اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

محمد مبشر انوار چیف ایڈیٹر اردو پاور ڈاٹ کوم

Email:-mmanwaar@yahoo.com

Tele:-                    333-

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔09-07-2011

لاشوں کی سیاست
کالم    محمد مبشر انوار
محمد مبشر انوار
بر صغیر کی شخصیاتی سیاست میں یہ حقیقت واضح ہے کہ اس خطے میں کامیابی کا پہلا زینہ کہیں حقیقی قیادت کی ایک لاش ہے تو دوسری طرف ذاتی مفادات اور ذاتی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے لاشوں کے انبار لگانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ خواہ بنگلہ دیش ہو یا سری لنکا، پاکستان ہو یا ہندوستان۔ گذشتہ ایک صدی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سیاست دان وہی ہے جو حکمرانوں کو عوامی بد امنی کا تحفہ دے کر اپنی مٹھی میں کرنا جانتا ہو،جو زیادہ سے زیادہ لاشوںکے ڈھیر پر کھڑا ہو ، اس کی ایک آواز پر کشتوں کے پشتے لگا دئیے جائیں یا درپردہ طاقتوروں کے ہاتھوں کسی بھی حقیقی قیادت کو پنپنے نہ دیا جائے۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن ہوں یا ہندوستان میں اندرا گاندھی یا پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹویا شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ۔ یہ وہ سیاستدان تھے جو واقعتاً اور حقیقتاً اپنی قوم کی خاطر کچھ کر سکتے تھے مگر مفادات کے پجاریوں نے اس قیادت کو افق سیاست سے ہٹا دیا ، باقی بچ جانے والے سیاستدانوںکی حیثیت ان کے مقابلے میں بونوں سے زیادہ نہیں ۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش میں مسلسل انتخابات سے صورتحال میں قدرے بہتری نظر آتی ہے جبکہ پاکستان ابھی تک اپنی گم کشتہ منزل کی تلاش میں ہے۔ یہاں کے بونے سیاستدان جو فقط سطحی سوچ کے حامل ہیں اور اپنے مفادات اور ہوس اقتدار میں کچھ بھی کر گذرنے کےلئے تیار نظر آتے ہیں۔ اس سوچ کی صحیح عکاسی ہندوستانی میڈیا ببانگ دہل کرتا ہے اور ایسی محلاتی سازشوں پر نہ صرف ڈرامے بلکہ فلمیں بھی پروڈیوس کرتا ہے جن کے ذریعے وہ ایسے کرداروں کو بے نقاب کرتاہے گو اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا مگر عوام کو اپنی نام نہاد قیادت کے کرتوت ضرور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان ڈراموں اور فلموں میں جہاں امن دشمن عناصر کا قلع قمع دکھایا جاتا ہے وہیں ایسے بلیک میلر سیاستدانوں کا عبرتناک انجام بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور عوام پردہ سکرین پر نظر آنے والے انصاف پر ہی خوش ہو جاتی ہے۔ہندوستانی فلمیں ان تمام گھناو ¿نی سازشوں کو پردہ سکرین پر لے آتی ہیں کہ کس طرح اقتدار کی خاطر غنڈوں کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ،ان کی پشت پناہی کی جاتی ہے بلکہ اپنے مذموم مقاصد کی خاطر ان کی کھیپ بھی پروان چڑھائی جاتی ہے تا کہ یہ جرائم پیشہ عناصر اپنے آقاو ¿ں کے ایک اشارے پر زندہ انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح موت کے گھاٹ اتار کر اپنے آقاو ¿ں کو اقتدار کے حصول کے لئے بہترین پوزیشن فراہم کرسکیں۔ ایسی بے شمار ہندوستانی فلمیں موجود ہیں جن میں مفاد پرست سیاستدانوں کے کالے کرتوت بے نقاب کئے گئے ہیں اور جیسے ہی عوامی احتجاج حد سے بڑھتا ہے تو امن و امان کے ان دشمنوں کو ماورائے عدالت اگلے جہان پہنچا دیا جاتا ہے۔
