اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
دل سے
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-affafazhar@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔07-02-2011

انقلاب تو ہے مگر شعوری یا لا شعوری ؟

کالم ----- عفاف اظہر

مصر میں اب تک کے سب سے بڑے عوامی احتجاج میں ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین قاہرہ کے التحریر سکوائر میں جمع ہیں اور صدر حسینی مبارک سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں مصر کی سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں جمع مظاہرین کا مقصد صرف یہ ہے کہ تیس سال سے صدارت کی کرسی پر براجمان حسنی مبارک فوری طور پر صدارت چھوڑ دیں مصری عوام کا کہنا ہے کہ انکا سب سے بڑا مسلہ صدر حسینی خود ہیں . دوسری طرف صدر حسینی مبارک پر اقتدار سے فوری طور پر الگ ہو جانے کے لئے بین الاقوامی سطح پر بھی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے . مصر کی موجودہ صورتحال نہ صرف مصریوں کے لئے بلکہ پورے مشرق وسطہ کے لئے دلچسپ ہے لیکن جہاں ایک بڑی تبدیلی کی امید ہے وہاں بہت سے خطرات بھی درپیش ہیں ، جہاں تیس سالوں سے حسنی مبارک کا براجمان رہنا انقلاب لا سکتا ہے وہاں اس طرح ایک دم سے حسنی کا سیاسی منظر سے چلے جانا ملک کے لئے خطرناک ثابت بھی ہو سکتا ہے . اس موجودہ صورتحال کا فائدہ تیسری قوتیں اور مصر کی انتہا پسند تنظیمن با خوبی اٹھا سکتی ہیں اور اس مبینہ انقلاب کا رخ ملکی انتشار کی جانب موڑ کر ملک میں انتشار پھیلانے کا سبب بن سکتی ہیں. تیونس کے بعد مصر کی موجودہ صورتحال اس خطہ کے لئے تشویش کا سبب بن چکی ہے . مبصرین کا خیال ہے کہ یہاں پر بھی ایسا ہی سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جیسے انیس سو نواسی میں مشرقی یورپ میں کمیونسٹ حکومتوں کے خاتمے کے موقع پر دیکھنے میں آیا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے کئی ملکوں میں نوجوان اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے، بے روزگاری اور سیاسی نمائندگی کے فقدان جیس مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سے کچھ ملکوں میں اقتدار پر ڈھلتی عمر کے مطلق العنان حکمران قابض ہیں اور انہیں اپنی جانشینی کے سلسلے میں مسائل کا سامنا ہے۔ مصر میں ریاست کی روایتی طاقت اور مضبوط بنیادوں کی وجہ سے اب تک یہ سوچنا بھی ناممکن تھا کہ یہاں برسراقتدار حکومت انتشار کا شکار ہو جائے گی۔ لیکن تیونس کے طرح یہاں بھی شہریوں کو معاشی مشکلات، سرکاری اداروں میں کرپشن اور سیاسی نمائندگی کے حق سے محرومی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔پچیس جنوری کو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ احتجاج کرتے ہوئے اس تعداد میں قاہرہ اور دیگر بڑے شہروں کی سڑکوں پر آئے جس تعداد میں وہ ستر کی دہائی میں روٹی پر ہونے والے مظاہروں کے بعد سے کبھی بھی نہیں آئے تھے۔ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو مصر کے ساتھ ساتھ تیونس کا پرچم بھی اٹھائے ہوئے تھے۔اس دن سے لیکر آج تک مصر کی گلیوں اور بازاروں میں احتجاج ایک معمول بن چکا ہے جس کی وجہ سے صدر حسنی مبارک کی حکومت بہت کمزور دکھائی دے رہی ہے۔یمن جہاں کی آبادی چوبیس اشاریہ تین ملین ہے اور صدر علی عبداللہ صالح جو کہ ١٩٧٨ میں صدارت کی کرسی پر براجمان ہیں وہاں بھی بڑھتی ہوئی غربت اور سیاسی آزادیوں کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہونے والے غصہ گلیوں اور بازاروں میں احتجاجی مظاہروں کی شکل میں ظاہر ہو چکا ہے۔ تیونس اور مصر میں ہونے والے واقعات کے بعد یمن کے ہزاروں شہریوں نے دارالحکومت ثنا میں میں ستائیس جنوری کو احتجاج کیا اور صدر علی عبداللہ صالح کے اکتیس سالہ اقتدار کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ ۔