اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-03222777698

Email:-azamazimazam@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔2011-01-30

اٹھ اُمتِ مُسلّمہ ...اُٹھ... اَب یہ تیری غیرت کا مقام ہے
کالم ۔۔۔۔۔۔۔ محمداعظم عظیم اعظم
مسجدِاقصی ٰ کے قریب اسرائیلیوںنے متنازع سُرنگ مکمل کرلی
اِسرائیل کی ہٹ دھرمی اوراُمتِ مُسلّمہ کی معنی خیز خاموشی.....؟؟

آہ!آج اُمتِ مُسلّمہ سورة مائدہ کی ۲۸ ویں آیت جس کا ترجمہ یہ ہے کہ” تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ یہود اور مشرکین کو پاو ¿ گے“جس میںمیرے ربِ کائنات اللہ رب العزت نے واضح طور پراہلِ ایمان کو خبردار کرتے ہوئے بتادیاہے کہ یہود اور مشرکین کبھی بھی اہلِ ایمان کے اچھے دوست ثابت نہیں ہوسکتے مگراِس کے باوجودبھی اُمتِ مُسلّمہ خداجانے کیوںنہیں اَب تک اِس آیتِ قرآنی کے معنی و مفہوم کو سمجھ نہیںپارہی ہے....؟؟ جبکہ دوسری طرف عالم یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی مسلم اُمہ اپنے وقتی سیاسی اور اقتصادی فوائدکے حصول کے خاطر اُلٹا آنکھ بندکئے اِن ہی یہوداور مشرکین سے دوستانہ مراسم بڑھانے اور خیرسگالی جیسے رابطوں کوقائم کرنے کے لئے مصروفِ عمل دکھائی دیتی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ اِس کی یہی کوشش آج اِس کی مسلسل تنزلی اور پستی کاباعث بنی ہوئی ہے یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ اَب توکبھی کبھی مسلمانوں کی موجودہ اقتصادی ، سیاسی اور اخلاقی ابترحالتِ زار کو دیکھتے ہوئے بڑاافسوس ہوتاہے اور یہ کہناپڑتاہے کہ دنیامیں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ستاون کروڑ ہونے کے باوجود بھی یہ یہودیوں اور مشرکین سے مارکھائے جارہے ہیں مگر پھر بھی اِن کی آنکھ نہیں کُھلتی ہے کہ اَب سنبھل جائیںاور پستی اور اپنے رسوائی سے نکل کراِن دوست نمایہود اور مشرکین سے ڈٹ کر مقابلہ کریں جنہوں نے اِن کو ہر لحاظ سے تباہ وہ بربادکرکے رکھ دیا ہے ایسے میں ایک خیال یہ بھی آتا ہے کہ آخر مسلمانوں میں ایسی بھی کیاخامی پیداہوگئی ہے کہ یہ مٹھی بھر یہودیوں سے اپنا استحصال کراکربھی خاموش بیٹھے ہوئے ہیںآج اِسی اُمتِ مُسلّمہ میںسے وہ مسلمان کہاں چلے گئے اور اِن کی وہ غیرت کہاں چلی گئی جواپنا سب کچھ لُٹاکر بھی یہود اور مشرکین سے مصالحت کو تیار نہیں رہے اور جو اپنا ہر بڑے سے بڑانقصان برداشت کرکے بھی اپنی آخری سانسوں تک احکام شریعت پر قائم رہے اور دنیا میں امر ہوگئے اور آج ایک ہم ہیں کہ یہوداور مشرکین کے ہی چھوڑے ہوئے شوشہ روشن خیالی کی بنیادپراِنہیں گلے لگانے کواپنا کوئی عظیم طُرّہ قرار دے رہے ہیں۔اور فخریہ طور پر یہودیوں اور مشرکین سے اپنے تعلقات کے گُن گاتے نہیں تھک رہے ہیں۔ اِس کوئی شک نہیںکہ ایساکرنے میں سراسر ہماراہی گھاٹہ ہے۔جبکہ ہم یہ بات بھی آج اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یہود اور مشرکین ہی مسلم ممالک کی معیشت کے بڑے دُشمن ہیں اور اِس حقیقت سے بھی کوئی مسلمان قطعاََ انکار نہیں کرسکتاکہ مسلم ممالک میں آج جتنے بھی معاشی و اقتصادی اور سیاسی بحران پیداہورہے ہیں اِن سب کے پسِ پردہ اِن ہی یہودیوںاور مشرکین کی ہی کارستانیاں کارفرماہیں اور یہی مسلم اُمہ کو اپنی خفیہ و اعلانیہ مکروفریب اور سازشوں سے تباہی کے دہانے تک پہنچارہے ہیں اہلِ دانش کا خیال یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی فتنہ دجال پیداہوگا تو وہ بھی اِن ہی یہودیوں اور مشرکین میں سے ہوگا۔
جبکہ اُدھر دنیابھر میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئے آبادی اور اعدادوشمار کے لئے امریکی تھک ٹینک، پیوفورم آن رلیجن اینڈ پبلک لائف اور محقیقین کے مطابق جو ایک تازہ ترین رپورٹ سامنے آئی ہے اِس میں بتایاگیاہے کہ دنیاکا ہر چوتھاشخص مسلمان ہے یوں مسلمانوںکی اِس قدر تیزی سے بڑھتی ہوئی تعدادیہود و مشرکین کے نزدیک جہاںباعث حیرت ہے تو وہیں یہ رپورٹ اِن کے لئے کے سخت تشویش اور دردِ سر کا بھی باعث بنی ہوئی ہے جس سے متعلق خوداِن لوگوں کا یہ کہناہے کہ اِس رپورٹ کی تیاری میںمردم شماری رپورٹس، ڈیموگرافک اسٹیڈیزاور دنیابھر کی آبادی کے عام سروے جسیے پندرہ سو یا اِس بھی زائدماخذسے بھرپوراستفادہ کیا گیاجس کے بعد بھی اِس رپورٹ کی تیاری میں لگ بھگ کوئی تین برس کا عرصہ لگاہے اِس لحاظ سے اِن لوگوں کا یہ بھی کہناہے کہ اِس دوران کم و بیش دوسو بتیس ممالک اور علاقوںسے مردم شماری کی گئی اِس کی روشنی میں مسلمانوںکی آبادی اور اعدادوشمار کے حوالوں سے جو فیگرز سامنے آئی ہیں اِس کے مطابق اِس وقت عیسائیت کے بعد مذہبی اعتبار سے مسلمان جو ایک اللہ، ایک رسولﷺاور ایک قرآن پر ایمان رکھتے ہیںوہ دنیابھر میںایک ارب ستاون کروڑ کی تعداد کے ساتھ دوسرے نمبرپر ہیں جن کی موجودہ تعداد کا ساٹھ فیصد حصہ بّرِاعظم ایشیامیں ہے اوراِن کی کُل آبادی کی تعداد کا 20فیصدمشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں رہتاہے جبکہ اِسی طرح اعدادوشمار کے مطابق اِس وقت جرمنی میںلبنان سے بھی زیادہ مسلمان بستے ہیںاور روس سے متعلق اِس رپورٹ میںیہ بتایاگیا ہے کہ روس جیسے ملک کی آبادی میں بھی مسلمان بڑ ی تعداد میںہیں یہاں مسلمانوں کی تعداد لیبیااور ایران کے مسلمانوں کی مجموعی تعداد سے بھی کہیںزیادہ ہے۔
اِسی طرح دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوںکی آبادی اور اعدادوشمار جمع کرنے والے ایک انتہائی سنیئر محقیق مسٹر برائن گرم کا یہ کہنا ہے کہ آج نہ صرف اِن کے ہی نزدیک بلکہ دنیاکے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لئے بھی یقینا اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کا ہونا حیرانگی اور سخت تشویش کا باعث ہے اِن کا کہناہے کہ” مسلمانوں کی کُل تعداد میرے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے جو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے اُنہوں نے دنیااور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو آگاہ کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ آج دنیا کے جن ممالک میں زیادہ مسلمان آباد ہیںاُن میں انڈونیشیا، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور مصر شامل ہیںاِن کی سیاسی، مذہبی، معاشی و اقتصادی اور اخلاقی معمولات زندگی پر کڑی نظررکھنے کی ضرورت ہے یہاں میراخیال ہے کہ اِس کے بعد دنیابھر کے مسلمانوںکو ہر لحاظ سے خود کو سنبھالنا ہوگا تاکہ یہودومشرکین کی کس نئی ساز ش کا اثر اِن پر نہ ہونے پائے جبکہ اُدھر اِس حوالے سے ایک حالیہ شائع ہونے والی رپورٹ میں واضح طورپر یہ بتایاگیاہے کہ ایتھوپیااور افغانستان میں مسلمانوںکی تعداد قریباََبرابرہے جس میں یہ بھی تحریر ہے کہ 3سو ملین مسلمان اِن ممالک میںرہتے ہیں جہاں اسلام اکثریتی مذہب نہیں ہے پرنٹس یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر امانی جمال نے ایک موقع پر دنیا پر یہ واضح کیا ہے کہ ”یہ خیال کہ مسلمان عرب ہیں یا عرب ہی مسلمان ہیں یہ یکدم غلط مفروضہ ہے “۔اور اِس کے ساتھ ہی اِس رپورٹ میںدنیا کو یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیامیں مسلمانوں کی کُل آبادی سے 87 سے90فیصدمسلمان سُنی العقیدہ ہیں جبکہ صرف 10سے 13فیصد شیعہ العقیدہ مسلمان ہیں جن میں سے بھی زیادہ تر ایران، عراق، پاکستان اور بھارت میں رہائش پذیرہیں جبکہ بّرِاعظم یورپ میں تین کروڑ اڑتیس لاکھ مسلمان آباد ہیںجو کہ یورپ کی کُل آبادی کا صرف 5فیصد ہیں جبکہ اِسی طرح برّاعظم امریکہ میں رہنے والے 46لاکھ مسلمانوں میں نصف سے زائد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں رہتے ہیں تاہم اِن سے متعلق یہ خیال کیا جاتاہے کہ وہ امریکہ کی آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔اِن اعدادوشمار کی روشنی میں اگر دیکھاجائے تو یہ کہنا دُرست ہوگاکہ دنیا میں مسلمانوں نے کسی اور میدان میں ترقی کی ہویانہ کی ہومگرتیزی سے اپنی آبادی بڑھانے کا جو ریکارڈ قائم کیاہے وہ نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ لائق تحسین وافتخار بھی ہے کہ آج یہود و مشرکین کو اِن کی بڑھتی ہوئی آبادی سے ہی پریشانی لاحق ہوگئی ہے اور اِن پر لرزہ طاری ہے مگر اَب بھی ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مسلمان اپنی آبادی بڑھانے کے ساتھ ساتھ یہودو مشرکین سے اپنا وہ تعلیمی میراث اور ورثہ بھی چھین لیں جس کو اٹھا کر یہ لے گئے تھے اور جس سے اِنہوں نے مسلمانوں کو محروم رکھ کر اِن کو اپنا محکوم بنارکھاہے ۔
بہرحال! یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دنیا میں اتنی بڑی تعداد رکھنے کے باوجود بھی مسلمان مٹھی بھر اسرائیلی یہودیوںاور مشرکین کے غاصبانہ مظالم سے اپنے فلسطینی مسلمان بھائیوں کو نہیں چھڑاسکے ہیںحدتو یہ ہے کہ فلسطینی عوام غاصب صہونی ریاست اسرائیل کے ناپاک وجود کے قیام 14مئی 1948کے دن یعنی” یوم نکبہ“ کو ایک بہت بڑی تباہی قرار دیتے ہیں کیونکہ تب سے ہی صہونی ریاست اسرائیل کے کمبختوںنے ہمارے فلسطینی مسلمان بھائیوں کی زندگی ا جیرن کررکھی ہے اور آج دنیا بھر کے مسلمان اِن یہودیوں اور مشرکین کے چُنگل سے اپنے مظلوم فلسطینی مسلمان بھائیوں کی جان بخشی کے لئے کچھ کرنے سے بھی قاصر ہیں جبکہ نہ صرف فلسطینیوں کے لئے بلکہ اُمتِ مسلّمہ کے لئے بھی یہ ایک فکرانگیز خبر ہے کہ”اسرائیلی ماہرین آثارِ قدیمہ نے مسجداقصیٰ کے قریب اُس متنازعہ سُرنگ کی تعمیرمکمل کرلی ہے جس کی تعمیر ایک عرصہ سے جاری تھی جو فلسطینیوں سمیت ساری دنیا کے مسلمانوں کے نزدیک خلاف ِ ضابطہ تھی جس کی تعمیر سے متعلق گزشتہ دنوں اسرائیلی ماہرین آثارِ قدیمہ اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اسرائیلی اینٹکوٹیزاٹھارٹی کے ترجمان کے حوالے سے کہاہے کہ مسجداقصیٰ کے صحن کے جنوب اور پرانے شہر کی مغربی دیوارسے شروع ہونے والی 600میٹر طویل سُرنگ پر تعمیراتی کام اَب مکمل ہوگیاہے یہ سُرنگ دوسرے قمپل پیرڈ میں شہر کا سیلابی پانی نکالنے کے لئے کثیررقم سے کھودی گئی تھی تاہم اَب اِس سے گندو غلاظت صاف کرکے دوبارہ استعمال کے قابل بنادیاگیاہے جبکہ اِس متنازع سُرنگ کی تعمیر کے خلاف فلسطینیوں نے اپنا احتجاج جاری رکھاہوا ہے اِن کا واضح مو ¿قف یہ ہے کہ اِس متنازع سُرنگ کی تعمیر سے مسجدِ اقصیٰ کی بنیادیں کمزور ہوجائیںگی جس سے نہ صرف مسجد اقصیٰ کو دشدید نقصان پہنچ سکتاہے بلکہ اِس سے گزرنے والے سیلابی پانی سے فلسطینیوں کے علاقوںکو بھی ڈوب جانے اور جانی و مالی نقصان کا اندیشہ ہے اِس ساری صُورتِ حال میں اَب ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مسلم اُمہّ کسی مصالحت کا شکار ہوئے بغیر اپنے باہمی اتحاد اور اتفاق سے مسجداقصیٰ کے قریب سے 600میٹر طویل اِس سُرنگ کو جو اسرائیلی آبادی سے سیلابی پانی گزارنے کے صرف اِس نیت سے بنائی گئی ہے کہ اِس کے استعمال سے مسجدِ اقصیٰ اور فلسطینی مسلمان بھائیوں کی آبادی کو نقصان پہنچے.... تواَب ضرورت اِس اَمر کی ہے اُمتِ مُسلّمہ اِس کے استعمال سے قبل اِسے روکنے کے لئے دنیا بھر میں فلسطینیوں سے اظہاریکجہتی کرنے اور مسجدِ اقصیٰ کو نقصان سے بچانے کے لئے اسرائیل کے خلاف تحریکیں شروع کرے اور اسرائیلیوں سمیت اِس کے سرپرستوں بالخصوص امریکااوردنیابھر میںفسادبرپاکرنے کے لئے اسرائیلیوں کے پالنے والے ادادے اقوام متحدہ پربھی یہ بات زور دے کر کہئے کہ وہ اِس سُرنگ کو بندکرے اور اسرائیلی یہودیوں سے فلسطینیوں کی آبادی خالی کرائے تاکہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے مظالم سے نجات ملے جس نے نصف صدی سے بھی زائد عرصہ سے فلسطینی مسلمانوں کی زندگیاں اپنے انسانیت سُوزمظالم سے اجیران بنارکھی ہیں۔
وسوسے شیطان نے بخشے دلِ نادان کو
جنگ کی ڈالی بنابابیل سے قابیل نے
مِلّت اسلام کو اتنازیاں پہنچانہ تھا
جتناپہنچایاہے نقصاں قومِ اِسرائیل نے
یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کی ایک انتہائی ناپاک اور زمین پر فسادبرپاکرنے والی وہ صیہونی ریاست ہے جو پاک اور مقدس سرزمین فلسطین پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہے جس کی اِس جیسی اور بہت سی گھناو ¿نی حرکتوں کی وجہ سے نہ صرف ہمارے ملک پاکستان ہی نے نہیں بلکہ دنیاکے دوسرے ممالک نے بھی اَب تک اِسے تسلیم نہیں کیا ہے اور اِسی کے ساتھ ہی میرااپنے فلسطینی بھائیوں کی جرا ¿ت اور بہادری پرسلام اور اُمت ِ مسلّم سے یہ کہنا ہے کہ اُٹھ اُمتِ مُسلّمہ اُٹھ یہ اَب تیری غیرت کا مقام ہے دیکھ یہ تونے یہوداور مشرکین سے دوستیاں بڑھا کر اپنے فلسطینی بھائیوں اور مسجدِ اقصی ٰ کو نقصان پہنچانے کا سامان پیداکررکھاہے آخر میں اپنے فسلطینی بھائیوں اور اُمتِ مُسلّمہ کی غیرت کو جگانے کے لئے یہ شعر حاضر خدمت ہے۔
پوچھتے ہیں یہ فلسطیں کے مسلماں یارب
ہم غریبوں کے لئے کوئی مکاں ہے کہ نہیں
عرصہ دہر میں شداد بھی فرعون بھی ہیں
کوئی موسیٰ بھی خداوندِ جہاں ہے کہ نہیں
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved