اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

محمد مبشر انوار چیف ایڈیٹر اردو پاور ڈاٹ کوم

Email:-mmanwaar@yahoo.com

Tele:-                    333-

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔07-10-2010

مظلوم بننے کی امید
کالم  ۔۔۔۔۔  محمد مبشر انوار
اس حقیقت میں کوئی انکار نہیں کہ پاکستان میں سیاسی پارٹی کی حیثیت سے پاکستان مسلم لیگ کی ایک مسلمہ حیثیت ہے کیونکہ یہ پاکستان مسلم لیگ ہی تھی جس نے تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان کی کامیابی کا ایک اور اہم ستون مسلم لیگ کی وہ قیادت تھی جو حضرت قائد اعظم کی مرہون منت تھی ۔ یہ قیادت کا ہی کرشمہ تھا ، ساکھ تھی کہ ایک ان پڑھ ہندوستانی بھی قائد اعظم کے الفاظ کو نہ سمجھنے کے باوجود بھی ، اس پر یقین رکھتا تھا، اسے یہ اعتماد تھا کہ مسلم لیگ کا رہنما جو بات کہہ رہا ہے اس کا مطلب بھی وہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد آج تک بھی مسلم لیگ کسی نہ کسی حیثیت میں پاکستانی سیاست میں موجود رہی ہے ۔ وہ خواہ ایوب خان کی فنکشنل لیگ کا روپ اختیار کرے یا قاسم گروپ، قائد اعظم گروپ ہو یا نواز لیگ مگر پاکستان کی سیاست میں اس کا وجود ہمیشہ موجود رہا ہے۔لیکن مسلم لیگ کی یہ حیثیت صرف اس وقت تک تھی جب تک اس کے مد مقابل کوئی حقیقی عوامی سیاسی جماعت نہیں آئی تھی۔ مسلم لیگ 1967تک عوامی سیاسی جماعت کی بجائے ایک ڈرائنگ روم کی جماعت بن چکی تھی اور اس کے تقریباً تمام فیصلے عوامی رائے سے ہٹ کر ہوتے تھے۔ مسلم لیگ میں جاری رسہ کشی کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب نے عوامی لیگ کی بنیاد رکھی تو مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی ۔ یہ دونوں جماعتیں عوام میں گہری جڑیں رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی حیثیت میں سامنے آئیں کہ ان دونوں جماعتوں کا خمیر عوام سے اٹھا تھا، ان کی پالیسیاں عوامی، انداز عوامی تھا اور یہی وجہ تھی کہ 1970کے عام انتخابات میں ان دو جماعتوں نے اپنے اپنے علاقوں میں واضح اکثریت حاصل کی۔ عوامی لیگ اس اعتبار میں پاکستان پیپلز پارٹی سے کہیں بہتر اور منظم طور پر سامنے آئی کہ اس نے مشرقی پاکستان میں تقریباً تمام سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کسی طور بھی خود کو عوامی لیگ کے ہم پلہ ثابت نہ کر سکی۔ بعد ازاں بھٹو کی جذباتی شخصیت ، ماضی کے غیر منصفانہ اقدامات ،ہندوستان اور عالمی برادری کی ریشہ دوانیوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اہم کردار کیا۔
باقی ماندہ پاکستان ایک بار پھر آمریت کے شکنجے میں کسا گیااور سیاسی جماعتوں پر سخت پابندی عائد کردی گئی ماسوائے اپنی من پسند جماعتوں کے۔ ان کو اس کھیل میں کھلی چھٹی دی گئی کہ وہ جیسے چاہیں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس عرصہ کے دوران ملک میں کئی اتار چڑھاو ¿ آئے اور اس وقت اگر کوئی سیاسی عوامی حکومت ہوتی تو یقیناً ان حالات کو پاکستان کے حق میں استعمال کرنے کی نہ صرف کوشش کرتی بلکہ حالات کو پاکستان کے حق میں بھی کر لیتی اور عین ممکن تھا کہ پاکستان پر قرضوں کو معاف بھی کرا لیا جاتا لیکن اس وقت کی حکومت نے فقط اپنے اقتدار کی طوالت پراکتفا کرنا ہی گوارا کر لیا۔بہر کیف یہ سب ماضی کی باتیں ہیں اور اب ان کا ذکر کنا ایسے ہی ہے جیسے لکیر کو پیٹنا مگر یہاں پر ان حالات کا ذکر کرنا بے محل بھی نہیں کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ عموماً پاکستان پیپلز پارٹی کو اس وقت حکومت بنانے کی دعوت دی جاتی ہے جب حالات ضرورت سے زیادہ بگڑ چکے ہوتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کا اگر جائزہ لیا جائے تو ماسوائے پہلے دور حکومت کے کسی بھی دور میں اس جماعت کو حق حکمرانی نہیں دیا گیا۔ جبکہ پہلے دور حکومت میں بھی حق حکمرانی تسلیم کرنے کی ٹھوس وجہ تھی کیونکہ اس وقت اقتدار کا تیسرا غیر روایتی حریف شکست خوردہ تھا اور اسے خودکو سنبھلنے کے لئے موقع چاہئے تھا اور یہ موقع بھٹو جیسا حکمران ہی دے سکتا تھا۔بعد ازاں کے واقعات نے یہ ثابت کیا کہ پس پردہ طاقتور قوت کے علاوہ افسر شاہی نے بھی اس سیاسی جماعت کو بہ حیثیت حکمران کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ بھٹو کے دور حکومت میں جیالوں نے جو سلوک افسر شاہی کے ساتھ کیا اس نے افسر شاہی کو پیپلز پارٹی سے ہمیشہ کے لئے بد ظن کر دیا اور آج تک افسر شاہی اس جماعت کو دل سے قبول نہیں کرتی۔ دوسری طرف ضیاءمارشل لاءکے دوران اس پارٹی کی طرف سے فوج پر سخت تنقید نے فوج میں بھی اس پارٹی کی حمایت کو مجروح کیا۔اس کِے علاوہ اس پارٹی کے رہنماو ¿ں نے امریکہ پر بھی سخت تنقید جاری رکھی اور اس پارٹی کے سربراہ کو امریکہ کی طرف سے عبرتناک مثال بنانے کی دھمکی بھی دی گئی۔
یہ وہ ماضی تھا ،جس کے باعث بے نظیر بھٹو 1986میں جلا وطنی ختم کرنے سے پہلے امریکہ سے کلیرنس لینے جانا پڑا،اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے جی ایچ کیو بھی حاضری دینا پڑی۔ اس کے باوجود پہلے دور حکومت میں ، بے نظیر بھٹو کو ادھورا اقتدار دیا گیا جس میں بے نظیر بھٹو اور ان کی ٹیم کو کبھی بھی آزادانہ کام نہ کرنے دیاگیا۔ اس پر طرہ یہ کہ بے نظیر اور ان کے شوہر پر کرپشن کا پراپیگنڈہ جاری رکھا۔اسی سارے کھیل کے دوران کیا سچ ہے اس کا فیصلہ آج تک نہیں ہو سکاحالانکہ حکومت پاکستان کے لاکھوں ڈالر سوئس کیسز کو ثابت کرنے پر خرچ ہوئے مگر آج تک ثابت کچھ بھی نہیں ہوا۔لیکن اس کا کم ازکم ایک فائدہ پیپلز پارٹی کو یہ ہوا کہ یہ بے نظیر بھٹو کے دو ادوار میں اقتدار سے نکالے جانے کے باوجود مظلوم بن گئی۔ آج بھی صورتحال تقریباً یہی ہے حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی ہے ، اس کا صدر ہے ، وزیر اعظم ہے لیکن اس کے باوجود یہ حکومت چاروں طرف سے مختلف مسائل میں جکڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایک طرف عدلیہ کے ساتھ مسائل الجھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف سیلابوں میں گھری ہوئی ہے تیسری طرف اس حکومت کو امریکی دباو ¿ کا سامنا ہے چوتھی جانب ہر دوسری حلیف جماعت اپنے حصے سے زیادہ کی طلبگار نظر آتی ہے۔ کراچی ایک بار پھر آگ و خون میں لت پت ہے،فرقہ واریت اپنے عروج پر نظر آتی ہے ، عوام میں عدم تحفظ کا احساس اپنے عروج پر ہے۔ حکومت فاٹا اور دیگر علاقوں میں اپنی رٹ قائم کرنے میں کوشاں ہیں مکر شہری علاقوں میں عوام انصاف اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے ہیں اور خود ہی مجرموں کو سزا دیتے نظر آتے ہیں۔بظاہر حکومت کی پالیسی ایک بار پھر یہ نظر آتی ہے کہ کسی طرح اس کو پھر حکومت سے بے دخل کیا جائے تا کہ یہ عوام میں مظلوم بن سکیں مگر اس بار منصوبہ سازوں کے ارادے کچھ او رنظر آ رہے ہیں وہ نہ تو اس حکومت کو غیر آئینی طریقے سے ختم کرنا چاہتے ہیں او رنہ ہی ان کو آزادانہ کام کرنے دینا چاہتے ہیں جبکہ حکومت خود بھی اس قابلیت سے عاری نظر آتی ہے۔ اس صورت میں یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ منصوبہ ساز اس جماعت کو کسی غیرآئینی بیساکھی کا سہارا دے کر مظلوم بنانے کے بجائے حقیقی طور پر عوام کی نظروں سے ہمیشہ کے لئے گرانا چاہتے ہیں مگر کیا وہ اس میں کامیاب ہو جائیں گے؟
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved