اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0333-5176429

Email:-atharwani@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔29-11-2010

سلامتی کونسل اور بھارتی اہلیت

کالم ۔۔۔------------ اطہر مسعود وانی


اقوام متحدہ میںاصلاحات کے نام پر کئی تبدیلیاں زیر غور ہیںجس کے تحت اقوام متحدہ کے سب سے مضبوط و حکمران ادارے سلامتی کونسل کے مستقل و غیر مستقل اراکین کی تعداد میں اضافہ کرنا مطلوب ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا ادارہ قائم کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں پانچ ممالک،امریکہ ،برطانیہ،فرانس،روس ،اور چین کو مستقل ارکان کے طور پر ”ویٹو“ کے حق سے نوازا گیایعنی ان میں سے کسی ایک ملک کی طرف سے ”ویٹو“ کے استعمال پر کوئی بھی تحریک ناکام ہو سکتی ہے۔اب اصلاحات کے نام پر سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل اراکین کی تعداد میں اضافے کو ایک اہم ضرورت بتایا جا رہا ہے۔سلامتی کونسل میں آئندہ سال ہونے والی ان اصلاحات کی صورتحال میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ اقوام متحدہ نے دنیا کے بڑے تنازعات،مسائل کے خاتمے کے لئے کیا کردار اد اکیا ہے۔عمومی تاثر یہی ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ امریکہ اور یورپ کے مفادات کے تابع رہتے ہوئے کا م کر رہا ہے اور دنیا کے دیرینہ اور سنگین تنازعات (فلسطین،کشمیر وغیرہ،انسانوں کے بنیادی حقوق و ضروریات اور استعداد کار و وسائل) کی بہتری کے لئے اقوام متحدہ کا کردار امید افزاءنہیں ہے۔گزشتہ چند دہائیوں کے گہرے روابط کے بعد اب امریکہ،اسرائیل اور بھارت کے درمیان گہرے سٹریٹیجک تعلقات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے عالمی تنازعات کے خاتمے کی کوششوں کے اپنے کردار کو ختم کرتے ہوئے اسرائیل طرز پر جارحانہ پالسی اپنا لی ہے۔
ہمارا ہمسایہ ملک بھارت سلامتی کونسل کی مستقل نشست حاصل کرنے کے لئے سرگرم اور پرامید ہے۔دورہ بھارت کے موقع پر امریکی صدر اوبامہ کی طرف سے اس بارے میں بھارت کی حمایت کے اعلان سے صورتحال بھارت کے حق میں کافی ہموار ہو گئی ہے۔بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل نشست حاصل کرنے کے لئے دو تہائی ووٹوں (128)کی ضرورت ہے جبکہ بھارت کا دعوی ہے کہ 122ووٹ اس کی جیب میں ہیں۔اصلاحات کے اس عمل میں ابھی اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ سلامتی کونسل کے نئے مستقل ارکان کو ” ویٹو “ کا اختیار حاصل ہو گا یا نہیں۔امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلی عہدیدار رابرٹ بلیک ول نے کہا ہے کہ امریکہ سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل ارکا ن کی تعداد میں اضافے کے اپنے عہد پر قائم ہے۔سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان پی جے کرولی نے کہا ہے کہ بھارت کے لئے امریکہ کی حمایت خصوصی نہیں بلکہ تما م ممالک کے لئے ہے۔ساتھ ہی امریکی انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اصلاحات کا یہ عمل ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔بھارت،جرمنی ،جاپان،اور برازیل کی طرف سے یہ تجویز ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد11اور غیر مستقل ارکان کی تعداد 13کی جائے۔بھارت مستقل نشست کے ساتھ ” ویٹو“ کی طاقت بھی حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔اس بارے میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اکتوبر2011ءمیں ووٹنگ ہو گی۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا بھارت سلامتی کونسل کی مستقل نشست کا اہل ہے؟