اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔17-01-2011

وقت کی آواز

کالم ----- عفاف اظہر

 پاکستان کے صوبہ پنجاب کے صنعتی شہروں میں قدرتی گیس کی فراہمی معطل ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹا یل ملز بحران سے دوچار ہیں اور لوڈ مینجمنٹ کے تحت گیس کی فراہمی معطل ہونے سے ملز اور کارخانے بند پڑے ہیں . صوبہ پنجاب کو قدرتی گیس فراہم کرنے والے ادارے سوئی ناردرن کے جنرل منیجر ریحان نواز کا کہنا ہے کہ سردی کا موسن شروح ہونے کی وجہ سے گھریلو سیکٹر میں گیس کی کھپت بڑھ گی ہے اور حکومتی پالیسی کے تحت غلو صارفین کو ترجیحی بنیادوں پر گیس فراہم کی جاتی ہے . ادھر صنعت کاروں کو سرکاری طور پر آگاہ کر دیا گیا ہے کہ قدرتی گیس کی کھپت زیادہ ہونے کی وجہ سے کارخانوں کو گیس کی فراہمی تا حکم ثانی معطل رہے گی اور صورت حال کا یہ عالم ہے کہ پنجاب کے صرف ایک شہر فیصل آباد ہی میں پانچ سو ملز اور کارخانے بند پڑے ہیں جس کی بنا پر اس قدرتی گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر وہ مزدور محنت کش طبقہ ہوا ہے جو کارخانوں میں یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں . فیصل آباد کے ایک صنعت کار شیخ عبد القوم کا کہنا ہے کہ حکومتی اب حکومتی فیصلہ کے خلاف آواز اٹھانے اور احتجاج کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہا کیونکہ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران پچاس ہزار مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں . اگر یہی صورت حال رہی تو صنعت مکمل طور پر بند ہو جائے گی اور مزدور سڑکوں پر ہوں گے . فیصل چیمبر آف کامرس کی لوڈ مینجمنٹ کے لئے بنائی گی کمیٹی کے سربراہ شبیر احمد کا کہنا ہے کہ جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے اس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوح کرنے کے بارے میں غور کیا جا رہا ہے . صوبہ پنجاب میں قدرتی گیس کی معطلی پر ریحان نواز کا یہ بھی کہنا ہے کہ قانون کے آرٹیکل ایک سو اٹھاون کے تحت جس صوبے سے گیس حاصل کی جائے اس صوبے کا یہ حق ہے کہ پہلے اس صوبے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بغیر تعطل گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے . گیس کی لوڈ شیڈنگ کی بنیادی وجہ پنجاب کو گیس کو مہیا کرنے والے مین کمپر یسیرز اور جنر یئٹرز کی خرابی بھی بتائی جا رہی ہے جو زائد المیعاد ہونے کیساتھ ساتھ ضرورت سے بہت ہی کم کپیسٹی کے ہیں جنہیں اپ گریڈ کیے بنا یہ مسلۂ حل ہونا اب نا ممکن ہو چکا ہے . اور پھر کوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ سے مارے یا بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے ... امریکی ڈرون حملوں سے مرے یا پھر مہنگائی کے ڈرون حملوں سے ....