ایسے مناظر ایک زمانے میں پنجاب میں دیکھے گئے جب جناب میاں شہباز شریف نے امن و امان کی بحالی کی خاطر ایسے عناصر کو ماورائے عدالت اقدامات سے اگلے جہان جہنم رسید کیا اور اس وقت امن کے ذمہ دار اداروں کی پھرتیاں بھی قابل دید تھی کہ ایک وقت وہ تھا جب انہیں سامنے کھڑے ایسے جرائم پیشہ عناصر نظر نہیں آتے تھے لیکن جب ارباب اختیار کے مقاصد پورے ہو گئے اور پرانی کھیپ حد سے تجاوز کرنے لگی، اپنی من مانیوں پر اتر آئی تو امن بحال کرنے کے ذمہ داروں کو ارباب اختیار کی رضامندی بھی حاصل ہو گئی تب ایسے جرائم پیشہ عناصر کو پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالا گیا اور انہیں ان کے منطقی انجام تک پہنچا دیا گیا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جو پودا اقتدار کی خاطر سیاستدانوں یا آمروں نے سینچا ، اس کے ثمرات اب پوری پاکستانی قوم بھگت رہی ہے۔ گذشتہ چند دہائیوں سے کراچی کا امن عنقا ہو چکا ہے حیرت ہوتی ہے کہ ہر حکومت دعوے کرتی نہیں تھکتی کہ وہ ایسے عناصر کا قلع قمع کر کے دم لے گی مگر وہ اپنے اس بیان کے فوری بعد ہی دم لینے لگتی ہے۔ افسوس صد افسو س کہ ساری قیادت، بشمول حکومت و اتحادی، کے اتنے بلند و بانگ دعوو ¿ں کے باوجود کراچی خون میں لت پت ہے ہر دوسرے دن کراچی میں نہتے،بلکہ اب تو ہر دوسرے پل ، انسانوں کا خون خاک میں ملتا نظر آتا ہے۔ جناب رحمن ملک ، قائم علی شاہ، شاہی سید ، فاروق ستار اور سابق گورنر ڈاکٹرعشرت العباد اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کراچی کو امن نہ دے سکے۔ ایم کیو ایم کی قیادت اس معاملے میں نسبتاً سب سے زیادہ کامیاب نظر آتی ہے کہ ایک طرف تو ان کے وہ کارکن (بالعموم) جو کسی نہ کسی حوالے سے نا پسندیدہ ہوں، ایسے سانحات میں کام آجاتے ہیں جبکہ باقی بوقت سوگ ۔ کم و بیش یہی صورتحال اے این پی کی نظر آتی ہے جبکہ دونوں ایک وقت میں حکومت کا حصہ تھی جبکہ آج ایم کیو ایم حکومت سے الگ ہے اور انسانی جانوں کا ضیاع ہر دو صورتوں میں اسی جماعت کے حصے میں آتا ہے۔اصولاً کراچی کے امن کی زیادہ ذمہ داری ایم کیو ایم کے کاندھوں پر آتی ہے کہ ایم کیوایم کا یہ دعوی ہے کہ کراچی کے عوام دل و جان سے ان کے ساتھ ہیں اور اس کا ثبوت انتخابی نتائج ہیں ،جس میں ایم کیو ایم کے امیدواروں کے حصے میں لاکھوں کی تعداد میں ووٹ آتے ہیں۔ جبکہ کسی بھی اور جماعت کے ووٹوں کی تعداد کراچی میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ دوسری طرف قائد تحریک الطاف حسین کے خطاب کے موقع پر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پورا کراچی ان کو سننے کے لئے امڈ آیا ہے اور قائد تحریک کے ایک ایک لفظ کی تعمیل کارکن اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود کراچی خون رنگ کیونکر ہے؟؟
نہ جانے کراچی کی یہ صورتحال دیکھکر ہندوستانی فلمیں ذہن کے پردہ سکرین پر کیوں نمودار ہو جاتی ہیںابھی تک یہ فلمیں صرف عوام کے خون تک رکی ہوئی ہیں اور ظالم ، گھناو ¿نی سازشیں کرنے والے سیاستدانوں کے انجام کا منظر ہنوز دور ہے اور نہ جانے ہمارے ملک کی ایسی قیادت کا انجام کب ،حقیقی معنوں میں ہم جیسے عوام دیکھ سکیں گے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved