج کل وہ بالکل ہی دیو معلوم ہوتا تھا! عمران کی ڈنڈبیٹھکوں نے اس کا جسم اور زیادہ نمایاں کردیا تھا! وہ یکساں رفتار سے چلتا رہا اور اس کے وزنی جوتوں کی آوازیں دور دور تک گونجتی رہیں۔ فیکٹریوں کے قریب پہنچ کر وہ بائیں جانب مڑ گیا!۔۔ یہ فیکٹریوں کی مخالف سمت تھی! ادھر دور تک ویرانہ ہی تھا۔ ناہموار اور جھاڑیوں سے ذھکی ہوئی زمین میلوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اچانک جوزف رک گیا! وہ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ رہا تھا۔۔ تقریباً سو گز کے فاصلے پر مشرق کی طرف اسے کوئی ننھی سی چمکدار چیز دکھائی دی اور وہ دوسرے ہی لمحے زمین پر تھا! اب وہ گھنٹوں اور ہتھیلیوں کے بل بالکل اسی طرح آہستہ آہستہ چل رہا تھا جیسے کوئی تیندوا شکار کی گھات میں ہو! رخ اسی جانب تھا جہاں وہ ننھی سی چمکدار چیز نظر آئی تھی۔ "جوزف۔۔!" اس نے ہلکی سی سرگوشی سنی!۔۔ اور وہ کسی وفادار کتے کی طرح اچھل کر ادھر ہی پہنچ گیا! "شش۔۔"! جوزف جھاڑیوں میں دبک گیا پھر کوئی اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ " چند منٹ یہیں رکو"۔ جوزف جس پوزیشن میں تھا اسی میں رہ گیا! یہ اس کی عجیب وغریب عادت تھی۔ جب بھی اسے مخاطب کیا جاتا تو ہو اسی طرح ساکت ہوجاتاکہ اٹھا ہوا ہاتھ اٹھا ہی رہ جاتا! جماہی آ رہی ہوتی تو منہ پھیلا کر ہی رہ جاتا اور تاوقتیکہ کوئی نہ کہہ دی جاتی پھیلا ہی رہتا۔۔! تھوڑی دیر بعد کہا گیا۔ "جوزف کیا تم اس وقت بہت خوش ہو"؟ "ہاں۔ باس بہت زیادہ۔۔ کیونکہ میں آج ایک نئی چیز دریافت کی ہے"۔ "اچھا۔۔!" "ہاں باس! اگراسپرٹ اور پانی میں تھوڑا سا جنجر ایسنس بھی ملا لیا جائے تو بس۔۔ مزہ ہی آجاتا ہے"۔ "تم نے پھر اسپرٹ شروع کردی ہے؟" "ہاں۔۔ باس۔۔"۔ "ایک ہزار ڈنڈ۔۔!" "نن۔۔ نہیں۔۔ باس!" جوزف بوکھلا کر بولا! "نشہ اتر جائے گا! کھوپڑی بالکل خالی ہوجائے گی! اور میں کیچوا بن کر رہ جاؤں گا۔۔!" "چلو اٹھو!۔۔" عمران نے اسےٹھوکا دیا۔ "ہم کہاں چلیں گے باس۔۔؟" "کالا گھاٹ۔۔ تم نے دیکھا نا؟" "ہاں۔۔ باس۔۔"۔ "وہاں ایک شراب خانہ ہے!" "میں جانتا ہوں باس!"۔۔ جوزف خوش ہو کر بولا! "وہاں تاڑی بھی ملتی ہے"۔ "ہوم۔۔! اس شراب خانہ کے پاس ندی کی سمت جو ڈھلان شروع ہوتی ہے!تمہیں وہاں رکنا ہوگا!" "ڈھلان پر رک کر کیا کروں گا باس! کہ آپ شراب خانہ میں جائیں اور میں ڈھلان پر کھڑا رہوں"۔ "چلتے رہو۔۔!" وہ اندھیرے ہی میں ناہموار راستے طےکرتے رہے! کبھی کبھی محدود روشنی والی چھوٹی سی ٹارچ روشن کرلی جاتی! جوزف کچھ بڑبڑا رہا تھا! "خاموشی سے چلتے رہو"۔ کہا گیا۔ آدھے گھنٹے بعد وہ ایک ڈھلوان راستے پر چل رہے تھے جہاں سے ندی کے کنارے والے چراغوں کے سلسلے صاف نظر آنے لگے تھے! "ایک بار پھر سنو جوزف!" اس سے کہا گیا۔ "تم شراب خانے کی پشت پر ندی والی ڈھلان پر ٹھہرو گے"۔ "اچھا باس!" جوزف نے بےحد اداس لہجے میں کہا۔ "مگر تم وہاں کیوں ٹھہرو گے؟" "جماہیاں لینے اور آنسو بہانے کے لئے!" جوزف کی آواز دردناک تھی! عمران ہنس پڑا۔ "مگر باس ! تم اپنے محل میں کیوں نہیں آتے۔۔؟" جوزف نے کہا! "یہ ایک درد بھری کہانی ہے۔۔ جوزف!" عمران غمناک لہجے میں بولا۔ " میری آخری بیوی کے رشتے دار مجھے قتل کردینا چاہتے ہیں۔۔!" "اف۔فوہ! "جوزف چلتے چلتے رک گیا۔ اسے وہ پھرتیلا بوڑھا یاد آگیا تھا جس نے دو تین دن پہلے رانا پیلس میں اپنی چلت پھرت کا مظاہرہ کیا تھا! بلیک زیرو کو علم ہی نہیں تھا کہ عمران کہاں ہوگا اس لئے یہ کہانی عمران تک نہیں پہنچ سکی تھی! اتفاق سے آج صبح جوزف ہوا خوری کو نکلا تھا۔ راستے میں ایک لڑکے نے اسے ایک خط دیا جو عمران کی طرف سے ٹائپ کیا گیا تھا اور جس میں جوزف کے لئے ہدایت تھی کہ وہ رات کو فلاں وقت فلاں مقام پر پہنچ جائے۔ جوزف اس معاملہ میں اتنا محتاط ثابت ہوگا کہ اس نے اس کا تذکرہ بلیک زیرو (طاہر صاحب) سے بھی نہیں کیاتھا۔ حالانکہ وہ خود بھی دھوکا کھا سکتا تھا۔ کیونکہ وہ خط ٹائپ کیا ہوا تھا اور اس کے نیچے بھی عمران کے دستخط نہیں تھے بلکہ نام ہی ٹائپ کردیا گیا تھا! لیکن اس نے کسی وفادار کتے کی طرح اس میں عمران کی بو محسوس کی تھی اور نتیجے کے طور پر وہ اس وقت یہاں موجود تھا! "کیوں رک گئے؟" عمران نے ٹوکا۔ اس پر اس نے جڑی بوٹیاں فروخت کرنے والے بوڑھے کی داستان دہرائی اور بتایا کہ کس طرح اس نے اس کی جیب سے پستول نکال لیا تھا۔ عمران سوچ میں پڑ گیا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس پر عمران ہونے کی بنا پر حملے ہو رہے تھے یا اس لئے کوئی اس کے پیچھے پڑ گیا تھا کہ رانا تہور علی صندوقی کا راز معلوم کرسکے۔ یا پھر حملہ آواروں کی نظروں میں بھی تہور علی اور عمران ایک ہی شخصیت کے دو مختلف روپ تھے۔۔! "بس اسی سے اندازہ کرلو۔ جوزف۔۔ کہ آج کل میں کتنی الجھنوں میں گھرا ہوا ہوں۔۔!" "مجھے ان کا پتہ بتاؤ باس! ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑوں گا"۔ جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا! "چلتے رہو۔۔!" عمران بولا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ اپنے ماتحتوں کو اپنے قریب بھی نہیں آنے دے گا ورنہ اس کا امکان بھی ہے کہ اسی سلسلے میں ڈھمپ اینڈ کو کا راز ہی فاش ہوجائے۔ "ہاں تو باس! مجھے ڈھلان پر کیا کرنا ہوگا؟" "اگر میری عدم موجودگی وہاں کوئی سبز رنگ کا موٹر بوٹ آئے تو تم فوراً ہی ایک ہوائی فائر کردینا"۔ "بس صرف ہوائی فائر کردوں گا!" جوزف نے پھر مایوسانہ انداز میں پوچھا۔ "تم پر خون کیوں سوار رہتا ہے جوزف؟" "نہیں تو باس!۔۔ وہ دراصل میں سوچتا ہوں کہ مجھے پھانسی کیوں نہ ہوجائے میں نے سنا ہے کہ اب اسپرٹ میں لائسنس کے بغیر نہیں ملا کرے گی۔ مجھے کون لائسنس دے گا! اس لئے بہتر یہی ہے کہ میں کسی کو قتل کرکے جیل چلا جاؤں!" "اور اگر میں ہی تمہیں قتل کردوں تو۔۔!" "نہیں! اس کی بجائے میری بوتلوں میں اضافہ کردو۔ باس!" جوزف گھگھیا۔ "اب روزانہ پانچ ہزار ڈنڈ۔۔!" "مم۔۔ مرا۔۔ نہیں۔۔ نہیں باس میرےپھیپھڑے پھٹ جائیں گے"۔ "خاموش رہو۔ ہم شراب خانے کے قریب ہیں! تم یہیں سے اسی پگڈنڈی پر مڑ جاؤ! آگے چل کر یہ دو مختلف سمتوں میں تقسیم ہوگئی ہے مگر تم بائیں جانب مڑ جانا۔ پگڈنڈی نہ چھوٹنے پائے۔ اس طرح تم تھیک اسی جگہ پہنچو گے جہاں ٹھہر کر تمہیں میرا انتظار کرنا ہے"۔ "اچھا باس!"جوزف کسی بہت ہی ستم رسیدہ آدمی کی طرح ٹھنڈی سانس لے کر پگڈنڈی پر مڑ گیا۔۔! عمران جو اب روشنی میں آچکا تھا یعنی طور پر جوزف کے لئے ایک مسئلہ بن کر رہ جاتا!۔۔ اسی لئے اور بھی اس نے اسے اندھیرے ہیں میں رخصت کردیا تھا! وہ دراصل ایک بوڑھے بھکاری کے روپ میں تھا اور اس کے جسم پر چیتھڑے جھول رہے تھے! جوزف چلتا رہا! اس مقام کو پہچاننے میں بھی اسے کوئی دشواری نہیں پیش آئی۔ جہاں پگڈنڈی دو شاخوں میں بٹ کر مخالف سمتوں میں مڑ گئی تھی! وہ عمران کی بتائی ہوئی سمت پر چلنے لگا!۔۔ ہوٹل کی پشت پر پہنچ کر اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں! گہرا اندھیرا فضا پر مسلط تھا! کہیں کہیں روشنی کے نقطے سے نظر آرہے تھے! جوزف لاکھ ڈفر سہی لیکن خطرات کے معاملہ میں وہ جانوروں کی سی حس رکھتا تھا! اس نے سوچا کہ فائر کرنے کے بعد وہ کیا کرے گا! اگر کچھ لوگ آگئے اور وہ پکڑ لیا گیا تو۔۔! کیا باس اسے پسند کرے گا!۔۔ اب وہ کوئی ایسا درخت تلاش کرنے لگا جسے فائر کرنے کے بعد اپنے بچاؤ کے لئے استعمال کرسکے! اچانک ایک موٹر بوٹ گھاٹ سے آلگی۔۔ جوزف نے تیزی سے جیب میں ہاتھ ڈالا لیکن پھر آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا! بھلا اندھیرے میں موٹر بوٹ کا رنگ کیسے نظر آتا! ہیڈ لیمپ کی روشنی بھی اسے نہ ظاہر کرسکتی تھی!۔۔ "او۔۔ باس!" جوزف دانت پیس کر بڑبڑایا۔ "تم نشے میں تھے یا مجھے ہی ہوش نہیں تھا! سبز رنگ۔۔ ہائے سبز رنگ۔۔ زرد نکلے تو کیا ہوگا۔۔ نیلا۔۔ اودا۔۔ کتھئی۔۔ زعفرانی۔۔ اب میں کیا کروں۔۔؟ او باس!۔۔ وہ کھڑا دانت پیستا رہا پھر اپنے سر پر مکے مارنے لگا! بہرحال اب اس کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ عمران کو تلاش کرکے پوچھتا کہ اندھیرے میں موٹر بوٹ کا رنگ کیسے دیکھا جائے؟ وہ شراب خانے کے صدر دروازے کی طرف چل پڑا۔ اسے یقین تھا کہ عمران شراب خانے ہی میں ملے گا!۔۔ شاید اس نے کہا بھی تھا!۔۔ شراب خانہ پوری طرح آباد ملا! اس کی چھت زیادہ اونچی نہیں تھی! دیواریں اور چھت سفید آئل پینٹ سے رنگی گئی تھیں! بس ایسا ہی معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی بہت بڑے بحری جہاز کا شراب خانہ ہو! لیکن یہاں اتنی صفائی اور خوش سلیقگی کو دخل نہیں تھا۔ لوگ میلی کچیلی میزوں پر بیٹھے تاڑی یا دیسی شراب پی رہے تھے! ویسے بھی یہاں قیمتی شرابیں شاذونادر ہی ملتی تھیں! یہاں پہنچ کر جوزف کی پیاس بری طرح جاگ اٹھی۔ وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتا اور چندھیائی ہوئی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھتا رہا! لیکن یہاں کہیں اسے عمران نہ دکھائی دیا! وہ جو ابھی زیادہ نشے میں نہیں تھے اسے گھورنے لگے تھے! دفعتاً ایک بوڑھا آدمی جھومتا ہوا اپنی میز سے اٹھا اور جوزف کی طرف بڑھنے لگا! اس کے ہاتھ میں گلاس تھا! اس کی ہیت کذائی پر جوزف کو ہنسی آگئی۔ یہ ایک پست دبلا پتلا آدمی تھا! چہرے پر اگر ڈاڑھی نہ ہوتی تو بالکل گلہری معلوم ہوتا! آنکھیں دھندلی تھیں۔ جوزف کے قریب پہنچ کر وہ رک گیا اور اس طرح سر اٹھا کر اس کی شکل دیکھنے لگا جیسے کسی منارہ کی چوٹی کا جائزہ لے رہا ہو!۔۔ "کیا ہے۔۔؟" جوزف کھسیانے انداز میں ہنس کر پوچھا۔ "مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہارے کانوں تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے مجھے۔۔لاؤڈ اسپیکر نہ استعمال کرنا پڑے!" "ہام!" جوزف اسے پکڑنے کے لئے جھکا اور وہ اچھل کر پیچھے ہٹ گیا! "خفا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بہت غم زدہ آدمی ہوں"۔ بوڑھے نے رونی آواز میں کہا۔ وہ انگریزی ہی میں گفتگو کر رہا تھا! "کیا ہوا ہے تمہیں"۔ جوزف غرایا۔ "ادھر چلو۔ میں تمہیں پلاؤں گا! تمہیں اپنی دکھ بھری داستان سناؤں گا! مجھے یقین ہے کہ تم میری مدد کرو گے! بہت زیادہ لمبے آدمی عموماً مجھ پر رحم کرتے ہیں"۔ "میں نہیں پیوں گا۔۔!" جوزف نے احمقانہ انداز میں کہا اور پھر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ "کیا تمہیں کسی کی تلاش ہے"۔ بوڑھے نے پوچھا۔ "نہیں۔!" "تو پھر آؤ۔ نا۔۔ غم غلط کریں۔ تم مجھے کوئی بہت شریف آدمی معلوم ہوتے ہو"۔ "ہاں۔!" جوزف نے سر ہلا کر پلکیں جھپکائیں۔ "آؤ۔۔ دوست آؤ۔ تمہار دل بہت نورانی ہے!" جوزف سچ مچ خوش ہوگیا! اپنی صفائے دل کے متعلق کسی سےکچھ سن کر وہ نہال ہوجاتا تھا۔ ایسے مواقع پر اسے فادر جوشوا یاد آجتے جنہوں نے اسے عیسائی بنایا تھا اور جو اکثر کہا کرتے تھے کہ "تم سفید فاموں سے افضل ہو کیونکہ تم کالوں کے دل بڑے نورانی ہوتے ہیں"۔ بوڑھا اسے اپنی میز پر لے آیا۔ "اوہ۔۔ شکریہ! میں گھر سے باہر کبھی کچھ نہیں پیتا!" جوزف نے کہا۔ "یہ بہت بری عادت ہے دوست! گھر پر پینے سے کیا فائدہ۔ کیا دیواروں سے دل بہلاتے ہو!" "عادت ہے۔۔! جوزف نے خواہ مخواہ دانت نکال دیئے۔ "نہیں میری خاطر! پیو! میں بہت غم زدہ آدمی ہوں۔۔ میری بات نہ ٹالو! ورنہ میرے غموں میں ایک کا اور اضافہ ہوجائے گا!" "تمہیں کیا غم ہے؟" "ایک دو۔ نہیں۔۔ ہزاروں میں!۔۔ بس تم پیو پیارے۔۔ یہی میرے غم کا علاج ہے۔ تم بہت نیک آدمی ہو ضرور پیو گے مجھے یقین ہے۔۔!" "کیا میرے پینے سے تمہارے غم دور ہوجائیں گے!" جوزف نے بڑی معصومیت سے پوچھا! "قطعی دور ہوجائیں گے۔۔!" "اچھا تو پھر میں پیوں گا! خدا تمہاری مشکل آسان کرے!" جوزف نے انگلیوں سے کراس بنایا۔ "کیا پیو گے؟" "تاڑی۔۔ سالہاسال ٍذرے کہ میں تاڑی نہیں پی۔۔!" "مذاق مت کرو پیارے۔!" بوڑھے نے کہا۔ "میں مذاق نہیں کر رہا"۔ جوزف کو غصہ آگیا! "اچھا۔۔ اچھا۔۔ تاڑی ہی سہی"۔ بوڑھے نے کہا اور اٹھ کر کاؤنٹر کی طرف چلا گیا۔ واپسی پر اس کے ہاتھوں میں تاڑی کی بوتل اور گلاس تھے۔ جوزف نے حلق تر کرنا شروع کیا! جب کھوپڑی کچھ گرم ہوئی تو میز پر گھونسہ مار کر بولا۔ "بتاؤ کس کی وجہ سے تمہیں اتنے دکھ پہنچے ہیں؟" "ابھی بتاؤں گا۔۔ سن سے پہلے آج کا غم دہراؤں گا!" تھوڑی دیر تک خاموشی رہی پھر بوڑھے نے کہا۔ "هزاروں روپے کی شراب برباد ہوجائے گی۔ اگر میں نے دو گھنٹے کے اندر ہی اندر کوئی قدم نہ اٹھایا!" "شراب برباد ہوجائے گی!" جوزف نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔ "ہاں! پانچ بیرل۔ یہاں سے تقریبا ایک میل کے فاصلے پر جنگل میں پڑے ہوئے ہیں۔ میں نے ہی انہیں وہاں چھپایا تھا۔ اب اطلاع ملی ہے کہ پولیس کو شبہ ہوگیا ہے! اس لئے وہ عنقریب وہاں گھیرا ڈالنے والی ہے۔ کاش میرے بازؤوں میں اتنی قوت ہوتی کہ میں ان بیرلوں کو قریب ہی کے ایک کھڈ میں لڑھکا سکتا!" "یہ کون سی بڑی بات ہے"۔ جوزف اکڑ کر بولا۔ "میں چل کر لڑھکا دوں گا!" "اوہ۔۔ اگر تم ایسا کرسکو تو ایک بیرل تمہارا انعام۔۔!" "لاؤ۔۔ ہاتھ"۔ جوزف میز پر ہاتھ مار کر بولا! "بات پکی ہوگئی! میں لڑھکاؤں گا اور تم اس کے عوض مجھے ایک بیرل دو گے!" پھر تاڑی کی مزید دو بوتلیں ختم ہونے تک بات بالکل ہی پکی ہوگئی اور جوزف لڑکھڑاتا ہوا اٹھا۔۔ بوڑھا آدمی کسی ننھے سے بچے کی طرح اس کی انگلی پکڑے چل رہا تھا!۔۔ یہ جوڑا دیکھ کر لوگ بےتحاشہ ہنسے تھے۔۔ اور جوزف تو اب اسے قطعی فراموش کرچکا تھا کہ یہاں کیوں آیا تھا!۔۔

جاری ہے

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team