ہے تو عوام ہی جس کی فکر کے لئے حکمرانوں کے پاس نہ تو فضول وقت ہے نہ ہی فالتو رقم اور نہ ہی انھیں اس سے کوئی غرض ہے انھیں اگر کسی چیز سے غرض ہے تو وہ ہے مال بنانے سے ہاں اگر اس مقصد مین ان سے کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو عوام گلہ کر سکتے ہیں . اور پھر حیرت تو اس بات کی ہے کہ نجانے سب سردی کا رونا کیوں روتے ہیں ؟ کیا پاکستانی عوام پر کئے جانے والے کسی موسم کے محتاج ہیں ؟ گرمی ہے تو بجلی نہیں ...سردی ہے تو گیس نہیں ...پانی ہے تو صاف نہیں ...غربت ہے مگر روزگار نہیں ...بھوک ہے مگر خوراک نہیں ...اسلام ہے مگر امن نہیں ...شاید دنیا بھر میں اپنی ہی نوعیت کا واحد موسم ظلم کا موسم ہے جو فقط پاکستانیوں کے لئے سدا بہار ہے . ..دہشتگردی حد سے بڑھی تو روکنے کے لئے حکومت نے یہ حل نکالا تھا کہ لوگ جلسے جلوس اور ریلیوں میں شرکت کرنا چھوڑ دیں . ...چینی کے بحران کو ختم کرنے پر حکومت نے یہ مشورہ دیا کہ عوام چینی کا استعمال ہی چھوڑ دیں ...اور اب عین ممکن ہے کہ گیس کا بحران شدت پکڑتے ہی یہی حل نکالا جائے کہ گیس کا استعمال ہی چھوڑ دیں اور بنا پکاے ہی کھاییں کیوں کہ حکومت کے پاس تو ہر بحران کا واحد یہی حل ہے . اور پھر ہم تو وہ بد نصیب قوم ہیں جنہیں ہر وقت کسی نہ کسی مسلے میں پھنسائے رکھنے میں ہی حکمرانوں کو اپنی عافیت نظر اتی ہے اور پھر یہ سب بحرانات تو وہ کڑیاں ہیں جو حکمرانوں کو اپس میں جوڑے اور بیچاری عوام کو توڑے رکھتی ہیں .قدرتی گیس یہ وہ قدرتی نعمت ہے جو ہمارے اپنے ہی ملک میں سے نکل رہی ہے اور بد انتظامی کا عالم ایسا ہے کہ خدا کی پناہ کہ گیس کی کھپت بڑھانے پر اسکی عدم فراہمی نا سمجھ میں انے والی بات ہے اور دوسری طرف سوئی جس کے پہاڑوں سے پنجاب کے گھر گھر تک گیس پہنچتی ہے اور خود سوئی کی خواتین آگ جلانے کے لئے لکڑیاں چنتی دیکھائی دیتی ہیں کیا یہ ظلم نہیں ہے ؟ کرک سے گیس لائن ملتان کے راستے پنجاب بھر کے چولہے جلا رہی ہے مگر خود کرک کے باسی شدید سردیوں میں چولہے جلانے کے لئے جنگلوں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں . کیا یہ ظلم نہیں ؟ ان سب سے بڑھ کر ظلم تو یہ ہے کہ وہ بلوچ قوم جس کی گیس کے بل بوتے پر ملک بھر کی صنعتکاری سانسیں لے رہی ہے مگر خود وہ قوم گزشتہ تریسٹھ برس سے خود اپنی ہی گیس سے محروم ہے . یہاں چند دن گیس بند ہوئی کہرام مچ گیا مگر وہاں گیس سے محرومیت کے باوجود بھی کبھی کہرام مچا ہی نہیں . کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں ؟؟؟ ہاں یہ سرا سر ظلم و بربریت ہی تو ہے مگر اس کے قصوروار بھی تو خود ہم ہی ہیں . بلوچ قوم کے مگرمچھ خصلت کے سرداروں اور ناگ نما وڈیروں کی ہی مہربانیاں ہیں جنہوں نے قدرتی گیس سے وصول کی گی بلوچوں کی بھاری رقوم سے اپنی تجوریاں بھریں .بکٹی قبیلہ کر سردار نواب اکبر بگٹی جو خود تو آکسفورڈ کا ڈگری یافتہ تھا مگر اپنے قبیلہ کی فلاح و بہبود اور تعلیم و ترقی کے لئے ایک بھی سکول تعمیر نہ کر سکا . بلوچستان کے سردار و نواب قدرتی گیس سے اپنا بھاری حصہ تو متواتر وصول کرتے رہے مگر بلوچی قبائلی اکیسویں صدی میں بھی لکڑیاں جلا کر گزارہ کرتے رہے . بحیثیت عوام اس کے سب سے بڑھ کر قصوروار ہم خود ہیں جنہوں نے آج تک ان وڈیروں نوابوں اور سرداروں کو من مانیوں کے لئے کھلی چھوٹ دیے رکھی . کمی کمین بن کے وڈیروں کی سکہ شاہی کو جلا بخشی قبیلوں کے روپ میں اپنے زہریلے نوابوں اور سرداروں کے پھن چمکاتے رہے . اور سب سے بڑھ کر ظالم ہماری آج تک انے اور جانے والی ہر حکومت ہے جنہوں نے آج تک قدرتی گیس پر دیے جانے والی بھاری رقوم کی کبھی جانچ پڑتال تک کرنا گوارہ نہیں کی . نہ کبھی اس صوبہ کی حالت زار پر توجہ دی کہ جہاں آج تک نہ توکوئی ترقیاتی و تعمیراتی منصوبے عمل میں ا سکے اور نہ ہی کبھی تعلیمی منصوبے پروان چڑھ سکے تو پھر آخر وہ بھاری رقوم جا کہاں رہی ہیں ؟....اور تو اور ہمارے حکمران طبقات نے اپنے گزشتہ تجربات سے بہت سےسبق سیکھے جیسے کہ پہلا سبق جو انھوں نے سيکھا ہے کہ اپنے سرمائے اور بال بچوں کو محفوظ مقام تک پہنچا دو۔ دوسرا سبق يہ کہ کسی بھی سياسی جماعت کو فيصلہ کن اکثريت نہ ملنے پائے تاکہ دوسرا مجيب نہ پيدا ہو۔ تيسرا يہ کہ جب جنگ ناگزير ہوجائے تو دشمن کے فوراً پاؤں پڑ جاؤ۔ چوتھا يہ کہ اپنے عوام کو غربت، بيروزگاری اور بيماريوں کے ايسے جھٹکے دو کہ وہ سر اٹھانے کے قابل ہی نہ رہيں۔ مگر ایک واحد یہ نہ سیکھ سکے کہ جس سے گزشتہ تریسٹھ برسوں سے ہر پل بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کےمطابق گیس کی فراہمی کے لئے مناسب کمپر یسیرز اور جنر یئٹرز کا انتظام کیا جا سکے . اور جب تک ہم اپنی اپنی غلطيوں کو تسليم کر کے ان کی اصلاح نہيں کر ليتے ہم قطعا ترقی کی راہ پر گامزن نہيں ہو سکتے
ہر کام کو سازش قرار دے کر اپنی ذمہ داريوں سے منہ پھير لینا آخر کب تک چلے گا . کبھی نہ کبھی تو ہميں بھی یہ فيصلہ کرنا ہی ہو گا کہ کيا ہم ايک ترقی يافتہ خوشحال اور خود کفيل بننا چاہتے ہيں يا اسی طرح سے ایک بھوکی مفلس، فاقہ زدہ اور بھکاری قوم ہی پر اکتفا کرکے ہمیشہ کی طرح اب بھی اسے تقدير کا لکھا سمجھ کر ہی قبول کر لینا ہے کیوں کہ آج وقت کا تقاضہ ہے کہ اس موجودہ صورتحال میں قومیتوں کو ان کی تشخص کا احترام، طبقاتی نطامِ تعلیم کا خاتمہ، جاگیردارانہ نظام سے کلی طور پر نجات، غریب اور امیر کے لیے قوانین کے اطلاق میں یکسانیت، نوکر شاہی کی تشکیل نو اور سامراجی نظام کے خاتمے کےلئے مشترکہ جدوجہد میں ہی پنہاں ہے۔ اور یہی آج وقت کی آواز ہے .

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team