امریکہ اور یورپ کے کئی کاروبار بھارت منتقل ہو چکے ہیں اور بھارت میں اقتصادی ترقی کے لئے بنیاد نظر آتی ہے۔ایک ارب انسانوں سے زائد کی آبادی والے ملک کا ایٹمی و بڑی فوجی طاقت بن جانے کے باوجود اب بھی غربت و افلاس اور بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی بھارت کا بڑا مسئلہ ہے۔چین مخالف ممالک اقتصادی طور پر بھارت کو مضبوط بنانے کو کوشش میں ہیں تاکہ بھارت کو چین کے مقابلے میں لایا جا سکے۔ 15اگست1947ءسے اب تک بھارت میں انتہا پسند ہندوﺅں کے ہاتھوں مسلمانوں،عیسائیوں،سکھوں اور دوسری اقلیتوںکے قتل عام کے سینکڑوں واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ہندوﺅں کے ہاتھوں قتل عام کے ان واقعات کے تسلسل کو بھارت میں ایک معمول تصور کیا جاتا ہے۔یہ کہنا بے جا نہیں کہ بھارت میں ہندو راج کو ہی سیکولر ازم اور جمہوریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔برہمنوں کی حاکمیت میں چلنے والی یہ وہی جمہوریت ہے جس کی وجہ سے پاکستان معرض وجود میں آیا۔یہ بھارتی جمہورت کا ”حسن“ ہے کہ انڈین کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو اپنی اور اپنے بچوں کی جان کے خوف سے وزارت عظمی کی دوڑ سے دستبردار ہونا پڑا۔بھارت میں عشروں سے علیحدگی کی کئی تحریکیں جاری ہیں۔پاکستان سمیت کسی بھی ہمسایہ ملک سے بھارت اپنے دیرینہ تنازعات کے خاتمے میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکا۔بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ بھارتی انتظامیہ نے ان تنازعا ت کو دھونس ،دھمکی اورطاقت کے بھرپور استعمال سے اپنے حق میں طے کرنے کی کوشش پر مبنی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے۔بھارت گزشتہ 63سال میں ہر ’جائز و ناجائز‘ حربہ استعمال کرنے کے باوجود مسئلہ کشمیر حل کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے تمام اہم ممالک کی طرف سے بھی مسئلہ کشمیر کو مزید حل طلب رکھنا، جنوبی ایشیا کے امن و ترقی کے خلاف ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔اس طرح ایسا ملک جو سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے حصول کا خواہاں ہے،کی طرف سے اب تک مسئلہ کشمیر حل نہ کر سکنا اس کی کھلی ناکامی اور غلط ”اپروچ“ ہونے کا ثبوت ہے۔یوں بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل نشست اور ” ویٹو“ کی طاقت دینا ایسے ہی ہو گا جیسے ’بندر کے ہاتھ میں استرا ‘پکڑا دیا جائے۔
ہمارے کئی قلم کاراس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ56اسلامی ممالک کو بھارت کا راستہ روکنا چاہئے لیکن وہ یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ صدر پاکستان بھی بھارت کی حمایت کا عندیہ دے چکے ہیں۔بدقسمتی و بد اعمالی سے56اسلامی کہلائے جانے والے ممالک امریکہ کے آلہ کار بنے ہوئے ہیںاور ان میں سے بعض بد بخت ملک ایسے بھی ہیں جہاں کے حکمران اپنے عوام اور ملک سے بھی مخلص نہیں ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالسی پر نظر ڈالی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ فوجی آمروں کی تشکیل کردہ ملک و قوم کے مفادات کے منافی پالیسیوں پر سختی سے پہرا دیا جارہا ہے۔اگر ہم نے بھارت کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں پاکستان میں شہریوں اور قومی مقاصد کو اولیت دینا ہو گی اور ملک میں قانون کی حقیقی حکمرانی کو یقینی بنانا ہو گا۔لیکن اگر طاقت اور جہالت کی ہی حکمرانی رہی،”سنگ مقید سگ آزاد“ والی کیفیت رہی تو ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں،ہم اپنے لئے خود کافی ہیں۔ہم تو اصلاح کرتے نہیں اللہ ہی ہم پہ رحم فرمائے۔آمین
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved