سپریم کورٹ رجسٹری میں ککوئٹہ میں سرکاری اسپتالوں، اسکولوں اور کالجوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی زیرصدارت تین رکنی بینچ نے کی۔ بنچ میں جسٹس سجاد علی شاہ اور سید منصور علی شاہ شامل ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے سیکریٹری تعلیم سےاستفسار کیا کہ صوبےمیں کتنےاسکول ہیں۔ جس پر سیکریٹری تعلیم نورالحق بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں13ہزار611اسکول ہیں،11ہزار351 پرائمری،ایک ہزار293مڈل اسکول ہیں،صوبےمیں255ہائی اسکول ہیں۔
نورالحق بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ اسکولوں میں9لاکھ سےزائدبچےزیرتعلیم ہیں،26 لاکھ بچے اسکولوں میں ہونے چاہئیں،نجی اسکولوں کا ڈیٹا ہمارے پاس موجود نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 10لاکھ بچوں کیلئےفری،لازمی تعلیم کی کوئی پالیسی نہیں بنائی،تعلیم اسکول،کتاب کےاسٹینڈرڈکےبارےمیں پوچھ رہاہوں،9لاکھ بچوں کا ایک ہی بستہ اورکتاب ہے؟ سیکریٹری تعلیم نے کہا کہ تعلیمی نظام کوبہتربنانےکےلیےباقاعدہ نظام بنایاگیاہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے میڈیکل کالجز معیاری نہیں، ہمیں اپنی نسلوں کیلئے مسائل نہیں پیدا کرنے، آئین کے ارٹیکل 199 اور 184 کے تحت اختیار حاصل ہے کہ جہاں بنیادی حقوق کا استحصال ہو عدلیہ مداخلت کرے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے میڈیکل کالجز معیاری نہیں، نجی کالجوں میں بچوں سے 20 سے 25 لاکھ روپے لیےجاتے ہیں، ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہاں یہ بزنس تو نہیں ہے، ہماری کوشش ہےکہ 2 کروڑ بچوں کو رقم واپس ہو۔
چیف جسٹس نے میڈیکل کالج کے لیے 8 لاکھ 56 ہزار سے زائد فیس ری فنڈ کرنے کا حکم دیا۔
سماعت میں وزیراعلیٰ بلوچستان اور وزراءنےصحت کی سہولیات سےمتعلق عدالت کوآگاہ کیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو سے مکالمہ کیا کہ بلوچستان میں صحت،تعلیم اورپانی عوام کابنیادی حق ہے، یہاں توکوئی پالیسی بھی نہیں،حالات اچھےنہیں، یہ کس نےکرناہے،آپ پرذمہ داری عائدنہیں ہوتی؟
وزیراعلی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ہم نےابھی حکومت سنبھالی ہے،بارباردورےکرکےحالات بہترکرنےکی کوشش کررہاہوں،بی ایم سی،سول اسپتال کےدورےکئےہیں، غفلت کےمرتکب افراد کو ہٹا دیاہے،ہمارےپاس وسائل کم ہیں اورپالیسی بھی نہیں ہے،پالیسی کاڈرافٹ تیارکرلیاہے،آج کابینہ میں لائیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے، صحت کے شعبے میں وفاق سے جو مدد چاہیے ہمیں بتائیں، ماضی میں کیا ہوا اس کو چھوڑیں اور دیکھیں آگے کیا کرنا ہے، اگر سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں تو مریضوں کو کون دیکھے گا۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں بلوچستان کے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرز کی ہڑتال سے متعلق بھی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران صوبےکےسرکاری اسپتالوں میں اوپی ڈی بندہونےپرچیف جسٹس اظہارحیرانی کیا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ صوبےمیں کتنے سرکاری میڈیکل کالجز ہیں، ہم چاہتےہیں صحت اورپانی کی صورتحال پرفوکس کیاجائے،عام آدمی کوبہتر،سستےعلاج کی فراہمی میسرہونی چاہیے۔
