سعودی عرب میں ایک ایسے شخص کا سرقلم کرنے کی تیاریاں مکمل کہ مغربی دنیا میں ہنگامہ برپاہوگیا

ریاض (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب میں شیعہ سکالر شیخ نمر النمر کی پھانسی کے بعد پیدا ہونے والی ہلچل ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اب ان کے بھانجے علی النمر کی پھانسی کے فیصلے نے نیا ہنگامہ کھڑا کردیاہے۔
اخبار دی گارڈین کا کہنا ہے کہ شواہد بتا رہے ہیں کہ ہنگاموں کے الزامات میں گرفتار کئے گئے علی النمر کو عنقریب پھانسی دی جانے والی ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے اور مغربی میڈیا دعویٰ کررہا ہے کہ مبینہ جرائم کے وقت علی النمر 18 سال سے کم عمر تھا لہٰذا اسے موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ اخبار کے مطابق علی النمر کو جب 2012ءمیں حکومت مخالف ہنگاموں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو اس کی عمر 17 سال تھی۔
ہیومن رائٹس اداروں کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر سعودی حکومت سے قریبی روابط رکھنے والے ایک ٹویٹر اکاﺅنٹ پر علی النمر کے متعلق جاری کئے جانے والے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ اسے عنقریب پھانسی دی جانے والی ہے۔ علی النمر کے علاوہ داﺅد المرہون اور عبداللہ الظاہر نامی نوجوانوں کو بھی پھانسی کی سزا کا سامنا ہے، جبکہ ان کے بارے میں بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ گرفتاری کے وقت یہ کمسن تھے۔
علی النمر کو بچانے کے لئے برطانوی میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے متحرک ہوگئے ہیں اور وزیر خارجہ بورس جانسن پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ سعودی موقف کو رد کرتے ہوئے کمسن ملزمان کی جان بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔برطانوی سیاسی رہنماﺅں اور انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا یہ موقف درست نہیں کہ گرفتاری کے وقت بالغ قرار دئیے گئے شخص کو سزائے موت دی جا سکتی ہے، کیونکہ اس قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر افراد بھی پھانسی کی سزا کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ اس معاملے کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان مزید تلخی اور کشیدگی کا سبب بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

پنھنجي راءِ لکو