پاکستانی نژاد برطانوی خاتون سامعہ کی گردن پر زخم کا نشان تھا، پوسٹ مارٹم رپورٹ

جہلم(اُردوپاور ڈاٹ کام)مبینہ طور پر ‘غیرت’ کے نام پر قتل کی گئی پاکستانی نژاد برطانوی خاتون سامعہ شاہد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق خاتون کی گردن پر زخم کا نشان پایا گیا جبکہ ان کے منہ سے خون آمیز جھاگ بھی نکل رہا تھا۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سامعہ شاہد کی موت کی اصل وجہ جاننے کے لے جہلم کے ڈسرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کرنے والی لیڈی ڈاکٹر نے ان کے جسم سے لیے گئے نمونوں کی فرانزک رپورٹ طلب کرلی۔

پولیس اس سے قبل ہی مذکورہ نمونے لاہور فرانزک سائنس لیبارٹری کو بھیج چکی ہے۔

6 صفحات پر مشتمل پوسٹ مارٹم رپورٹ لکھنے والی ڈاکٹر ثناء کا کہنا تھا کہ خاتون کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں تھا، سوائے ایک 19×0.5 انچ زخم کے، جو ان کی گردن پر موجود تھا۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سامعہ شاہد کی آنکھیں اور منہ کھلا ہوا تھا۔ایک ریٹائرڈ میڈیکولیگل آفیسر کا کہنا ہے کہ منہ سے خون آلود جھاگ نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ موت زہر خورانی، گلا دبانے یا شدید صدمے کے باعث ہوئی، تاہم دل کے دورے کے امکانات کو بھی رَد نہیں کیا جاسکتا، خاص کر اُس صورت میں کہ اگر مرنے والے کو اس سے قبل عارضہ قلب سے متعلق کچھ مسائل رہے ہوں۔

یاد رہے کہ سامعہ شاہد کے والد نے پولیس کو رپورٹ کی تھی کہ ان کی بیٹی کی موت 20 جولائی کو دل کے دورے کے باعث ہوئی۔

دوسری جانب سامعہ کے سابق شوہر اور ایف آئی آر میں نامزد ملزم چوہدری شکیل نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ سے 6 اگست تک عبوری ضمانت حاصل کرلی۔

چوہدری شکیل منگلہ پولیس اسٹیشن میں تفتیشی افسر کے سامنے بھی پیش ہوئے اور اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔کیس کے دیگر 2 ملزمان سامعہ کے والد چوہدری شاہد اور ان کے کزن مبین نے بھی رواں ہفتے بدھ کو سینئر پولیس افسران کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

اس حوالے سے بھی رپورٹس سامنے آئیں ہیں کہ سامعہ کی ایک قریبی دوست امبرین کو بھی پولیس نے شامل تفتیش کرلیا ہے، کیونکہ 14 جولائی کو دبئی سے پاکستان آمد پر سامعہ نے منگلا کے قریب دینا ٹاؤن میں پہلی رات ان کے ہی گھر پر گزاری تھی۔

سامعہ کے شوہر سید مختار کاظم نے اپنی ایف آئی آر میں الزام عائد کیا کہ ان کی اہلیہ نے انھیں فون پر بتایا تھا کہ دینا ٹاؤن پہنچنے کے بعد انھوں نے اپنا پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات اپنی دوست امبرین کے حوالے کردی تھیں۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ امبرین نے اس بات سے انکار کردیا ہے کہ ان کے پاس سامعہ کی کسی بھی قسم کی دستاویزات ہیں۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سامعہ شاہد کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

یاد رھے بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والی بیوٹی تھراپسٹ سامعہ کی پہلی شادی ان کے کزن شکیل سے ہوئی تھی تاہم دونوں کے درمیان مئی 2014 میں طلاق ہوگئی تھی، بعدازاں خاتون نے ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والے سید مختار کاظم سے ستمبر 2014 میں شادی کی اور دونوں نے دبئی میں رہائش اختیار کرلی۔

رواں ماہ 20 جولائی کو سامعہ کے شوہر مختار کو فون پر اطلاع ملی کہ ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا ہے۔

28 سالہ سامعہ شاہد کے شوہر سید مختار کاظم نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی اہلیہ کو ان کے خاندان والوں نے اپنی پسند سے شادی کرنے پر نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا۔

کاظم کا کہنا تھا کہ ان کی ساس نے 11 جولائی کو سامعہ کو فون پر کہا کہ وہ پاکستان آجائے کیونکہ اس کے والد بیمار ہیں، جس کے بعد سامعہ 14 جولائی کو اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سامعہ نے فون پر بتایا کہ ان کے والد بالکل ٹھیک ہیں اور اب وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔

کاظم کے مطابق 20 جولائی کو سامعہ کا فون سوئچ آف ملا، جس پر انھوں نے ان کے کزن مبین کو فون کیا، جس نے بتایا کہ سامعہ کو دل کا دورہ پڑا ہے۔

مختار کاظم نے رواں ماہ 23 جولائی کو سامعہ کے والد چوہدری شاہد، والدہ امتیاز بی بی، بہن مدیحہ شاہد، کزن مبین اور خاتون کے سابق شوہر چوہدری شکیل کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 اور 109 کے تحت ایف آئی آر درج کروائی تھی۔

دوسری جانب دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق سامعہ کے والدین نے مختار کاظم کے دعووں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کاظم کی جانب سے ان پر ‘جھوٹے اور بے بنیاد’ الزامات لگائے جارہے ہیں۔

سامعہ کے والد چوہدری شاہد کا کہنا تھا کہ ‘اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں اور اگر میں قصوروار پایا گیا تو میں ہر قسم کی سزا کے لیے تیار ہوں’۔

والد کا مزید کہنا تھا کہ ‘ان کی بیٹی ایک خوشگوار زنگی بسر کر رہی تھی، جو خود سے پاکستان آئی اور اس پر خاندان کی جانب سے کسی قسم کا دباؤ نہیں تھا’۔

واقعے کے بعد برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا کہ سامعہ کی قبرکشائی کرکے ان کا غیر جانبدار پوسٹ مارٹم کروایا جائے۔

ناز شاہ نے اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کو لکھے گئے خط میں کہا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں جو کہ ‘غیرت’ کے نام پر قتل کا ایک کیس ہے اور ہمیں بتایا جائے کہ سامعہ کے ساتھ انصاف ہوا اور اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی جائے کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔

پنھنجي راءِ لکو