اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-03222777698

Email:-azamazimazam@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔2010-12-28

دل میں طوفان چھپائے بیٹھا ہوں
کالم ۔۔۔۔۔۔۔ محمداعظم عظیم اعظم
حکومت سے مجھ کوپیار نہیں،دل میں طوفان چھپائے بیٹھا ہوں.....نوازشریف
نواز شریف کا سیاسی اعلان !حکومت کا دوست نہیں پاکستان دوست کاکرداراداکررہاہوں

حکومت کی ماضی کی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار اداکرنے والی ملک کی ایک بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نوازشریف نے مری میں میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ دل میں طوفان چھپائے بیٹھاہوں مجھ کو موجودہ حکومت سے پیار نہیںاور اَب کوئی یہ نہ سمجھے کہ مجھ کو حکومت سے پیار ہے اُنہوں نے اِن خیالات کے اظہارمری میں سافٹ ٹرین سروس کی افتتاحی تقریب کے موقع پروہاں موجودمیڈیا سے کیا اُنہوں نے اپنا سینہ ٹھونک کر اپنی جماعت کے عہدیداروں اور کارکنوںسمیت اپنے وزرا کی شان میں سیاسی قصیدہ پڑھتے ہوئے کہاکہ میںاپنے پورے یقین سے کہہ سکتاہوںہمارے کسی وزیرنے کرپشن نہیں کی تھی اور ہماراکبھی بھی حکومت کے ساتھ لین دین کا معاملہ نہیں تھا اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے جس انداز سے یہ کہا کہ ”ملاقاتیں کرنے وا لے سیاست کو میوزیکل چیئر نہ بنائیں یہ فیصلہ عوام کرتے ہیں کہ کون حکومت کرے اور کون اپوزیشن “یہ میاں نواز شریف کا وہ جملہ ہے جس نے اُن لوگوںکے لئے سوچنے کے ہزاروں دروازے کھل دیئے ہیںجو دن کے اُجالوں اور رات کے اندھیروں میں حکمرانوں سے ملاقاتیں کررہے ہیںاِس کا جواب تو یہی لوگ دیں اور نواز شریف کو مطمئن کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اعتماد میں لیں کے وہ ایساکیوں اور کس کے لئے کررہے ہیں.....؟بہرحال ! اِس سے انکار نہیں کہ ملک میں فرینڈلی اپوزیشن کا کرداراداکرنے والی پاکستان کی انہوکی اور دنیا کی پہلی حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن)نے جس انداز سے اَب حکومت کو بُرابھلاکہناشروع کردیاہے اِس سے جہاںعوام میں پی ایم ایل (ن) کا وقار بُری طرح سے مجروح ہورہاہے تو وہیں اِسے خود کوسنبھالنے کی بھی اشدضرورت ہے.... ورنہ عوام آئندہ انتخابات میں ملک کی موجودہ حکمران جماعت کی طرح دیگر کے ساتھ ساتھ اِسے بھی سائڈ لائین لگادیں گے کیونکہ پی ایم ایل (ن) کاموجودہ حکومت کے کبھی مصالحت پسند رویہ تو کبھی حکومت کے خلاف جارحانہ اندازروارکھنے کے عمل سے عوام پاکستان مسلم لیگ (ن) سے اکتاہٹ کا شکار ہوگئے ہیںاور اِس کے عمل ہی کی وجہ سے ملک میں آئندہ ہونے والے الیکشن میںاِس کے سیاسی کیریئر کوبھی شدید نقصان پہنچ سکتاہے کیونکہ گزشتہ دنوںخود پر اُوورکانفیڈنس کے شکار جماعت پی ایم ایل (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے مظفر آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے خلاف جس انداز سے زہراُگلاہے اُس سے تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہاکہ نوازشریف میثاقِ جمہوریت کی ناکامی کے بعد بُری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر اَب زرداری حکومت سے مایوس ہوگئے ہیںجب ہی اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ موجودہ حکومت دوستی کے قابل نہیں زرداری سے دوستی اُس دن ہی ختم ہوگئی تھی جس دن اُنہوںنے معاہدے پھاڑے تھے اور اُنہوںنے بلاروک ٹوک یہ اعلان بھی کیا کہ اَب کوئی ہمیںفرینڈلی اپوزیشن کا نام نہ دے بلکہ اَب تو ہم فرینڈلی پاکستان کا کردار اداکررہے ہیں۔