ملک ریاض،اہلیہ اوربچوں کی تمام جائیدادبھی گروی رکھنےکاحکم

سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی زیرصدارت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے نیب کو بحریہ ٹاؤن ، ایم ڈی اے اور سندھ بورڈ آف ریونیو کیخلاف بھی کارروائی سے روکتے ہوئے کہا کہ نظرثانی اپیلوں کی سماعت تک نیب کارروائی نہ کرے۔
بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کی جانب سے تحریری جواب جمع کرایا گیا۔ ملک ریاض نے جمع کرائے گئے جواب میں مؤقف اختیارکیا کہ 15 دنوں میں وہ پانچ ارب روپے جمع کرادیں گے۔
ملک ریاض نے اپنے تحریری جواب میں لکھا کہ بحریہ ٹاؤن کے تمام مقدمات سے متعلق معاملات حل ہونے تک رقم سپریم کورٹ کے پاس رہے گی۔
سپریم کورٹ نے ملک ریاض کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا کہ جن پر ملک ریاض اور ان کے اہل خانہ کے نام ہیں انہیں قرق کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے حکم د یا کہ ملک ریاض کے خاندان کی ذاتی جائیدادیں ضمانت کے طورپر عدالت میں منسلک کی جائیں گی اوروہ رقم کا 20 فیصد سپریم کورٹ کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائیں گے۔
سپریم کورٹ نے اس سے متعلق علیحدہ بینک اکاؤنٹ بھی کھولنے کے احکامات دیے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے نیب کو ہدایت دی گئی کہ وہ اس وقت تک کارروائی نہ کرے جب تک کہ نظرثانی کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا۔
عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کو سرمایہ کاروں سے رقم وصول کرنے کی بھی اجازت دے دی۔
عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کل کی ساری عدالتی کارروائی کا میڈیا نے بلیک آؤٹ کیا۔ انہوں نے استفسارکیا کہ کیا آپ کا اتنا اثرورسوخ ہے؟ کہیں آپ نے پیسے تو نہیں لگا د یے؟
چیف جسٹس آف پاکستان نے یقین دہانی کرائی کہ ملک ریاض صاحب! آپ کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔
ملک ریاض نے عدالت کے روبرو کہا کہ ہر چیز میرے نام نہ لگائی جائے۔ انہوں نے مؤقف اپنایا کہ پورے میڈیا میں مجھے ڈان بنادیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آخر میرا گناہ کیا ہے؟
چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس پر ریمارکس دیے کہ کیا آپ حکومتیں بنانے اورگرانے میں ڈان نہیں بنے رہے؟ انہوں نے استفسارکیا کہ ہمیں بتائیں سینیٹ الیکشن میں آپ نے کیا کیا؟
عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں پتہ ہے بس! رہنے دیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے سینیٹ الیکشن میں کیا کردار ادا کیا؟
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کو اجازت دی کہ اپنے اخراجات کے لیے جتنے پیسے چاہئیں وہ رکھ لیں۔
بحریہ ٹاؤن کیس کے خلاف فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہوگئے ہیں اور ایک نے ملک ریاض کے حق میں اختلاف کیا۔
عدالت عظمیٰ نے اس لیے نظرثانی کیس میں پانچ رکنی لارجر بنچ تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا اور اکاؤنٹ کی ماہانہ آڈٹ رپورٹ عدالت پیش کرنےکا بھی حکم دیا۔

پنھنجي راءِ لکو