عراق پر لشکر کشی تباہ کن فیصلہ، حملہ غیر قانونی تھا:سابق نائب برطانوی وزیر اعظم

لندن(ویب ڈیسک )عراق پر حملہ غیر قانونی ، لشکر کشی ایک تباہ کن فیصلہ تھا۔ٹونی کی جانب سے ہر حال میں امریکہ کا ساتھ دینے کا پیغام تباہی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ٹونی بلیئر نے ہمیں ایک غیر قانونی جنگ میں جھونکا ،تاحیات اس تباہ کن فیصلے کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہوگی۔ان خیالات کا اظہار سابق برطانوی نائب وزیر اعظم جان پریسکوٹ نے برطانوی اخبار ’سنڈے مرر‘میں لکھی گئی ایک تحریر میں کیا ہے۔
انہوں نے لکھاکہ ’کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں ہم نے جنگ میں جانے کے فیصلے کے بارے میںنہ سوچا ہو۔ ان برطانوی فوجیوں کے بارے میں جنھوں نے اپنی زندگی دی اور اپنے ملک کے لیے زخم اٹھائے۔ ان پونے دو لاکھ لوگوں کی موت کے بارے میں جو صدام حسین کو ہٹانے اور ہمارے پینڈورا باکس کھولنے کے نتیجے میں واقع ہوئیں۔‘
بی بی سی نے ڈیلی مرر کے حوالے سے بتایا کہ جان پریسکوٹ کا کہنا تھا کہ سنہ 2003 میں عراق پر برطانیہ اور امریکہ کا حملہ غیرقانونی تھااور اب ’تاحیات اس تباہ کن فیصلے کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہو گی۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اب ’انتہائی غم و غصے‘ کی حالت میں اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان سے متفق ہیں کہ ’جنگ غیرقانونی تھی۔‘
انہوں نے لیبر پارٹی کے جیرمی کوربن کی پارٹی کی جانب سے معافی طلب کرنے پر تعریف کی ہے۔
لارڈ پریسکوٹ نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ جیریمی کوربن نے لیبر پارٹی کی جانب سے ان لوگوں سے معافی طلب کی جن کے رشتے دار یا تو مارے گئے یا پھر زخمی ہوئے۔
سابق نائب وزیر اعظم نے کہا کہ چلکوٹ رپورٹ نے غلطی کی تفصیل سے وضاحت کی ہے لیکن انھوں نے اس سے بعض سبق سیکھنے کی نشاندہی کی۔
انھوں نے لکھا: ’میری پہلی تشویش ٹونی بلیئر کے کابینہ چلانے کے انداز پر ہے۔ہمیں اتنی کم دستاویزات دی گئیں کہ ہم اس کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔‘عراق پر لشکر کشی کے خلاف اٹارنی جنرل لارڈ گولڈ سمتھ کی رائے کے متعلق کوئی دستاویز فراہم نہیں کی گئی۔سر جان چلکوٹ کی سربراہی میں برطانیہ کے عراق پر حملے کی رپورٹ گذشتہ ہفتے شائع ہوئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ عراق کے وسیع پیمنے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرے کو جس یقین کے ساتھ سامنے لایا گیا تھا اس کا کوئی جواز نہیں پیش کیا گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سنہ 2003 کا حملہ ’آخری حربہ نہیں تھا جیسا کہ رکن پارلیمان اور عوام کے سامنے پیش کیا گیا اور یہ کہ صدام حسین سے برطانیہ کو کوئی ’ناگزیر خطرہ لاحق نہیں تھا۔‘اس سے قبل ٹونی بلیئر نے غلطیوں کے لیے معافی طلب کی تھی تاہم جنگ چھیڑنے کے فیصلے پر نہیں۔

پنھنجي راءِ لکو