اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

محمد مبشر انوار چیف ایڈیٹر اردو پاور ڈاٹ کوم

Email:-mmanwaar@yahoo.com

Tele:-                    333-

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔09-06-2011

دکانداری
کالم  ۔۔۔۔۔  محمد مبشر انوار
کاروبار پچھلے وقتوں میں بھی ہوتے رہے ہیں مگر تب معاشرے میں انسانیت نام کی چیز زندہ تھی اور ایک دوسرے کے جذبات ،احساسات کا خیال رکھا جاتا تھا ۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو بانٹا جاتا تھا ۔منافع کے حصول میں آج کی نسبت قدرے معقولیت تھی اور گاہکوں کی کھال ایسے نہیں اتاری جاتی تھی۔ معاشرے میں ہوس زر میں مبتلا افراد کی اتنی بہتات نہ تھی اور اکثریت قناعت پسندی پر مائل تھی۔ دکانداری کی نہ بہت زیادہ قسمیں تھی اور نہ ہی مال بیچنے کے نت نئے انداز تھی،زندگی ایک مخصوص ڈگر پر چل رہی تھی۔ مگر ........ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں ....... وقت بدلنے کے ساتھ معاشرے کا رہن سہن اور اقدار بھی بدلتی چلی گئی۔ قناعت کی جگہ ہوس اور سادگی کی جگہ فیشن نے لے لی اور اپنا مال بیچنے کے لئے نت نئے طریقے اور انداز اپنائے جانے لگی۔ شروع میں فیشن کی اشتہاری مہم فقط پرنٹ میڈیا تک محدود رہی کہ دیگر ذرائع ابلاغ ن پید تھے مگر الیکٹرانک میڈیا کے منظر عام پر آتے ہی تمام صورتحال ہی بدل گئی اور ابتداًاشتہاری مہم پھر اس میں گلیمر کا تڑکہ ،حد یہ کہ نسوانیت کو مردانہ پروڈگٹس کے لئے بھی پردہ سکرین پر نمودار ہونا لازم ہوگیا۔ الیکٹرانک میڈیا بھی جب تک قواعد و ضوابط میں رہا،حالات اور معاشرہ بھی بے قابو نہیں ہوا مگر کوئی بھی مقامی میڈیا ،عالمی میڈیا کی یلغار سے محفوظ نہ رہا اور جلد یا بدیر عالمی میڈیا کے اثرات اس پر پڑتے نظر آئی۔ غیر مسلموں کی تو خیر کیا بات کریں، آزاد مسلم ممالک کا میڈیا بھی شتر بے مہار ہو کر اپنی دکانداری چمکانے کی سعی میں مصروف ہی۔
جیسے جیسے میڈیا اپنے تئیں ترقی کر رہا ہی،ویسے ویسے معاشرے میں بے سکونی کا دور دورہ بڑھ رہا ہی۔ میڈیا کو بھی مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور میڈیا کا ایک حصہ اگر تفریح کے نام پر لچر بازی میں مصروف ہے تو دوسرا حصہ مذاہب کی تبلغ بھی کر رہا ہے تو وہیں تیسرا حصہ (جو آج کے دور کا اہم ترین حصہ بن چکا ہی) حالات حاضرہ پر تجزئیے و تبصرے کرتا نظر آتا ہی۔ بہت سے نامور دانشور اور صحافی مختلف چینلز پر اپنی مہارت اور دانش کے موتی بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ ایسی ایسی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہی۔ ہر چینل کی یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ہر بریکنگ نیوز اس چینل سے نشر ہو تا کہ اس دوڑ میں اس چینل کی سبقت و برتری برقرار رہی۔ بعد ازاں ہر ایسی بریکنگ نیوز پر متواتر یہ اعلان کرنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ مجوزہ بریکنگ نیوز کو سب سے پہلے ہمارے چینل سے نشر کیا گیا۔افسوس اس امر کا ہے کہ آج کا پاکستانی میڈیا گو کہ نہ صرف بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے بلکہ اپنی اہمیت کو بھی تسلیم کروار رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سبقت کی اس دوڑ میں لا تعداد مواقع پر قومی مفاد کو بھی نظر انداز کیا گیا اور ایسی ایسی خبریں بھی بریک کی جاتی رہی جن سے ملکی مفاد کو نقصان ہوا یا اس کا احتمال ہوا۔ پاکستانی میڈیا کو اس کا احساس اس وقت ہوا جب جی ایچ کیو پر دہشت گردوں نے حملہ کیا، تب پاکستانی میڈیا نے وہاں کے حالات کو براہ راست نشر کرنے سے گریز کیا واللہ اعلم گریز کیا یا وہاں تک رسائی نہ تھی یا حقیقتاً میڈیا کو اس وقت احساس ہو گیا تھا مگر کسی طور ہی سہی میڈیا نے اپنی حدودوقیود کا ادراک تو کیا مگر ہنوز سبقت کی دوڑ ختم نہیں ہوئی اور مقابلے کے اس دور میں آج بھی تمام چینلزسنسنی پھیلانے اور حقائق کی نہہ تک جانے کے لئے ،عوام کو حقائق کے نام پر ایسے دلدوز مناظر دکھانے سے بھی اجتناب نہیں کرتے کہ ان کو دکھانے سے سنسنی پھیلتی ہے اور چینل کو زیادہ ناظر میسر آتے ہیں۔
دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ رینجرز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سرفراز کی آہیں اور منتیں بڑی سنسنی اور سبقت لے جانے کی خاطر چینلز دکھاتے رہے ۔ کسی نے یہ نہ سوچا کہ سرفراز آہ و پکار کا اس کے والدین پر کیا اثر ہو گا؟معاشرے پر اس کا کیا اثر ہو گا؟ بیچارہ سرفراز جو گولیاں کھا کر ،خون میں لت پت، زمین پر ایڑیاں رگڑتے ہوئے اپنی ماں کو فریاد کر رہا ہے کہ وہ اس کو بچا لی۔ کوئی ماں اپنے جوان بیٹے کو اس طرہ تڑپتے کیسے اور کیونکر دیکھ سکتی ہی؟کیا کوئی ماں جوان بیٹے کی ایسی نا گہانی موت اور يہ و پکار برداشت کر سکنی ہی؟کیا سرفراز کے والدین کو اس سانحے کی جزئیات دکھا کر زندہ درگور نہیں کر دیا گیا؟ کیا کوئی ان کے حافظے سے اس سانحے کی جزئیات کھرچ سکے گا؟کیا سرفراز کے والدین کی بے بسی و بیچارگی کو رسوا نہیں کیا گیا؟اور معاشرے کو کیا سبق مل رہا ہی؟یہ سانحہ معاشرے کے کتنے افراد کو بد دل کرے گا؟ کتنے ایسے ہوں گے جن کا اعتماد اپنے ملک کے اداروں سے اٹھ جائے گا؟ کتنے ایسے ہوں گے جو اس سانحے کے بعد اپنے اصول، اپنے قانوں خود وضع کریں گی؟موجودہ حکومت تو نہ ہونے کے برابر ہے ،جس پر نہ بجلی کی کمیابی کا کوئی اثر ہی، نہ امن و امان کی بدترین مخجوش صورتحال اس کو جھنجھوڑ پاتی ہی، نہ عوام کی دیگر مشکلات سے اس کے کانوں پر جوں تک رینگتی ہی۔ حکومت فقط اپنے دور اقتدار کو بچانے میں لگی ہے کہ کسی طرح جوڑ توڑ سے ہی سہی اس کا دورانیہ مکمل ہو جائے ۔ اس کے پاس پا لیسیاں بنانے کا وقت ہی نہیں اور جب ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہر ادارہ اور معاشرے کے انفرادی کردار اپنی پالیسیاں خود ترتیب دیتے ہیں۔ جیسے رینجرز کے جوانوں نے کی، جیسے میڈیا نے کر رکھی ہیں کہ سبقت کی دور میں اول پوزیشن کے لئے خبروں میں سنسنی پیدا کرتے رہو‘ دلدوز مناظر بھی بے حسی اور پورے مرچ مصالحے کے ساتھ نشر کرتے رہو تا کہ دکان پر گاہکوں کا رش برقرا ررہے اور دکانداری چلتی رہی۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved