|
 |
|
|
|
|
|
|
Telephone:- 1-514-970-3200 |
Email:-jawwab@gmail.com |
|
|
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010
|
خطرناک لاشیں
باب
چہارم |
تحریر۔۔۔------------
ابن صفی |
تیسرے چوتھے دن
پھر ایک برہنہ لاش شہر کے ایک حصے میں پائی گئی۔ لیکن کسی کو ہمت نہیں
پڑی کہ لاش کے قریب بھی جاتا! قریبی تھانے میں بھی اس کی اطلاع پہنچی
اور پولیس وہاں آگئی جہاں لاش پڑی ہوئی تھی لیکن دور ہی سے اس کا جائزہ
لیا جاتا رہا۔
سورج ابھی نہیں طلوع ہوا تھا! سڑکیں پوری طرح نہیں جاگی تھیں پھر بھی
اس حصے میں جہاں لاش پڑی ہوئی تھی تل رکھنے کی بھی جگہ نہ رہ گئی تھی!
لاش کے قریب جانے کی ہمت کوئی بھی نہ کرسکا! پھر سورج طلوع ہوا اور
اہستہ آہستہ تمازت بڑھتی رہی اس دوران میں پولیس نے اتنا ہی کام کیا کہ
لاٹھی چارج کرکے ٹریفک کے لئے سڑکیں صاف کردیں! اس وقت تک سارے آفیسر
بھی وہاں پہنچ گئے تھے!
ایک بڑی ایمبولینس گاڑی لاش کے قریب لے جائی گئی! لیکن دوسرے ہی لمحے
میں ایک زور دار دھماکے ساتھ لاش کے پرخچے اڑ گئے گوشت کے لوتھڑے اچھل
اچھل کر دور تک بکھر گئے تھے! لیکن اس بار کسی زندہ آدمی کی شامت نہیں
آئی تھی!
اس بھیڑ میں عمران بھی موجود تھا اور لاش کے اس طرح پھٹ جانے پر اس نے
اس انداز میں اپنے سر کو جنبش دی تھی جیسے وہ کسی حد تک اس معاملے کی
نوعیت کو سمجھ چکا ہو!
کیپٹن فیاض بھی اس کے قریب ہی موجود تھا! لیکن اسے علم نہیں تھا کہ
عمران پہلے ہی اس معاملے میں دلچسپی لے رہا ہے۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں گرانڈ ہوٹل کے ایک کیبن میں بیٹھے گفتگو کررہے
تھے! فیاض ہی اُسے یہاں لایا تھا۔
کیا خیال ہے؟ فیاض نے اس سے پوچھا!
میں سوچ رہا ہوں کہ یہ سال ختم ہونے سے پہلے ہی شادی کرڈالوں! عمران نے
بڑی سنجیدگی سے جواب دیا! بات دراصل یہ ہے کہ اب میں اپنی پرسکون زندگی
سے تنگ آگیا ہوں! بیوی کی کائیں کائیں اور بچوں کی چیخ دھاڑ کے لیے کان
ترس گئے رہے ہیں!
فیاض کچھ نہ بولا! وہ سوچ رہا تھا کہ عمران سے اس مسئلے پر گفتگو ہی نہ
کرے! لیکن پھر وہ خود پر قابو نہ پاسکا!
کیا تم اِدھر اتفاقاً ہی نکل آئے تھے؟
ہاں! وہ اِدھر ہی تو ہے! کیا کہتے ہیں اسے! گھیرال! دریال! پتہ نہیں
بھول رہاں! ارمال وہ اس گھر کو کیا کہتے ہیں جہاں کسی کی شادی ہوتی ہے!
ارے ہاں! ستھرال!
سسرال! فیاض برا سا منہ بنا کر بولا!
ہاں وہ اِدھر ہی ہے جہاں باں چیت چل رہی ہے!
وہ توہ تمہاری پیدائش سے پہلے ہی سے چل رہی تھی! فیاض جل کر بولا تھا!
نہیں تو! تم نے کسی اور کے متعلق سنا ہوگا! یہ تو ابھی کی بات ہے۔ میں
نے خود ہی معاملات طے کئے ہیں!
مگر مجھے تمہاری شادی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے!
دلچسپی لے کر دیکھو کہ کیا حال کرتا ہوں تمہارا! عمران غصیلی آواز میں
بولا! میں جانتا ہوں کہ اِدھر اُدھر کرنے والے میری شادی کبھی نہ ہونے
دیں گے۔ لیکن میں اتنا گدھا نہیں ہوں کہ سسرال کا پتہ دوں گا! ہرگز
نہیں! خود تم سر پٹخ کر مرجاؤ!
میرا دماغ مت چاٹا کرو! صرف اُسے الو بنانے کی کوشش کیا کرو جو تمہیں
جانتا نہ ہو!
میں تو یہی سمجھتا تھا کہ تم مجھے نہیں جانتے! عمران نے مایوسانہ لہجے
میں کہا۔
کیا تم اس کیس میں دلچسپی لے رہے ہو!
کیوں نہ لوں سوپر فیاض! یہ کیس ہی ایسا ہے!
کیا خیال ہے ان لاشوں کے متعلق!
بہت اچھا خیال ہے! اگر کبھی کسی لڑکی کی لاش نظر آئی تو اسی سے شادی
کرلوں گا۔
سوپر فیاض کیا بتاؤں! اگر میں کوئی ناول نویس ہوتا تو ان لاشوں کے
متعلق ایک ناول ضرور لکھتا اور اس کا نام رکھتا لاشوں کے پٹاخے، کیا
خیال ہے؟
میں تم سے مدد کا طالب نہیں ہوں!
مجھے معلوم ہے سوپر فیاض کہ تم نے آئے دن نئی اور خوبصورت اسٹینو
لڑکیاں رکھ کر کافی ترقی کرلی ہے! اور کسی دن بیوی کے ہاتھوں وکٹوریہ
کراس پاکر کرئی دہرمشالہ کھول لو گے! اور!
مجھ سے بے تکی بکواس نہ کرنا سمجھے!
تم مجھے بہت دنوں سے جانتے ہو، سوپر فیاض اور نہ بتانا!
تم سے گفتگو کرنا بھی......!
ہاں اپنی بے عزتی کرانے کے مترادف ہے! عمران نے سر ہلا کر کہا!
"اس لئے تم چائے کی قیمت ادا کئے بغیر اٹھ جاؤ گے۔ ٹھیک ہے! مگر میں
تمہیں آگاہ کردوں گا کہ میں سسرال سے واپس آ رہا ہوں اس لئے میری جیبوں
میں تمہیں ایک پائی بھی نہ ملے گی!"
فیاض کچھ نہ بولا۔ پیشانی پر شکنیں ڈالے ہوئے چائے پیتا رہا!
عمران نے کچھ دیر بعد کہا! "اس سلسلے میں جعفر سعید کے پیچھے جھک مارنا
فضول ہے!"
"تم کیا جانو!" فیاض چونک پڑا!
"میرے لئے یہ سوال غیر ضروری ہے!"
"نہیں بتاؤ! تمہیں جعفر سعید کے متعلق کیسے علم ہوا؟"
"میں تم سے کبھی اس قسم کی باتیں نہیں پوچھتا!" عمران نے بھرائی ہوئی
آواز میں کہا۔ "پتہ نہیں میں کس جعفر سعید کا تذکرہ کر رہا ہوں اور
تمہارے ذہن میں کوئی اور جعفر سعید ہو!"
"تم باقاعدہ طور پر محکمے کی ٹوہ میں رہتے ہو!"
"اگر میرا فلیٹ تمہارے محکمے کی ٹوہ میں ہے تو میں بلاشبہ اس میں
باقاعدہ طور پر رہتا ہوں! اور کوئی مجھے وہاں سے نکال نہیں سکتا!"
فیاض کچھ دیر تک عمران کی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر مسکرا کر بولا۔ "تو
تم پہلے ہی سے اس کے چکر میں ہو! اس لئے جعفر سعید کے متعلق تمہیں بہت
کچھ معلوم ہو چکا ہو گا۔!
"میں نے اس کے سلسلے میں اپنا وقت برباد کیا" عمران ٹھنڈی سانس لے کر
بولا۔ "لیکن سوپر فیاض اگر تم عقل سے کام لو تو وہ آدمی کار آمد بھی
ثابت ہو سکتا ہے۔"
"کس طرح؟"
"غیر ملکی عورتوں کے ریکارڈ نکالو! اُن کے شناختی فارم پر ان کی
تصویریں موجود ہی ہوں گی!۔۔۔۔ پھر اس آدمی جعفر سعید کو آزماؤ! یہ ایک
مشکل کام ہے بڑا وقت صرف ہو گا! مگر ہو سکتا ہے کہ تصویر سامنے آنے پر
اسے اس لڑکی کا حلیہ یاد آجائے!"
"میں کہتا ہوں! اگر وہ کوئی یورثیسیئن ہوئی تو۔۔۔۔ یورثیسیئن اور
یوروپین میں تمیز کرنا ہر ایک کے بس کا روگ نہیں! اگر وہ کوئی مقامی
یورثیسیئن ہی ہوئی تو اس کا ریکارڈ کہاں ملے گا!"
"اچھا تو پھر دوسری تدبیر سنو!" عمران سنجیدگی سے بولا۔
"سناؤ!"
"آج نہا دھو کر عطر مل کر سو رہنا! میں بارہ بجے رات کو حصار کھینچ کر
ایک وظیفہ پڑھوں گا۔! لڑکی تمہیں خواب میں نظر آجائے گی۔ اس کے علاوہ
اگر کبھی عشق میں ناکامی ہو! لاٹری سٹہ ریس میں کوئی دشواری پیش آئے،
مقدمے میں ناکامی کا اندیشہ ہو تو سیدھے میرے پاس چلے آنا۔"
"بکواس شروع کر دی تم نے!"
"پھر میں کیا کروں! جب تم محض اس کے یورثیسیئن ثابت ہو جانے کے ڈر سے
ریکارڈ الٹنے کی ہمت نہیں کر سکتے تو پھر اس کے علاوہ اور کیا چارہ رہ
جاتا ہے کہ میں عمل عملیات اور پھونک جھاڑے کام نکالنے کی کوشش کروں!"
"پریشان مت کرو! میں یونہی بہت زیادہ بور ہو چکا ہوں!"
"میں نے تمہیں شاذونادر ہی خوش دیکھا ہے!" عمران نے معموم لہجے میں کہا۔
"آخر ان لاشوں کے متعلق تم نے کیا نظریہ قائم کیا ہے!"
"شاید مرنے والے نے کوئی ٹائم بم نگل لیا تھا جو زہریلا تھا! زہر نے تو
اس کا کام تمام کیا اور دھماکے نے جسم کے چیتھڑے اڑادیئے! اس کے علاوہ
اور کیا سوچا جا سکتا ہے۔"
"عمران تمہاری شامت تو نہیں آگئی!"
"ابھی نہیں آئی! ابھی تو سسرال والوں سے بات چیت چل رہی ہے!" عمران نے
سر ہلا کر بڑی سنجیدگی سے جواب دیا!
"میں کہہ رہا ہوں ڈھنگ کی بات کرو! ورنہ اگر میں بگڑ گیا تو تم اس کیس
میں ایک قدم بھی نہ چل سکو گے!"
"آہا۔۔۔۔ ٹھہرو۔۔۔۔ پہلے میرے ایک سوال کا جواب دو!" محکمہ خارجہ کی
سیکرٹ سروس سے تمہارا کیا تعلق ہے!"
"کچھ بھی نہیں! میں کیا جانوں کہ وہ کیا بلا ہے!"
"تو پھر رحمان صاحب ہی جھوٹے ہوں گے۔۔۔۔!" فیاض نے بُرا سا منہ بنا کر
کہا!
"کیا مطلب"
"رحمان صاحب نے ایک دن دوران گفتگو میں کہا تھا کہ عمران کو اس کیس میں
گھسیٹنے کی کوشش مت کرنا ورنہ کیس سیکرٹ سروس تک پہنچ جائے گا!"
"پتہ نہیں! بھلا ان کی کہی ہوئی باتوں کے لئے میں کیسے جوابدہ ہو سکتا
ہوں!"
"تو ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے!"
"ہر گز نہیں! میں تو آج کل کچے ٹماٹروں کا تھوک بزنس کر رہا ہوں!"
"خیر۔۔۔۔ میں اب کچھ نہیں پوچھوں گا!" فیاض نے ناخوش گوار لہجے میں کہا۔
"لیکن اتنا یاد رکھو کہ مجھ سے بگاڑ کر ایک قدم بھی نہ چل سکو گے!"
عمران نے اس جملے پر کچھ نہیں کہا خاموشی سے چیونگم کا پیکٹ پھاڑتا رہا!
وہ چائے ختم کر چکے تھے! فیاض کے چہرے پر الجھن کے آثار نظر آنے لگے!
کچھ دیر بعد عمران نے کہا۔ "سوپر فیاض! میں تمہیں مشورہ دوں گا کہ تین
چار ماہ کی رخصت پر چلے جاؤ! ورنہ مفت میں کسی دن عمران سے ٹکرا کر
اپنے ہاتھ پیر توڑ بیٹھو گے! خصوصیت سے اس کیس میں۔۔۔۔؟"
"اچھی بات ہے!" فیاض جھلا کر بولا۔ "جس وقت بھی گرفت میں آگئے اس بُری
طرح رگڑوں گا کہ صورت بھی نہ پہچانی جا سکے گی۔"
میں استدعا کرتا ہوں کہ اسی وقت میری صورت بگاڑ دو تاکہ میرے سسرال
والے مجھے پہچان نہ سکیں! میں اب وہاں شادی نہیں کرنا چاہتا!
فیاض نے چائے کی قیمت ادا کی اور باہر نکل گیا! |
جاری
ہے |
   |
 |
 |
 |
 |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
 |
E-mail:
Jawwab@gmail.com |
|
|
|