اور ساتھ ہی اُنہوں نے پوری اُمید کے ساتھ یہ بھی کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)آئندہ انتخابات میں بھر پور عوام سے مینڈیٹ لے گی۔
یہاںمیراخیال یہ ہے کہ آج پاکستان کے عوام پہلے کے مقابلے میںبہت زیادہ باشعور ہوگئے ہیں اور اَب عوام خود یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہوچکے ہیںکہ وہ ملک اور قوم کے بہتر مفادات میںکس کو اقتدار سونپیں اور کس کو نہیں .....آج عوام کے سامنے موجودہ حکمرانوں کی بھی کارکردگی ہے تو نوازشریف کی سیاسی بھڑکیاں بھی .....بہرکیف! ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوںکو اُس وقت کا انتظار شدت سے ضرور کرناچاہئے کہ جس دن عوام اپنے ووٹ سے احتساب کی عدالت لگائیں گے۔اُس روز دوھ کا دوھ اور پانی کا پانی خودبخودہوجائے گا۔
آج شائد ہمارے حکمرانوںاور سیاستدانوں کو میرے اِس کہئے پر اعتراض ہو اور وہ اپنے دانت پیس کراوراپنی اپنی آستیںاُوپر چڑھاکر شدید غصے کے عالم میں چیخ بھی پڑیںمگر میں کیاکروں ....؟کہ میںیہ حق اورسچ قرطاس پر بکھیرے بغیرنہیں رہ سکتا کہ آج یقینا پوری سترہ کروڑپاکستانی قوم اپنے حکمرانوں،سیاستدانوںاور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے سربراہان کی اُوٹ پٹانگ باتوں اور اِن کی جانب سے بے عمل کئے گئے وعدوں کے سیراب میں گم رہنے کے بعداَب وہ یہ سوچنے، سمجھنے ،کہنے اورلکھنے کے بھی قابل ہوگئی ہے کہ ہمارے یہاںحکمرانوں،سیاستدانوںاور اپوزیشن جماعتوں کے لیڈوں میں سے کسی کوبھی نہ تو ملک کی تعمیرو ترقی سے کوئی غرض اور مطلب باقی رہی رہے اور نہ ہی کوئی قوم کے ساتھ مخلص اور دیانتدارنظر آتاہے اورآج موجودہ حکومت کی ناقص اور غیر تسلی بخش کارکردگی کے باعث عوامی سطح پر یہ خیال بھی روزاَفزوں زورپکڑتاجارہاہے کہ ہماراملک ِپاکستان شائد دنیا کا وہ واحداور عظیم ملک ثابت ہونے جارہاہے کہ جہاںبس ہردور میں حکمرانوں کولولی لنگڑی اپنی حکمرانی سے مطلب رہااور سیاستدانوں کو ہر دورِ حکومت میںاِس میں سے کیڑے نکالنے اور اپنی سیاستدان چمکانے سے کام رہااور اِس کے ساتھ ساتھ گاہے بگاہے اِنہیں تو بس اپنے اِقتدار کی کرُسی کے حصول کی فکرکھائے رہی ہے اور جب اِنہیںبھی اپنی چالبازیوںاور جوڑتوڑ سے مسندِاِقتدارپر اپنے قدم رنجافرمانے کاموقع مل گیاتو پھر اِنہیں اپنی اِسی کرُسی ¿ اقتدارکوبچانے کی فکرِ مکروہ لاحق رہی۔اِس موقع پر مجھے بشیرفاروق کا یہ شعر کہنے دیجئے کہ جو مجھے یاد آرہاہے اور جِسے میں اگلے سطور میں تحریرکرکے آگے بڑھوں گا مگراِس سے قبل یہ عرض کرنا بھی بہت ضروری سمجھتاہوں کہ ہمارے یہاں یوں توہر دورمیں آنے والے (ماسوائے چند ایک حکمرانوں کے جن میںسائیں ذوالفقار علی بھٹوشہید اور شہید رانی محترمہ بے نظیر بھٹو شامل ہیں اِن کے علاوہ) دیگرحکمرانوں کے لئے یہ عرض ہے کہ


تخت کا خواب بھی دیکھا نہ تھا جن لوگوں نے بخت سے آج سکندر وہ بنے بیٹھے ہیں
بات کرنے کا سلیقہ نہیں آتاجن کو قوم کا آج مقدر وہ بنے بیٹھے ہیں
اور اتفاق سے آج ایساہی کچھ اِس دورِ حکومت میں بھی چارسو ہوتا نظرآرہاہے کہ آج اِن مقدر کے دھنیوںکو عوام نے مسندِاقتدار سونپ دیا ہے تو تین سالوں کے دوران یہ چکراکر رہ گئے ہیںاور اَب تک یہ سب کے سب سوچ کے اِس گہرے سمندر میں ہی غوطہ زن ہیں کہ وہ یہ ذمہ داری اداکیسے کریں گے ...؟اور اِسی کشمکش میں مبتلارہنے کے بعد یہ جیسے تیسے اپنی حکومت کے تین سال تو گزار چکے ہیں اور باقی کی مدت گزارنے کی ھیرپھیر میں مصروف ہیںاوراَب اِس ساری صورت حال کے منظر اور پس منظر پر نظررکھنے والی ساری پاکستانی قوم اور د اہل ِدانش (جنہیں اکثر وبیشتر ہمارے یہی حکمران سیاسی اداکار کہہ کر اپنی سرکاری اور نجی میٹنگوں میںپکارتے ہیں ) اِنہیں بھی ِ افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ موجودہ حکمران آج اپنے ہاتھ آئے اِس اقتدار کو اچھی طرح نہ توچلانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اَب اِس کے ساتھ اِن میں نہ ہی اپنے خلاف کی جانے والی اندورنی اور بیرونی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے اپنے اقتدارکو سنبھالنے کی بھی کوئی سکت ہی باقی رہ گئی ہے۔ جبکہ اَب برسرِاقتدار اور مقدر کے دھنی ہمارے اِن حکمرانوں کی یہ کوشش بھی جاری ہے کہ یہ اپنی حکومت کی باقی مدت یوں ہی کسی معجزے کی طرح گزارکر سُرخرو ہوجائیں ۔مگرملک کے باشعور عوام اِنہیں ایساکرنے ہرگزنہیں دیں گے کہ ہمارے یہ حکمران بغیر ملک اور قوم کے بہتر مستقبل کے لئے کچھ کئے یوں ہی کنی کٹاکر خاموشی سے اپنی حکومت کے پانچ سال مکمل کرکے نکل جائیں ۔
جب کہ یہاںمیراخیال تویہ ہے کہ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ ہمارے ملک میں حقیقی جمہوریت اور عوام دوستی کے دعویٰ کرنے والے حکمرانوں پر اللہ تعالی ٰ نے اقتدار کی ذمہ داری اِن کے کاندھوں پرجب ڈالی تھی تو یہ اِس کا شکربجالاتے اور اپنی حکمرانی کو بہترملکی مفادات اور تعمیر وترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے نیک نیتی کے ساتھ اداکرتے تو کیا وجہ تھی کہ چنددنوںبعد ہی حکومت کو کمزور اورغیر مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ اِس کو ناکام بنانے میں ملک کے اندراور بیرون ملک سازشوں کے جال بُنے جاتے (اوربعض اخباری اطلاعات کے مطابق جن میںاِن کے اپنے بھی شامل ہیں) جس کا فائدہ سیاستدانوں میں بالخصوص پی ایم ایل نون کے سربراہ میاں نواز شریف اور جے یو آئی(ف) سمیت ق لیگ والوں نے بھرپور اٹھایااور وہ بھی اَب حکومت کے خلاف کھل کر سامنے آگئے ہیں۔جو پہلے ہی موجودہ حکومت کے خلاف تھے بس اپنے کسی نہ کسی مفاد کے خاطر اِس کے ساتھ چپکے رہنے میں یہ سب اپنی عاقبت سمجھتے رہے مگر یوں ہی اِنہوں نے حکومت کو کمزور ہوتادیکھاتویہ پیازکے چھلکوںاور جھاڑوکے تنکوں کے مانندحکومت سے لگ ہونے لگے اگرپی ایم ایل (ن) اور جے یوآئی (ف) ملک اور عوام کے ساتھ صحیح معنوں میں مخلص ہوتے تووہ بھی موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے مگر اُنہوں نے یہ گوارہ نہ کیا اور اِنہوںنے ہر حکومتی اُمور میں اپنی جابجاٹانگیں آڑانی شروع کردیں جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ سب جماعتیں حکومتی اُمور میںرغنہ نہ ڈالتیں بلکہ حکومت کواپنا اچھایابُراکام کرنے دیتےںاور حکومت کے ساتھ ایک خوشگوار ماحول میںچلتے ہوئے اِس کی اِصلاح بھی کرتے رہتے اور یوںسب کا کام بھی چلتارہتا۔ مگراَب یہاں مجھے یہ بھی کہنے دیں کہ اَب اِن جماعتوں کے سربراہان کو کوئی حق نہیں پہنچتاکہ یہ ہرحکومتی کام پر تنقیدبرائے تنقید کا بازار کھول کر بیٹھ جائیں اور اپنے مردہ سیاسی گھوڑوں میں روح پھونکنے کی سعی کرتے رہیں۔
جبکہ دوسری طرف یہ بھی ایک کُھلی حقیقت ہے کہ جس سے اَب نہ صرف ساری پاکستانی قوم ہی نہیں بلکہ پوری دنیا بھی اِس بات سے اچھی طرح سے واقف ہوچکی ہے کہ موجودہ حکومت میں خاص طور پر فرینڈلی اپوزیشن کا کرداراداکرنے کا وعدہ کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے تو گزشتہ تین سالوں کے دوران ملکی ایوانوں سمیت ملکی اور عالمی میڈیا اوراپنے جلسے جلوسوں میں خطابات کے دوران بالخصوص صدر زرداری اور موجودہ حکومت کو جس اندازاور غیرپارلیمانی الفاظ کے ساتھ ہدف تنقید بنا کر اپنے بغض اور کینہ پروری کااظہارکرتے ہوئے اپنی جس کارکردگی کا مظاہرہ کیاہے ..... پی ایم ایل (ن) کی اِس سیاسی حربہ سازی پر پاکستانی عوام یہ بھی سوچنے پرضرور مجبور ہوچکے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ایساکرکے اپنی کونسی سیاسی ذمہ داری پوری کی ہے....؟ اور یہ اِس کا کونسا سیاسی چہرہ ہے...؟جس میں پی ایم ایل (ن) نے ملکی سیاست کے بجائے حسبِ عادت اور روایت ہر حکومتی معاملے کو ذاتی رنگ میں پیش کیاہے جس سے اِس نے نہ صرف اپنا ہی وقت ضائع کیا بلکہ ہر حکومتی معاملے میں اپنی کوئی نہ کوئی ٹانگ پھنساکر حکومت کو اپنا اچھایا بُراکام کرنے سے بھی روکنے کا عمل جاری رکھاجس پر آج بھی پی ایم ایل (ن) اپنی پوری ڈھٹائی سے عمل پیراہے۔
مگر موجودہ حکومت بھی حالات کی نزاکت اور اپنے خلاف اندونی اور بیرونی طور پر کُھلنے والے محاذوں سے بے خبر ہے اورنامعلوم کس دُھن میں مگن ہوکرملک میں اغیار کے اشاروںپر آرجی ایس ٹی اور فلڈ سرچارج بلوں کے فوری نفاذ کے لئے بضد ہے جس کا فائدہ فی الوقت نہ تو ملک کوپہنچے گا اور نہ ہی ملکی عوام تک اِس کے ثمرات پہنچ پائیں گے بلکہ اِس کا فوری فائدہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اِ ن پاکستان دشمن عناصر کو ہی ہوگا جو پاکستان کو قرضوںکے بوجھ تلے دبادیکھناچاہتے ہیں اور اِس طرح وہ پاکستان میں بیجاٹیکسوں کے نفاذ سے اپنے قرضوں کی رقم کی وصولی چاہتے ہیں جس کے لئے اِنہوںنے حکومت پر ٹیکسوں کے فوری نفاذکے لئے دباو ¿ ڈالاہواہے اَب اگر اِس حوالے سے پی ایم ایل (ن)اور ایم کیو ایم حکومت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہورہی ہیںتو اِس میں کسی کاکیا جاتاہے۔یہاں میراخیال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں صرف یہی تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ایک اچھا عمل ہے جو ملک اور عوام کے بہتر مفادمیںنظر آرہاہے باقی سب کام اور عمل پی ایم ایل (ن) کے ایسے ہی ہیں جن پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں .....کیونکہ وہ بعض مرتبہ سیاسی ہونے کے بجائے زیادہ تر ذاتی نوعیت کے معلوم دیتے ہیں ۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved