|
 |
|
|
|
|
|
|
Telephone:- 1-514-970-3200 |
Email:-jawwab@gmail.com |
|
|
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010
|
خطرناک لاشیں
باب
دہم |
تحریر۔۔۔------------
ابن صفی |
صفدر تین دن سے اس لڑکی کا تعاقب کر رہا تھا۔ وہ بارٹل اسٹریٹ کی ایک
عمارت کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتی تھی۔ راتیں ہوٹلوں میں گزارتی تھی
اور دن بھر فلیٹ میں پڑی رہتی تھی۔ اس کا نام مارتھا اور یہ یوریشئین
تھی۔
پچھلے دنوں اس نے گرینڈ میں ایک شکار پھانسا تھا اور اس پر روغن قاز مل
رہی تھی۔ یہ ایک وجیہہ نوجوان تھا۔ لیکن صفدر کا اندازہ تھا کہ عورتوں
کے معاملے میں بالکل اناڑی ہی ہے کیونکہ کل سے آج تک اس نے مارتھا پر
بڑی رقم خرچ کر دی تھی۔
اس نے مارتھا سے کہا تھا کہ وہ بہت عرصہ سے کسی سفید فام لڑکی سے دوستی
کا خواہشمند تھا۔۔۔ اور پھر یہ تھی بتا دیا تھا کہ نہ جانے کیوں اسے
انگریز لڑکیوں سے خوف معلوم ہوتا ہے۔ اس پر مارتھا بہت ہنسی تھی۔
آج بھی وہ دونوں گرینڈ میں تھے اور صفدر انہیں بہت قریب سے دیکھ رہا
تھا۔ اس نوجوان نے مارتھا کو اپنا نام صادق بتایا تھا۔
"میں پچھلی رات سو نہیں سکا۔" وہ مارتھا سے کہہ رہا تھا۔
"کیوں؟" مارتھا نے پوچھا۔
"بس نیند نہیں آئی تھی۔ تمہارے متعلق سوچتا رہا!"
"کیا سوچ رہے تھے؟"
"یہی کہ تم کتنی اچھی ہو!" کاش ہم بہت دنوں تک دوست رہ سکیں!"
"تم چاہو گے تو ضرور رہ سکیں گے۔"
"یہی تو مصیبت ہے۔۔۔!" صادق نے ٹھنڈی سانس لی۔
"کیا مصیبت ہے۔۔۔؟" وہ بس یونہی رواداری میں سوالات کرتی جا رہی تھی۔
انداز سے نہیں معلوم ہو رہا تھا کہ اسے اس موضوع سے ذرہ برابر بھی
دلچسپی ہو۔
"مصیبت !" صادق نے پھر ٹھنڈی سانس لی "کل اگر کوئی تم سے بھی زیادہ
خوبصورت لڑکی مل گئی تو میرا دل چاہے گا کہ اس سے دوستی پیدا ہو جائے۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرو! ویسے ناولوں وغیرہ میں تو یہ پڑھتا
ہوں کہ کسی ایک کو کسی ایک سے محبت ہو جاتی ہے اور پھر وہ ساری زندگی
کسی دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھتا۔ یعنی اسے اپنی محبوبہ سے زیادہ حسین
اور کوئی لڑکی ملتی ہی نہیں ہے۔ پھر مجھے اب تک کوئی ایسی لڑکی کیوں
نہیں ملی جس کے آگے اور کوئی پسند ہی نہ آ سکتی!
"ارے ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے" مارتھا مضحکہ اُڑانے والے انداز میں
ہنسی، "جب جوان ہو جاو گے تو کوئی ایسی لڑکی بھی مل جائے گی۔"
"کیا ۔ ۔ ۔ ؟" صادق نے کہا ۔ " ابھی تک میں جوان نہیں ہوں"
"ابھی تو تمہارے منہ سے دودھ کی بُو آتی ہے۔ ۔ ۔ لیکن میں تمہاری پرورش
کا ذمہ لیتی ہوں، بہت جلد جوان ہو جاو گے۔ ۔ ۔ لڑکے"
اس نے ویٹر کو آواز دی اور جب وہ قریب آ گیا تو بولی ۔ "بےبی کے لیے
ٹافیاں لاو"
ویٹر شاید اسے نشے میں سمجھ کر مُسکراتا ہوا چلا گیا۔
"ارے ۔ ۔ ۔ تم میرا مضحکہ اُڑا رہی ہو" صادق نے حیرت اور غصے کے ملے
جُلے اظہار کے ساتھ کہا ۔
"نہیں ڈئیر ۔ ۔ ۔ یہ مضحکہ نہیں بلکہ تمہاری عزت افزائی ہے۔ اس سے پہلے
میں نے کسی کو بےبی نہیں کہا"
"کیا میں اتنا چھوٹا ہوں کہ تم مجھے بےبی کہو؟"
"یقینا تم ننھے سے بچے ہو۔ مجھے تم پر بے ھد پیار آتا ہے۔ ۔ ۔ اور اب
میں تمہارے لیے لوریاں سیکھوں گی۔"
"دیکھو ۔ ۔ ۔ میرا مذاق نہ اُڑاو ۔ ۔ ۔ ورنہ میں خود کُشی کر لوں گا۔"
مارتھا ہنسنے لگی اور پھر سنجیدہ ہو کر بولی۔ "میرا خیال ہے کہ میں تم
سے محبت کرنے لگی ہوں۔"
نوجوان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں اور اس کے ہونٹوں میں اس قسم کی
کپکپاہٹ نظر آنے لگی جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو۔ لیکن نروس ہو جانے کی
وجہ سے کہنے کا ڈھنگ نہ سُوجھ رہا ہو۔
صفدر کی دلچسپی بڑھتی رہی۔
"پچھلی رات میں نے تمہیں خواب میں بھی دیکھا تھا۔" مارتھا نے ٹھنڈی
سانس لے کر کہا۔
"مم ۔ ۔ ۔ میں نے بھی" صادق ہکلایا۔
"اوہ ۔ ۔ ۔ تم نے بھی دیکھا تھا۔"
صادق نے کسی شرمیلی لڑکی کی طرح آنکھیں نیچی کر کے سر ہلا دیا۔
"تب تو ۔ ۔ ۔ ہم ہمیشہ دوست رہیں گے۔ ۔ ۔ کیوں؟" وہ ہنس پڑی اور وہ
دونوں دیر تک ہنستے رہے۔
اسی رات صفدر نے جولیانا فٹنر کو اطلاع دی تھی کہ مارتھا نے کل جس
نوجوان کو پھانسا تھا اُس سے آج اُسے محبت بھی ہو گئی ہے اور وہ دونوں
زندگی بھر دوست رہیں گے۔
"میرا خیال تو یہ ہے کہ تم وقت برباد کر رہے ہو۔" جولیا بولی۔
"نہیں میرا خیال ہے کہ میں جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچوں گا۔"
"اس کے علاوہ نہیں کہ دونوں عنقریب شادی کر لیں گے۔" جولیانا نے ہنس کر
کہا۔
"دیکھو ، کیا ہوتا ہے؟" صفدر نے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔
|
جاری
ہے |
   |
 |
 |
 |
 |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
 |
E-mail:
Jawwab@gmail.com |
|
|
|