سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن کا حصہ تھا اور ہوں تاہم اگر پارٹی نے کوئی ایکشن لیا تو سیاست کے لیے کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرسکتا ہوں‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ احتساب ایوان کے اندر سے ہوا اور اس کام سے جمہوریت کمزور نہیں بلکہ مزید مضبوط ہوئی، وزیر اعلیٰ کو عہدے سے ہٹانے کے لیے قانونی اور آئینی راستہ اختیار کیا‘۔
سرفراز بگٹی نے اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ضروری نہیں کہ بلوچستان کا اگلا وزیر اعلیٰ مسلم لیگ ن سے ہی ہو، اس ضمن میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں اور ہم خیال لوگوں سے رابطے کریں گے‘۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ ’وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حصہ بننے والے اراکین کو پیسوں اور وزارتوں کی پیش کش کی گئی مگر اتحادیوں نے سب کچھ ٹھکرا دیا، بلوچستان کی اگلی حکومت ساتھیوں کی مشاورت کے بعد ہی تشکیل دی جائے گی‘۔
