انور مجید بیٹے سمیت کمرہ عدالت سے گرفتار

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جعلی بینک اکاونٹس کیس کی سماعت ہوئی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ انورمجیداورباقی متعلقہ افرادشامل تفتیش ہوں،مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جوبنےگی اس کی نگرانی خودعدالت کرےگی، حفاظتی ضمانت کےلیےمتعلقہ فورم سےرجوع کیاجائے،ایف آئی اےقانون کےمطابق انورمجید کیخلاف کارروائی کرے ۔
چیف جسٹس نے انور مجید کے وکیل شاہد حامد کی ضمانت قبل از گرفتاری کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم نے گرفتار کرنے کا کہا ہے اور نا گرفتاری روکنے کے احکامات دیے۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے انور مجید کو گرفتار کرنا چاہتی ہے تو کر لے، یہ اُسی کی صوابدید ہے کہ وہ کیا کرتی ہے۔
انور مجید کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ وقت دیا جائے ہم اس معاملے پر بحث کریں گے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے جے آئی ٹی بنانی ہے، کسی نے بحث کرنی ہے تو آجائے۔اس موقع پر انور مجید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انور مجید اور دیگر کے نام ای سی ایل میں ہیں، یہ باہر نہیں جاسکتے۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان کے نام کس نے ای سی ایل میں رکھنے کے لیے کہاَ جس پر ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ عدالتی حکم میں موجود ہے کہ ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔
عدالت نے انور مجید فیملی کو شامل تفتیش ہونے اور ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 28اگست تک ملتوی کردی۔اس کے بعد انور مجید اور ان کے ایک بیٹے کمرہ عدالت کے باہر نکلے تو ایف آئی اے کی جانب سے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

پنھنجي راءِ لکو