یمن عرب دنیا کا سب سے غریب ملک ہے جہاں آدھی سے زیادہ آبادی دو ڈالر یومیہ سے کم پر گزارہ کر رہی ہے۔ ۔جیسے جیسے تیونس میں احتجاجی مظاہروں میں شدت آئی، اس کے مغربی ہمسایہ ملک الجزائر جہاں کی آبادی پینتیس اشاریہ چار ملین ہے حکمران عبدالعزیز بوتفلیکا جو کہ انیس سو ننانوے سے طاقت میں ہیں وہاں بھی نوجوان سڑکوں پر نکل آئے۔ تیونس کی طرح یہاں بھی احتجاج کی فوری وجہ معاشی مشکلات خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ تھا۔الجزائر میں سن انیس سو بانوے سے ایمرجنسی نافذ ہے جس کے تحت اس کے دارالحکومت میں میں جلسے جلوسوں پر پابندی ہے۔ الجزائر میں گاہے بگاہے احتجاجی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں پہلی بار دارالحکومت الجزائر سمیت ملک بھر میں ایک احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ اس ساتھ ساتھ چند مقامات سے خود سوزی کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ تیونس کے برعکس الجزائر کی حالیہ تاریخ بہت ہنگامہ خیز رہی ہے۔ ملک کے سیاسی نظام میں سن انیس سو اٹھاسی میں اصلاحات کی گئی تھیں جس کے نتیجے میں میڈیا پر پابندیوں کا خاتمہ ہوا اور کثیر الجماعتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا۔ اس کا نتیجہ سکیورٹی افواج اور اسلامی شدت پسندوں کے مابین خونی تصادم کی شکل میں سامنے آیا۔ تیونس میں حکومت کے خاتمے کے موقع پر لیبیا جہاں کی آبادی چھہ اشاریہ پانچ ہے اور حکمران معمر قذافی کا کہنا تھا کہ تیونس کا انتظام کوئی بھی بن علی سے بہتر نہیں چلا سکتا۔ ’تیونس اب خوف میں مبتلا ہے۔‘تیونس میں ہونے والے واقعات پر کرنل قذافی کا ردِ عمل پورے خطے میں تبدیلی کے حوالے سے ان کی اپنی پریشانی کا غماز ہے۔ وہ گزشتہ اکتالیس سال سے اقتداد پر قابض ہیں اور اس طرح مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے سب سے زائد عرصے تک برسراقتدار رہنے والے حکمران ہیں۔ لیبیا میں کسی بھی طرح کے احتجاج پر پابندی ہے لیکن حال ہی میں لیبیا کے شہر البائدہ سے احتجاج کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ۔اردن جہاں کی آبادی چھہ اشاریہ پانچ اور حکمران شاہ عبداللہ دوئم جو کہ انیس سو ننانوے سے طاقت میں ہیں .کے خطے کے دیگر ملکوں کی طرح اردن میں بھی بے روز گاری اور غربت پر غصہ پایا جاتا ہے اور مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم کو بلا واسطہ انتخابات کے ذریعے منتخب کیا جائے۔ مراکش جہاں کی آبادی بتیس اشاریہ تین اور حکمران شاہ محمد ششم جو انیس سو ننانوے سے طاقت میں ہیں کی شہرت حال ہیں میں وکی لیکس کے سامنے آنے کی وجہ سے بہت متاثر ہوئی ہے جن میں ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن خاص طور پر شاہی خاندان کے کاروباری معاملات اور شاہ محمد ششم کے قریبی لوگوں کے لالچ کا ذکر کیا گیا ہے۔تاہم مراکش بھی مصر اور الجزائر کی طرح محدود حد تک اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے اور ابھی تک وہاں پر ہونے والے مظاہرے زیر کنٹرول رہے ہیں۔اردن کی طرح یہاں بھی بادشاہت ہے جسے عوامی حلقوں کی طرف سے بہت مضبوط حمایت حاصل ہے۔