|
 |
|
|
|
|
|
|
Telephone:- 1-514-970-3200 |
Email:-jawwab@gmail.com |
|
|
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010
|
خطرناک لاشیں
باب
اٹھارہ |
تحریر۔۔۔------------
ابن صفی |
دوسرے دن ڈاکٹر
گلبرٹ رحمان صاحب کے آفس میں لایا گیا! اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑی
ہوئی تھیں!
عمران بھی موجود تھا اور فیاض ایک اپاہجوں والی پہئے دار کرسی پر لایا
گیا تھا! ڈاکٹر گلبرٹ کے چہرے پر پریشانی ظاہر نہیں ہو رہی تھی۔
اس نے رحمان صاحب کو مخاطب کر کے کہا۔ "تم لوگ جاہل ہو! میں نے ایک بہت
بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے!"
"ہم لوگ تو ازلی جاہل ہیں! لیکن تم اس کی پروا نہ کرو!" عمران بول پڑا۔
"میں ایک ایسا تجربہ کر رہا تھا جس سے مستقبل کی دنیا بڑی شاندار اور
پرامن بن سکتی!"
"کیا تجربہ!" رحمان صاحب اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولے۔
"یہ بات تم جیسے حقیر آدمیوں کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ویسے مجھے یہ
بتاؤ کہ میری وجہ سے کتنی جانیں ضائع ہوئی ہیں!"
"تین!"
"اور اس کے لئے تم مجھے پھانسی کے تختے تک لے جانا چاہتے ہو!" ڈاکٹر
گلبرٹ نے ایک طویل سانس لے کر کہا۔
"لیکن میں ثابت کر سکتا ہوں کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے!"
"کوشش کرو!" عمران سر ہلا کر بولا۔
"میں نے یہاں کے ایک دریا پر ایک پل دیکھا تھا۔"
"ضرور دیکھا ہوگا! کیونکہ تم لڑکی کی طرح اندھے نہیں ہو!" عمران نے کہا۔
"پوری بات سنو!" ڈاکٹر گلبرٹ غرایا۔
"سناؤ!" عمران نے ٹھنڈی سانس لی!
"اس پل پر ایک یادگار بھی نظر آئی تھی جس پر تحریر تھا! ان بہادروں کی
یاد میں جنہوں نے اپنی جانیں دے کر اس پل کو پائیہ تکمیل تک پہنچایا
تھا۔ میں کہتا ہوں کہ میرے تجربے میں ضائع ہونے والوں کی یادگار بناؤ
اور اس پر لکھو۔ "ان بہادروں کی یاد میں جنہوں نے انسانیت کا مستقبل
سنوارنے کے سلسلے میں اپنی جانیں دی ہیں اور انہیں جس نے استعمال کیا
تھا اسے بھی ہم سلام کرتے ہیں!"
"سلام کرو سوپر فیاض!" عمران احمقانہ انداز میں بولا۔
"تم خاموش رہو۔" رحمان صاحب نے اسے ڈانٹا اور وہ مسکین سی صورت بنا کر
رہ گیا۔
"اس آدمی کو یہاں سے ہٹا دو ! ورنہ میں اپنے سر پر ہتھکڑیاں مار لوں گا۔"
ڈاکٹر گلبرٹ نے عمران کو گھورتے ہوئے دانت پیس کر بولا۔
"تم اپنا بیان جاری رکھو وہ اب نہیں بولے گا۔" رحمان صاحب بولے۔
"میں نے میڈیکل سائنس میں اس صدی کا سب سے بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے!"
"ارے کیا بکواس لگا رکھی ہے تم نے!" رحمان صاحب بھی جئھنجھلا گئے!
"اسے میرے حوالے کر دیجئے جناب!" کیپٹن فیاض نے کہا۔
"بیکار باتیں نہ کرو!" رحمان صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ پھر گلبرٹ سے
بولے۔ "یہ بتاؤ کہ میرے محکمے کا وہ آفیسر شاہد کیسے ٹھیک ہوگا۔"
"بس ایک سال بعد وہ ممی کو ممی اور پاپا کو پاپا کہنے لگے گا؟"
"کیا مطلب؟"
"یہ سمجھ لو کہ وہ بالکل دوبارہ پیدا ہوا ہے اپنی پچھلی زندگی اسے کبھی
نہ یاد آ سکے گی! وہ بالکل اسی طرح آہستہ آہستہ شعور و ا دراک حاصل کرے
گا! جیسے نوزائیدہ بچے کرتے ہیں اور اسے بھی یاد رکھو کہ اس کی جتنی
بھی عمر ہے اتنی ہی اس کی زندگی اور بڑھ گئی ہے!"
"اس سے تمہارا کیا مقصد ہے؟"
"آدمی کی شخصیت بدل دینا! لاؤ میرے پاس بڑے سے بڑا عادی مجرم لاؤ! میں
اسے ایک نوزائیدہ بچہ بنا دوں گا۔ پھر جس راستے پر چاہو اسے لگا دو۔
اسی پر چل نکلے گا اور اپنی زندگی اسے کبھی نہ یاد آئے گی!ً کیا اس طرح
دنیا کے بہت برے آدمی اچھے نہیں بن سکتے!"
"یار تم نے وہیں کیوں نہیں بتا دیا تھا!" عمران نے شکایت آمیز لہجے میں
کہا۔ "ورنہ میں سوپر فیاض کی جگہ خود کو پیش کر دیتا۔!" عمران پھر بول
پڑا۔
لیکن ڈاکٹر گلبرٹ اس کی پروا کئے بغیر کہتا رہا۔ "آج تم مجھے پھانسی دے
دو۔ لیکن کل کی دنیا تمہارے نام پر تھوکے گی!"
"یہ سارا قصور تمہاری بکرا سٹائل کی داڑھی کا ہے!" عمران نے ٹھنڈی سانس
لے کر کہا مگر گلبرٹ اب بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔
"دو لاشوں کے پھٹ جانے کی ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ان
لاشوں کو ہاتھ نہ لگایا جاتا تو وہ کبھی پھٹتیں!"
"مگر دوسری لاش کو تو ہاتھ نہیں لگایا گیا تھا!" رحمان صاحب بولے۔
"دراصل لاشوں پر سایہ نہ پڑنا چاہئے! کسی چیز کا سایہ بھی انہیں تباہ
کر سکتا ہے۔ تم یوں نہیں سمجھو گے! وضاحت کرنی پڑے گی۔ جس پر بھی تجربہ
کیا گیا ہے پہلے اس کے قلب کی حرکت بند کی جاتی ہے۔ اور پھر اسے برہنہ
کر کے کسی ایسی جگہ دھوپ میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں اس پر صرف دھوئیں کا
سایہ پڑ سکے یعنی اس پر پڑنے والی سورج کی شعاعیں دھوئیں سے گذر کر اس
کے جسم کے کسی حصے پر پڑیں۔ اسی لئے میں نے اس کام کے لئے مل ایریا کو
منتخب کیا تھا۔!"
عمران نے فیاض کو گھور کر دیکھا!
"کیپٹن فیاض کو میں نے اسی لئے پکڑا تھا کہ کم از کم ایک تجربہ تو
کامیاب ہو جائے! صرف پولیس ہی لوگوں کو لاش کے قریب جانے سے روک سکتی
تھی۔ اگر ایسا نہ کرتا تو انسپکٹر شاہد کے بھی پرخچے اڑ گئے ہوتے! پھر
میں نے اس تجربہ کے لئے کیپٹن فیاض کو منتخب کیا! لیکن بہرحال مجھے
شکست ہو گئی!"
"تم بہر حال قاتل ہو!" رحمان صاحب نے کہا۔ "اگر تم بذات خود اس معاملے
میں نہیں ہو تو یہ قتل تماری ہی ایماء پر ہوئے ہیں! اور وہ اندھی لڑکی!"
"اندھی لڑکی نے کسی کو بھی قتل نہیں کیا!" گلبرٹ بولا۔
"تم جھوٹے ہو!" فیاض نے غصیلے لہجے میں کہا۔
"مجھے جھوٹا ثابت کرنے کے لئے تمہیں شاہد کے جسم پر زخم کا نشان دکھانا
پڑے گا۔"
"زخم کا نشان تو نہیں ہے!" رحمان صاحب نے سر ہلا کر کہا۔
"اگر ہوتا تو تہمارے بیان کے مطابق دل ہی کے مقام پر ہوتا لیکن شاہد کا
جسم بالکل بے داغ ہے!"
"وہ لڑکی اندھی نہیں ہے! بلکہ اندھے پن کی بہترین ایکٹنگ کرتی ہے! میں
اس ڈرامے کا مقصد بھی واضح کئے دیتا ہوں! دراصل قلب کی حرکت خوف کے
مارے خود بخود بند ہو جاتی ہے کیونکہ یہ تجربہ کسی ایسے ہی آدمی پر کیا
جاتا ہے جس کی موت حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے ہوئی ہو! سب سے پہلے
ایسے آدمی کو ایک انجکشن دیا جاتا ہے۔ اس انجکشن کی خاصیت یہ ہوتی ہے
کہ اس کے اثر سے معمولی سا خوف بھی کوئی بھیانک شکل اختیار کر لیتا ہے
اور لوگ سہم کر خود بخود مر جاتے ہیں! شاہد تیسرے وار سے پہلے ہی مر
گیا تھا۔"
"کیپٹن فیاض کو وہ منظر اسی لئے دکھایا گیا تھا کہ وہ پہلے ہی سے
خوفزدہ ہو جائے تاکہ عین وقت پر آسانی سے ہارٹ فیل ہو سکے!"
فیاض بیٹھا دانت پیس رہا تھا اور عمران کبھی کبھی رحمان صاحب کی نظریں
بچا کر اسے منہ چڑھا دیتا تھا۔
"مگر لاشیں پھٹ کیوں جاتی ہیں!" رحمان صاحب نے پوچھا۔
"کیونہ وہ ادویاتی اجزاء جو اس کی کایا پلٹ کر کے لاش کے جسم میں
پہنچائے جاتے ہیں دھوئیں کی پرچھائیں کے علاوہ اور کسی قسم کا سایہ
نہیں برداشت کر سکتے! اگر کوئی دوسرا سایہ پڑ گیا تو بم ہی کا سا
انغمار ہوتا ہے اور آس پاس کی چیزیں تباہ ہو جاتی ہیں اور اگر کوئی
آدمی اس کے قریب ہو تو اس کے بھی چیتھڑے اڑ جاتے ہیں۔ دراصل دھوئیں کا
سایہ ہی ان ادویات کو دوبارہ حرکت قلب جاری کرنے میں مدد دیتا ہے۔
دوسری لاش پر ایمبولینس گاڑی کا سایہ پڑ گیا تھا اس لئے اس کے چیتھڑے
اڑ گئے تھے۔ میں کہتا ہوں کہ مجھے میرے ملک کے سفیر کے حوالے کر دو! تم
لوگ نہیں سمجھ سکتے کہ میں کیا ہوں!"
"باگڑ بلے!" عمران بچوں کے سے انداز میں ہنسا اور کیپٹن فیاض کو آنکھ
ماری!
"کیا؟" ڈاکٹر گلبرٹ غرایا۔
"کچھ نہیں! میں نے کہا کہ اب تم اس کا فارمولا مجھے بتا دو!"
"میں قوم کے سارے بڑے لیڈروں کو دوبارہ پیدا کر کے از سر نو قوم کی
مرمت کرانا چاہتا ہوں! اگر ایک آدھ پولیس والا دوبارہ پیدا ہو گیا تو
اس سے کیا ہوتا ہے!"
"عمران خاموش بیٹھو۔۔۔! یا چلے جاؤ!" رحمان صاحب نے پھر اسے ڈانٹا!
عمران نے مضبوطی سے ہونٹ بند کر لئے!
"وہ لڑکی ہلدا کب ٹھیک ہوسکے گی!"
"اسے دنیا کی کوئی طاقت دوبارہ صحیح الدماغ نہیں بنا سکتی! اسے محض اس
خیال سے پاگل بنا دیا گیا تھا کہ پولیس ہماری راہ پر نہ لگنے پائے اور
ہم کسی صورت سے اپنے تجربے کو کامیاب بنا لیں!"
"کیپٹن فیاض کی حالت بھی بہتر نہیں ہے!" رحمان صاحب نے کہا۔
"وہ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے! لیکن کم از کم ایک ہفتہ ضرور آرام کرنا
چاہئے!"
ڈاکٹر گلبرٹ نہ تو خائف نظر آٹا تھا اور نہ ہی اس کے چہرے پر جذباتی
انتشار ہی کے نشان پائے جاتے تھے! انداز بالکل ایسا ہی تھا جیسے کوئی
بہت بڑا آدمی پریس کانفرنس سے مخاطب ہو۔
وہ کہہ رہا تھا! "میں انسانیت کا محسن ہوں! میری قدر کرو۔ مجھے سر پر
بٹھاؤ!"
"میں تمہیں بیل کے سر پر بٹھا سکتا ہوں۔!" عمران نے کہا۔
"کیونکہ تم انسانیت کے دشمن ہو! تمہارے فرشتے بھی اس طرح انسانیت کی
کایا پلٹ نہیں کر سکتے! کیا ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی آدمی کی کایا پلٹ
کرنے کے بعد تم نے اس کا تدریجی نشوونما کا جائزہ لیا ہو!"
"نہیں ابھی نہیں!"
"پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ دوبارہ اسکی نشوونما تمہارے اندازے کے
مطابق ہی ہوگی!"
"ہو سکتا ہے کہ کچھ دنوں کے بعد وہ کتوں کی طرح بھونکنے لگے! اور ساری
زندگی بھونکتا ہی رہے!"
"نہیں ایسا نہیں ہو سکتا!"
"تم دیوانے ہو۔۔۔" عمران آنکھیں نکال کر بولا۔"تمہیں ہوش مند سمجھنا
بھی دیوانگی ہی کہلائے گی!"
"بکواس مت کرو۔۔۔ تم لوگ ابھی کنویں کے مینڈکوں سے زیادہ حیثیت نہیں
رکھتے!"
"یہی وجہ ہے کہ اب تک وحشت اور دیوانگی کی حدود میں داخل نہیں ہوئے!"
عمران سر ہلا کر بولا۔ پھر اس نے ایک طویل سانس لی اور اٹھ گیا۔
|
جاری
ہے |
   |
 |
 |
 |
 |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
 |
E-mail:
Jawwab@gmail.com |
|
|
|