اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 

 

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010

خطرناک لاشیں

باب بارہ

تحریر۔۔۔------------ ابن صفی

مل ایریا میں یہ تیسری برہنہ لاش۔۔۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے سارے شہر کی پولیس یہیں آ گئی ہو۔ خود محکمہ سراغ رسانی کے ڈائریکٹر جنرل رحمان صاحب بھی وہاں موجود تھے۔۔۔ لاش کے گرد خاکی وردی والوں کا ایک بہت بڑا دائرہ تھا جس کا قطر چار سو گز سے کسی طرح کم نہ رہا ہو گا۔ وہاں سے پبلک کو ہٹانے کے لیے پولیس کو کئی بار لاٹھی چارج بھی کرنا پڑا تھا۔

رحمان صاحب نے عمران کو بھی دھمکی دی تھی کہ اگر وہ وہاں سے چلا نہ گیا تو زبردستی ہٹا دیا جائے گا۔ لیکن عمران اب بھی ان کے قریب ہی کھڑا ادھر اُدھر کی بے تُکی ہانک رہا تھا۔

لاش پر دُھوپ پھیل گئی تھی اور مل کی چمنی سے نکلنے والے گنجان دھوئیں کا عکس اُن پر پڑ رہا تھا۔

"مجھے بڑی حیرت ہے ڈیڈی" عمران رحمان صاحب سے کہہ رہا تھا ، "فیاض کا طریق کار نہیں معلوم ہوتا۔ اس میں اتنی سمجھ بُوجھ نہیں رہی کہ کوئی پیچیدہ راہ اختیار کر سکے اور پھر یہ ویسے ہی بالکل بے تُکی بات معلوم ہوتی ہے۔"

"میں کہتا ہوں تم جاو یہاں سے۔"

"نہیں ڈیڈی ، فی الحال مجھے یہیں رہنے دیجیے۔ اس میں آپ کے محکمے کا فائدہ ہے۔"

"بکواس مت کرو۔"

"اچھا اب میں بالکل خاموش رہوں گا۔ لیکن مجھے یہاں کچھ دیر اور رکنے دیجیے مگر آپ تک فیاض کا دوسرا پیغام کیسے پہنچے گا؟"

"اس کا انتظام کیا جا چکا ہے۔ آفس میں کال ریسیو کر لی جائے گی۔"

"ٹھیک ہے۔۔۔ اچھا اب میں بالکل خاموش ہوں، لیکن اس گدھے نے وہی حرکت کی ہے کم از کم لاش کو لنگوٹ ہی بندھوا دی ہوتی ۔"

"شٹ اپ۔۔۔"

"اب نہیں بولوں گا۔" عمران نے سختی سے ہونٹ بند کر لیے۔

دھوپ میں گرمی بڑھتی جا رہی تھی اور لاش کے گرد گھیرا ڈالنے والے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے تھے کہ اچانک لاش متحرک نظر آنے لگی۔۔۔ مردہ شاہد۔۔۔ ہاتھ پیر پھیکن رہا تھا اور پھر سننے والوں نے ایسی آوازیں سنیں کہ انہیں اپنے کانوں پر یقین کرنا دشوار معلوم ہونے لگا۔۔۔ شاہد کسی نوزائیدہ بچے کی طرح حلق پھاڑ رہا تھا۔ "اُو آو۔۔۔ اُو آ۔۔۔ اُوآ۔۔۔"

اور بالکل اسی طرح ہاتھ پیر پھینک رہا تھا جیسے ابھی ابھی پیدا ہوا ہو۔

"اس عمر کے بچوں کو تو کپڑے پہن کر ہی پیدا ہونا چاہیے۔" عمران تشویش کُن لہجے میں بڑبڑایا۔

کیا مصیبت ہے ۔رحمان صاحب بولے ۔

مصیبت ہی ہے ڈیڈی ، دنیا کی کوئی نرس اس کی پرورش کرنے پر آمادہ نہ ہوسکے گی۔خدا کے لیئے جلد ایک لنگوٹی کا انتظام کیجئے۔

عمران گدھے خاموش رہو۔

خاموشی کا وقت گزر گیا ڈیڈی ، کیا کہا تھا فیاض نے کہ ایک لاوارث مردے پر شاہد کا میک اپ کیا گیا ہے۔ ہاں ، یہی کہتا تھا۔

اگر یہ شاہد نہ ہو تو میں قسم کھاتا ہوں کہ آج ہی گرداس پور چلا جاؤں گا۔لیکن خدارا جلد ہی اس بالغ نوزائیدہ کے لیئے کپڑوں کا انتظام کرائیے ۔۔۔۔ اور کیپٹن فیاض سے بھی ہاتھ دھو لیجئے ۔

کیا مطلب !!!!!!!

اگر یہ شاہد نہیں ہے تب تو ٹھیک ہی ہے ورنہ کل فیاض بھی دوبارہ پیدا ہوکر دکھا دے گا۔پتہ نہیں تم کیا بک رہے ہو ۔رحمان صاحب نے پریشان لہجے میں کہا اور شاہد کی طرف بڑھ گئے ۔لوگوں میں ہراس پھیل رہا تھا ۔جلد ہی ایک چادر کا انتظام کرکے شاہد کو اُٹھایا گیا ۔لیکن وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ نوزائیدہ بچّے کی طرح بدستور روئے جا رہا تھا۔

رحمان صاحب نے وہ تمام طریقے اختیار کئے جن سے ہر قسم کا میک اپ ختم ہوسکتا تھا لیکن شاہد کی شکل میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی ۔

پھر اسے ایک اسٹریچر پر ڈال کر پولیس ہسپتال روانہ کردیا گیا۔

رحمان صاحب نے عمران سے کہا۔چلو میرے ساتھ چلو۔

مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے ڈیڈی۔

چلو بکواس نہ کرو ، ورنہ بری طرح پیش آؤں گا۔

وہ اسے اپنے آفس میں لائے اور کرسی کی طرف دیکھ کر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے ۔

اب بتاؤ کہ تم اس کیس کے بارے میں کیا جانتے ہو۔

ابھی تک لاشیں دھماکے کے ساتھ پھٹ جاتی تھیں لیکن آج ایک لاش ۔۔۔۔!“

یہ میں بھی جانتا ہوں ۔۔۔۔۔سارا شہر جانتا ہے ! تم فیاض کے بارے میں کیا کہہ رہے تھے ۔

یہی کہ اس کا موجودہ عہدہ اُس کے لیئے ایک بہت بڑا بار ہے۔

میں تمہیں یہاں اس لیئے نہیں لایا کہ تم یہاں بیٹھ کر عہدوں میں ردّوبدل کرو۔

عمران کچھ نہ بولا ۔

بولو ! تم اس کیس کے بارے میں کیا جانتے ہو۔

جب آپ کا اتنا بڑا محکمہ بے بس ہوکر رہ گیا ہے تو میں بے چارہ ایک بے وسیلہ آدمی کیا جان سکوں گا۔

فیاض نے مجھے بتایا تھا کہ تم پاگل لڑکی کے لیئے چھان بین کر رہے تھے ۔

پاگل ہونے سے پہلے کی بات ہے ڈیڈی ۔عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔میں تو ان عورتوں سے بھی دور بھاگتا ہوں جو پاگل نہیں ہیں۔۔۔۔۔ چہ جائے کہ پاگل عورتیں۔۔۔۔ارے باپ رے ۔

بہتر ہے کہ تم حوالات میں آرام کرو۔رحمان صاحب نے ہاتھ گھنٹی کی طرف بڑھایا۔

ٹٹ ، ٹھہریئے ۔۔۔۔ عمران ہاتھ اُٹھا کر بولا۔ جلدی نہ کیجئے ۔

کیا فیاض نے آپ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں سے بول رہا ہے ۔

نہیں ۔

اور نہ ہی اپنی اسکیم کے متعلق بتایا تھا ۔

اور آج بھی اس نے ابھی تک وعدے کے مطابق دوبارہ فون نہیں کیا تھا۔

قطعی نہیں۔

تب آپ یقین کریں کہ وہ انہیں لوگوں کے ہاتھ میں پڑ گیا ہے جن کا تعلق لاشوں سے ہے۔

یہ کیسے کہا جا سکتا ہے۔

اس طرح کہ وہ کسی لاوارث مردے کی لاش نہیں تھی ، شاہد ہی تھا ۔

رحمان صاحب کسی سوچ میں پڑ گئے ۔پھر بولے ۔مگر مصیبت تو یہ ہے کہ وہ بھی پاگل ہو گیا ہے۔

خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ پاگل ہوگیا ہے یا دوبارہ پیدا ہوا ہے۔

تم اپنی بکواس بند نہیں کرو گے ۔

اگر حوالات کا آرام پسند آیا تو یقیناً کردوں گا ڈیڈی ۔

رحمان صاحب چند لمحے عمران کو گھورتے رہے پھر بولے ۔

میں بہت پریشان ہوں ، میں بہت پریشان ہوں یہ میرے محکمے کی پرسٹیج کا سوال ہے۔

خواہ میری گردن کٹ جائے لیکن آپ کے محکمے کی شان برقرار رہے گی۔

تم کیا کرو گے ؟

جو ہمیشہ کرتا رہا ہوں اگر آپ کی یادداشت میں میرا کوئی ناکام کیس بھی ہو تو ضرور بتائیے ۔

تم مجھے اس کیس کے بارے میں کیوں نہیں بتاتے ۔

میں ابھی کیا بتاؤں ڈیڈی جب کے بہتیری باتیں اب بھی میرے ذہن میں صاف نہیں ہوئیں ، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ کیس فیاض ہی کا بگاڑا ہوا ہے ، اور وہ اپنی عقلمندیوں کی بدولت کسی مصیبت میں گرفتار ہوگیا ہے۔

کیوں اس نے کیا کیا تھا ؟

ہلدا کی شناخت ہوجانے پر اسے احتیاط سے کام لینا چاہیئے تھا ۔کیا ضرورت تھی کہ شاہد اُس سے مل بیٹھتا۔

مل بیٹھتا کیا مطلب ؟؟

اوہ ۔۔۔۔ تو آپ کو پوری طرح باخبر بھی نہیں رکھا گیا۔

نہیں مجھے اس کا علم نہیں ہے۔

عمران نے شاہد اور ہلدا کی داستان دہراتے ہوئے کہا ۔ میں نے فیاض کو اس سے باز رکھنے کی بھی کوشش کی تھی ! لیکن ۔۔۔۔۔ کون سنتا ہے ۔۔۔۔۔ اور ہلدا تک اس کے فرشتے بھی نہ پہنچ سکتے تھے یہ تدبیر میں نے ہی بتائی تھی کہ غیر ملکیوں کے شناختی فارم نکلوائے جائیں ۔

یقیناً ان لوگوں سے بڑی حماقت سرزد ہوئی ۔

اب نہیں کہا جا سکتا کہ کل کیا ہو ، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ فیاض بھی شاہد ہی کی تقلید کرتا ہوا نظر آئے ۔

کیوں ؟؟؟؟

مجھے یقین ہے کہ فیاض انہیں لوگوں کے پاس ہے ، اور کل اسے مجبور کیا گیا تھا کہ وہ آپ کو فون کرے ۔اس طرح وہ لوگ دراصل یہ چاہتے تھے کہ لاش کچھ دیر تک یونہی پڑی رہے اسے چھیڑا نہ جائے اگر چھیڑی جاتی تو ممکن تھا کہ وہ بھی انہیں دو لاشوں کی طرح برسٹ ہوجاتی ۔

یہ کیس میری سمجھ سے باہر ہے ! رحمان صاحب اُکتا کر بولے ۔

دیکھیئے نا لاش کو صرف پولیس ہی ہاتھ لگا سکتی ہے ، وہ چاہتے تھے کہ آفیسر کو اس سلسلے میں استعمال کیا جائے ، فیاض سے وہ سب کچھ زبردستی کہلوایا گیا ہوگا جو اس نے کہا تھا ۔پھر آپ نے بھی تو وہی کیا جو اس نے کہا تھا ۔دور رہ کر لاش کی نگرانی کی جاتی رہی اور پھر وہ لاش پھٹ جانے کی بجائے اپنا انگوٹھا چوسنے لگی ۔

تم ٹھیک کہہ رہے ہو ، رحمان صاحب مضطربانہ انداز میں بولے ، مگر اب کیا کیا جائے ؟

یہ بتانا مشکل ہے کہ اب کیا کیا جائے مجھے تو جو کچھ کرنا ہوتا ہے صرف موقع پر ہی کر گزرتا ہوں ۔رحمان صاحب خاموش ہوگئے ۔اور عمران کچھ دیر بعد ان سے اجازت طلب کر کے اُٹھ گیا ۔
 

جاری ہے

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team