اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-03222777698

Email:-azamazimazam@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔2011-01-12

موت کی آغوش میں جب تھک کرسُوجاتی ہے ماں
کالم ۔۔۔۔۔۔۔ محمداعظم عظیم اعظم

ایک خبر! حافظ آباد میں بیٹوںنے ماں کو30ہزار میں فروخت کردیا
موت کی آغوش میں جب تھک کرسُوجاتی ہے ماں....تب کہیں جاکرتھوڑاسکوں پاتی ہے ماں
جنت ماں کے قدموں تلے ہے.....دنیاکا سب سے پیارالفظ”ماں“ ہے

پچھلے کئی دِنوں سے ہمارے یہاں جہاںملکی اور عالمی سطح پر چٹخاریدار سیاسی خبریں بریکنگ نیوز کی صُورت میں قدم قدم پر بل کھاتی اِٹھلاتی کسی چھمک چھلو کی طرح منہ اٹھائے چلی آرہی ہیںتو وہیں کچھ خبریں حافظ آباد میں بیٹوں کے ہاتھوں 30ہزارروپے کے عوض بیوہ ماں کے فروخت جیسے واقع سے متعلق بھی ہوتی ہیں کہ جِسے پڑھ کر اور سُن کر دل خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتاہے اگرچہ یہ بھی سچ ہے کہ اِن دنوں ملکی حالات واقعات کے حوالوں سے جو خبریں میڈیاکی زینت بن رہی ہیں اُن میں سے اکثر وبیشترخبروںپرہی ہمارے ملک میں لاحاصل بحث و مباحثوؓ ں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ چل نکلتاہے اور آج اِن ہی بے مقصد تبصروں اور تجزیوں کی وجہ سے نہ صرف ملک کے طول وارض میں بسنے والے ستررہ کرو ڑ عوام ہی تذذب اور اضطرب کا شکار ہیںبلکہ اِن خبروں اور مباحثوں کی وجہ ہی سے دنیاکے کونے کونے میں رہنے والا ہر وہ محب وطن پاکستانی بھی اپنے ملکی حالات اور حکومتی پینترے بازیوںسے کسی نہ کسی مخمصے کا شکار ضرور ہوکررہ گیاہے جو موجودہ حکومت کے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے اَب تک کئے گئے غیر سنجیدہ رویوں کی وجہ سے حکومت سے سخت پریشان ہے اوراِن ہی حالات کی وجہ سے جہاں ہمارا ملک سیاسی ، معاشی اور اقتصادی حالات و واقعات کے حوالوں سے ہونی اور اَنہونی خبروں کی زد میں ہے تو وہیں حافظ آباد میں بیٹوں کے ہاتھوں 30ہزارروپے میں بیوہ ماں کے فروخت کئے جانے والے ایک ایسے واقع کے حوالے سے ہے جو گزشتہ دنوں پیش آیا اورجو ملکی اخبارات میں خبروں کی زینت بناتواُس خبر نے اُن والدین کی نیک اولادوں کو ہلاکراوراِنہیںایک ایسے صدمے سے دوچارکر کے رکھ دیا ہے کہ جو اپنے والدین کی فرمانبردار اولادیں ہیں جو کبھی بھی اپنے والدین کو ایساکرنے کا گمان بھی نہیں کرسکتے ہیں۔جیسا بشیراں بی بی کے بیٹوںنے اِس کے ساتھ کیا ہے۔
میں یہاںحافظ آباد میں پیش آنے والے واقع کو بیان کرنے سے قبل اپنے قارئین کویہ بات ضرور یاد دلاناچاہتاہوں کہ آپ کو شائدیاد ہوگاکہ آج سے بارہ یا چودہ سال قبل جب پورے امریکا پر بل کلنٹن کی حکومت تھی اور اِن کی طوطی بولاکرتی تھی تو اُن ہی دنوںاُن کی حکومت کے ایک اہلکار نے پاکستان سے متعلق کچھ نازیباالفاظ یوں اداکئے تھے کہ ”پاکستانی تو ڈالر کے خاطر اپنی ماں کو بھی فروخت کردیتے ہیں“ اُس امریکی اہلکار کے اِس بیان پر ساری پاکستانی قوم سراپا احتجاج بن گئی تھی اور اِس نے اُس وقت تو اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیاتھا کیونکہ اُس امریکی حکومت کے اہلکار نے انتہائی دھٹائی سے ہم پاکستانیوں کو دنیا میں بدنام کرنے اور لالچی قرار دینے کے لئے اپنے اِس قسم کے بیان سے اُس وقت ہماری غلط اور یکدم غلط عکاسی کرنے کی بھی کوشش کی تھی اور بالآخرہم پاکستانیوں کی پُر زور مذمت پر اُس امریکی اہلکار کو اپنے اِس بیان پر معافی مانگنی پڑگئی تھی یوںاِس کے بعد معاملہ رفع دفع ہو گیاتھا۔