تیونس کے بعد مصر میں جو جو کچھ ہو رہا ہے اوریہ موجودہ صورتحال مشرق وسطی کے جن جن ممالک پر اثر انداز ہو رہی ہے یہ بلا شبہ سیاسی فطرت کا تقاضہ ہے شعور و بیداری وہ صفات ہیں جو برسوں سے کچلے اور پستے انسانوں کو بلا تفریق ظلم و جبر سے لڑنے کی طاقت اور حوصلہ عطا کرتی ہیں . صدیوں سے شہنشاہوں کے محلوں ،دولت کے ایوانوں . سرمایے کی پارلیمانوں اور ریاستی اداروں کی قید میں جکڑی طاقت آج واپس مصر اور تیونس کی گلیوں بازاروں کچی آبادیوں شاہراہوں اور غریب محنت کش عوام کے ہاتھوں میں ہے وہ چاہے ننگی بھوکی جمہوریت ہو یا پھر سلطانی غاصب اور آمریت جب جب انسانوں کی زندگیاں مشکل ہو جاتی ہیں اور بھوک ننگ افلاس بے روزگاری مہنگائی معاشی سیاسی اور سماجی جبر حد سے بڑھتا ہے تو ہر با شعور عوام بغاوت کے لئے ضرور اٹھتے ہیں . ہر رسم اور رواج کو روندتے ہیں مسائل جب حد سے بڑھتے ہیں روٹی ملنی جب دوبھر ہو جاتی ہے تو عوامی تبدیلی ضرور اتی ہے مگر قانون طریقوں سے نہیں عدالتوں سے نہیں ایئن یا پارلیمان کے راستے نہیں ، وکیلوں یا وزیروں کے ہاتھوں نہیں سماجی یا سیاسی حکمرانوں کی قیادتوں سے بھی نہیں بلکہ عوام کا سیلاب اپنے حقوق چھین کر حاصل کرتا ہے عوامی بیداری و شعور ہی کافی ہوتا ہے حکمرانوں کی سالہا سال کی پالی ہوئی طاقت اور بادشاہوں مضبوط تختوں کے نیچے سے زمین کھینچنے کے لئے . آج مسلمان ممالک کا یہی تو المیہ ہے کہ وہاں یا تو غاصب اور امر براجمان ہیں اور جو چند ایک لنگڑی لولی جمہوریت کے راگ الاپتے نظر اتے ہیں وہ بھی فقط کٹھ پتلیاں ہی ہیں . امت مسلمہ کی زبوں حالی ، سر پر چھائے جہالت کے سیاہ بادل ، ظلم و جبر کے اندھیرے اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومیت بھی انہی غاصب اور امر حکمرانوں اور بادشاہوں کی دین ہے جو اپنی طاقت کی طوالت کی لئے عوامی جہالت کو فروغ دیتے چلے آ رہے ہیں . جس بھی مسلمان ملک پر نظر ڈال لیں عوام بھوکی اور حکمران مالامال ہیں . اگر مصری عوام کا حسنی مبارک نے تیس سال تک استحصال تو ایسا اس نے اکیلے تو نہیں کیا نا ..اس استحصال کے خاتمہ کے لئے ان تمام ہاتھوں کو جنہوں نے حسنی مبارک کو ایسا کرنے میں مدد دی کا کاٹنا حسنی مبارک کے اقتدار چھوڑنے سے بھی زیادہ ضروری ہے . . دوسری طرف دنیا بھر کے سر پر منڈلاتے دہشت گردی کے سایوں سے جڑےخوفناک حقائق میں سے یہ بھی ایک ہے کہ سنہ انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں مشرق وسطی میں اٹھنے والی چھوٹی چھوٹی کیی سوشلسٹ تحریکوں کو دبانے کے لئے عالمی سامراج نے وہی کھیل کھیلا جو سرد جنگ جیتنے کے لئے کھیلا تھا یعنی بنیاد پرستوں کو سیاسی و معاشی و عسکری مدد دی بنیاد پرست گروہوں میں مصر کی اخوان المسلمین ، شام کی حماس ، الجزائر کی اسلامک سالویشن فرنٹ ، انڈونشیا کی سراکت السلام اور پاکستان کی جماعت اسلامی نمایاں ہیں . سرد جنگ جیتنے کے بعد یہی بنیاد پرست امریکا کے پیچھے پر گئے جس سے ان کی منافقت عدم نظریاتی سوچ اور ڈالر پرستی بخوبی نظر اتی ہے . اس پس منظر میں تیونس کے بعد مشرق وسطی میں عوامی احتجاج کی لہر کو دیکھا جائے تو اس لہر کے نتیجے میں صرف انتہا پسند عناصر ہی کرسی صدارت کے نہ صرف امیدوار بلکہ اسکے قریب ترین بھی وہی دیکھائی دیتے ہیں . انکے علاوہ دوسرا کوئی نہ تو عوامی مقبولیت کا حامی ہے اور نہ ہی کرسی صدارت کے امیدواروں میں نظراتا ہے لہذا بہت حد تک یہ بھی گمان کیا جا سکتا ہے کہ بنیاد پرستوں کو کرسی دلوا کر دانستہ طور پر مشرق وسطی میں طالبانیت کا بیج بونا ہے تاکہ دہشت گردی کی اس جنگ کو تقویت مل سکے .یہ خوفناک سازش بھی ان ممکنات خطرات میں سے ایک ہے جو آج صرف مصر ہی کو نہیں بلکہ اس پورے خطہ کو لاحق ہے. کیوں کہ انقلاب دو طرح کا ہوتا ہے شعوری اور لا شعوری اگر انقلاب کسی قوم میں شعوری طور پر ہو تو اس کے نتائج بلا شبہ مثبت ہی نکلتے ہیں لیکن اگر یہی انقلاب لا شعوری طور پر فقط جوش کے سہارے ہی ہو تواسے اس قوم کی غارت گری کا سبب بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی . اب یہ انقلاب شعوری ہے یا کہ لا شعوری اس کا فیصلہ تو اب انے والا وقت ہی کرے گا .

 

Mail to:-

 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team