مگرآج حافظ آباد میں پیش آنے والے اِس واقع کو اگر دیکھیں تو افسوس کے ساتھ یہ ضرور کہناپڑرہا ہے کہ اُس وقت اُس امریکی حکومت کے اہلکار نے جو کہاتھا وہ حقیقت اور سچ مبنی تھا جس کو ہم بُرامان گئے تھے حالانکہ اُس نے جو کچھ بھی کہاتھا وہ اُس کا اپنا تجربہ اور مشاہدہ تھا جو آج خبر کے مطابق حافظ آباد میں پیش آنے والے واقع کے بعد حقیقت میں بدل کر سچ ثابت ہوگیاہے اور جس نے یقینا ہم پاکستانیوں کے سر کچھ نہیں تو اُن امریکیوں کے نزدیک ضرور شرم سے جھکادیئے ہیں کہ جو آج یہ برملا کہتے تو نہیں ہیں .....مگر سمجھتے ضرور ہیں کہ” پاکستانی تو ڈالر کے خاطر اپنی ماں کو بھی فروخت کردیتے ہیں“ .....
بہرکیف! خبر کے مطابق ”محلہ ساگرروڈحافظ آباد کی رہائشی بیوہ بشیراں بی بی جو 9بیٹوںاور بیٹیوں کی ماں ہے اِس کے خاوند کا 3/4سال قبل انتقال ہوگیاتھااِس کا کہناہے کہ اِس کے بڑے بیٹے انصراور غضنفر اکثر اوقات اِسے تشددکا نشانہ بنایاکرتے ہیںاور ساتھ ہی اِس کا یہ بھی کہناہے کہ گزشتہ دنوں اِس کے اِن ہی دونوں بدبخت بیٹوں نے اِسے ایک سنگدل شخص کے ہاتھوں 30ہزارروپے میں فروخت کردیااوراَب اِس کے یہ دونوں بیٹے انصر اور غضنفراِن پیسوں سے اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں اور وہ شخص جس کے ہاتھوں اِس کے بیٹوں نے اِسے فروخت کیا ہے وہ اِسے رسیوں سے جکڑکر اِس پر وحشیانہ تشدداور زبردستی کی بھی کوشش کرتاہے“ یہ وہ اندہولناک واقع ہے جس سے اُن ماو ¿ں کے بیٹوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچی جو اپنی ماو ¿ں کو اپنی کائنات مانتے ہیں اِن کے قدموں کو بوسہ دے کر اپنی دنیاوی اور آخروی کامیابیوں کا سامان کرتے نہیں تھکتے ہیںاپنی ماو ¿ں کی یہی فرمانبرداری اِن کا کُل اثاثہ ہے جس سے یہ اپنی دنیا بھی بنارہے ہیں تو اپنی آخرت بھی سنواررہے ہیں آج یہی بیٹے صدرمملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی سے یہ ضرور پُرزورمطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بشیراں بی بی کو فروخت کرنے والے اِس کے دونوں بیٹوں انصراور غضنفر کو عبرت ناک سزادیں تاکہ پھر کوئی ناخلف اولاد اپنی ماں کو کسی کے ہاتھوں فروخت کرنے کی جرا ¿ت نہ کرسکے ۔
اہلِ دانش کے نزدیک انسان کے لبوں سے اداہونے والے تمام الفاظ میں سب سے زیادہ خوبصورت لفظ ”ماں “ ہے اور حسین ترین تخاطب میری ماں ہے اور اِس میںکوئی شک نہیں کہ دنیا کی تما م خوشیاں ماں کہتے ہی مل جاتی ہے اور یہ بات میری آزمائی ہوئی ہے کہ جب کبھی میں پریشان ہوتاہوں یا کسی تکلیف میں مبتلاہوتاہوں تو لفظ ماں زبان سے اداکرتے ہی میرے مضطرب دل و دماغ کو جو تسکین ملتی ہے اور اِس تسکین و سکون سے جو خوشی نصیب ہوتی ہے میں اِسے لفظوں میں بھی بیان کرناچاہوں تو شائد اپنے اُن احساسات کا پوری طرح سے احاطہ نہ کرسکون جو مجھے اِس لفظ کے اداکرنے سے حاصل ہوتے ہیں گوکہ اِس لفظ ”ماں “ کی چاشنی اور شگفتگی کا ایک میرے نزدیک ہی کیا دنیا کے کسی بھی افضل و اعلی ٰ شخص کے پاس بھی کو ئی نعم البدل نہیں ہے کیوں کہ یہ لفظ ماں اپنے اندر راحت و سکوں کا ایک ایسامنبع لئے ہوئے ہے جس سے ہر پل اِسے محبت سے اداکرنے والے کے لئے دعاو ¿ں اور خوشیوں کا خزینہ جاری رہتاہے جِسے کوئی سمیٹنا بھی چاہےے تو وہ اِسے اپنے دامن میں سمیٹ نہیں سکتا لفظ ماں کی اہمیت اور اِس کے اِس مرتبے کی بلندی کا اندازہ اِس بات سے بھی
کرلیجئے! کہ تب ہی تو اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ” جنت ماں کے قدموں تلے ہے“۔ میں یہ سمجھتاہوں کہ اللہ نے ماں کی شکل میں ہمیں ایک ایسی ہستی عطاکردی ہے کہ جس کا احترام ہم سب پر لازم ہے جس کی اطاعت گزاری اور فرمانبرداری کے بدولت ہی میرے سرکار حضور پُرنور حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اولادوں کے لئے فرمادیاہے کہ” جنت ماں کے قدموں تلے ہے“۔تو پھر کیوںنہ اُن اولادوںکو چاہئے کہ جن کے والدین حیات ہیں وہ اپنے والدین کا احترام اور اِنکی خدمت کرناخود پر لازم کرلیں اور خاص طور پر وہ ماںجس کی زبان پر ہروقت اپنی اولاد کے لئے نیک دعائیںہی ہوتی ہیں اُس کا کبھی دل نہ دُکھائیں ۔اور اپنی ماں کے قدموں تلے اپنی جنت تلاش کریں۔
ماں باپ کی عظمت کوئی آج میں سے پوچھے میں اُسے بتلاو ¿ں کیوں کہ میں اِن دونوں سے محروم ہوچکاہوںاّباکا انتقال چودہ سال پہلے ہوگیاتھا اور اَب میری اماں کابھی انتقال 4جنوری 2011 بروزمنگل صبح 7:30بجے میرے سامنے ہوا ہے میں بتاو ¿ںکہ ماں کیا ہے.....؟؟
موت کی آغوش میںجب تھک کر سُوجاتی ہے ماں
تَب کہیں جاکر تھوڑاسکوں پاتی ہے ماں
روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاںتو دیکھئے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
پیارکہتے ہیں کِسے اور مامتاکیاچیز ہے؟
کوئی اِن بچوں سے پوچھے جن کی مرجاتی ہے ماں
زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دُھوپ میں
جب کوئی سایہ نہیں ملتاتو یادآتی ہے ماں
لوٹ کرواپس سفر سے جب بھی گھر آتے ہیں ہم
ڈال کربانہیںگلے میں سرکوسہلاتی ہے ماں
ایسالگتاہے جِسے آگئے فردوس میں
کھینچ کربانہوںمیں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں
اور یہ حقیقت ہے کہ جب سے میری پیاری اماں اور بہت ہی پیاری اماں کا انتقال ہواہے تو مجھے ایسا لگنے لگا ہے کہ جِسے میں کسی کُھلے میدان میں چلچلاتی دُھوپ میں تن تنہا کھڑاہوں میرے سر سے وہ گھنی چھائیں اٹھادی گئی ہے جس کے سائے میں ،میں کبھی سکون محسوس کیاکرتاتھااور اَب میںاِس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم کردیاگیاہوںاماں کی میں اُس آغوش کو اَب اپنی ساری زندگی تڑپتااور ترستارہوں گا جس میں آتے ہی مجھے راحت اور تسکین ملاکرتی تھی اور میں اپنے سارے غم بھلاکراِس کی آغوش میں رہنا اُن خوش نصیبوںمیں شامل کیاکرتاتھا جن اولادوں پر اللہ کا ماں کی صُورت میں دیاگیا ایک اَنمول تحفہ ہوتاہے ۔ میری یہ بات بھی آج گراہ سے باندھ لیں کہ مائیں تو سب کی ہی عظیم ہوتی ہیں مگر اِن کے غصے کو بھی پیار سمجھنا اولادوں کی عظمت میںاضافہ کردیتاہے اور جو ماں سے ناراض اور منہ پھرے رہتے ہیں وہ کسی اور کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کررہے ہوتے ہیںلہذاماںکے غصے کو بھی پیار سے دیکھنے میںہماری اپنی نجات اور فلاح ہے۔ میری اللہ رب العزت سے بس ہی دعاہے کہ اللہ بیوہ بشیراں بی بی کے بیٹوں کو اپنی ماں سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور بشیراں بی بی کوبھی اِنہیں معاف کرنے کی توفیق عطافرمائے تاکہ یہ اپنی بقیہ زندگی سُکھ اور چین سے گزار سکیںاور اِس کے ساتھ ہی میں اپنے آج کے کالم کا اختتام اپنی اِس التجاپر کروں گا کہ براہ کرم ہوسکے تو آپ( میرے پڑھنے والے) میری اماں کی روح کے اِیصالِ ثواب کے لئے تین بار اول و آخر درودشریف اور ایک بار سُورت فاتحہ اور تین بار سُورت اخلاص پڑھ کراِس کاثواب اِنہیں بخش دیجئے ۔


 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved