اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-03222777698

Email:-azamazimazam@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-05-04

اُسامہ کا قصہ تمام ہوا
کالم ۔۔۔۔۔۔۔ محمداعظم عظیم اعظم
اور،ڈرا،سہماامریکا خوشی سے کِھل اُٹھا...؟
اُسامہ کی کہانی ختم ، پیسہ ہضم......؟؟
آج کا علی بابااُسامہ اور40 منٹ کی کارروائی اور 40 امریکی فوجی...
دنیابتائے اُسامہ کو کیا لکھاجائے ہلاک یا شہید کیا ....؟

موجودہ حالات میں ڈرے ، سہمے امریکیوں کے ذہنوں میں ایک عشرے سے اپنی دہشت کی کہانی جنم دینے والے اُسامہ بن لادن کو امریکی فورسزنے اپنی ایک مختصر سی کارروائی کے بعد دہشت کے علامتی کردار کاخاتمہ کرکے سارے امریکیوں کو خوش کردیاہے اور جیسے ہی امریکیوں کے لئے دہشت کے علامت بننے والے اُسامہ بن لادن کی کہانی ختم ہونے کی اطلاعات وائٹ ہاو ¿س سے ہوتی ہوئی امریکاکے گلی ، کوچوں،بازاروںاور چوراہوں تک پہنچی توسارا امریکا خوشی سے کِھل اٹھااور آج بھی سُپرپاور امریکا ہر ڈراسہماشہری اپنی اِس خوشی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرنے میں مصروف ہے۔
جبکہ آج میرے ملک کے بیشتر نجی ٹی وی چینلز کو یہ طرہ حاصل ہے کہ دہشت گرد اعظم امریکا کے نامزد کردہ دنیاکے سب سے بڑے مسلم دہشت گرداُسامہ بن لادن کی کہانی ختم ہونے کی نیوز اِس نے بریک کی ہے اوریوں وہ یہ بتانے اور جتانے میں لگاپڑاہے کہ اِس نجی ٹی وی چینل کا نیٹ ورک سب سے زیادہ فعل اور متحرک ہے چلو یہاںہم نجی ٹی وی چینلز کی اِس بحث میںجائے بغیر یہ مان لیتے ہیں کہ یہ اہم خبر سب سے پہلے فلاں ٹی وی چینل نے ہی دی تھی تو اِس پر کسی دوسرے کو ناراض نہیں ہوناچاہئے کیوںکہ خبر جو بھی اہم ہوتی ہے اُسے جلد ازجلد عوام الناس میں پہنچادینا ہی ایک قابلِ تعریف اور احسن کام ہے اُسے کوئی بھی پہنچانے کاکام کس طرح بھی کرے مگر اِس میں یہ کیا امتیاز کرناکہ یہ خبر سب سے پہلے کس نے دی اور کس نے نہیں یہ کوئی ٹھیک عمل نہیں ہے کیوں کہ یہ سب ہی جانتے ہیں کہ کس ٹی وی چینل کا کیا مقام ہے اور ہماراکونسا ٹی وی چینل اپنی کامیابیوں کی کس منزل پر کس اسٹیج پر کھڑاہے .....؟؟
بہر کیف !افغان روس جنگ کا ہیرواور امریکاکا سابق عزیر ترین دوست اُسامہ بن لادن جو ایک امیر ترین سعودی کا بیٹاتھااِس کے یہاں دولت کی ریل پیل ایسی تھی جیسے یہ کوئی معمولی اور حقیر سی شے ہو مگر اِس کے باوجود بھی اِس عرب باشندے نے اُمت مسلمہ کی بقاءو سا لمیت کی راہ صرف جہاد ہی میں تلاش کی اور یہ اپنی ساری عیش وطرب کی زندگی کو ایک طرف رکھ کر افغان روس جنگ میں اپنے تن من دھن اوراپنی جان اور ساتھیوں کے ساتھ گود پڑااور اپنے عزم مصمم سے روسیوں کو افغانستان میں شکست سے دوچار کرکے اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کی اُس منزل کو پہنچ گیاجہاں اِسے شدت سے یہ احساس ہونے لگاکہ اِس کی ضرورت صرف یہیں ختم نہیں ہوگی بلکہ یہ اَب ہر اُس مسلم ملک کے لئے اوربڑھ گئی ہے جہاں روس اور امریکاجیسی سُپر طاقتیں اپنی جارحیت سے اُس کا وجود ختم کرناچاہتی ہیں یوں اِس کے اِسی حوصلے اور جرات مندی نے اِسے ایک طرف تو اُمت مسلمہ کا ہیرو بنادیاتو وہیں اِس کے اِسی عزم و ہمت کو امریکاسمیت اور دوسری بڑی طاقتیں اپنے لئے ایک بڑاخطر ہ تصور لگیں تھیں۔
اور یوں بالآخرجب امریکا میں نائن الیون کا سانحہ پیش آیا تو امریکا اور اِس جیسے بہت سے اِس کے ہم نوالہ، ہم پیالہ دوستوں اور حواریوں نے اِس واقع کی ساری ذمہ داری اُسامہ بن لادن کے سر تھونپ دی حالانکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے بڑی حد تک خود امریکی بھی واقف ہیں کہ طالبان اور القاعدہ پر ورلڈٹریڈ سینٹر پر حملے میں ملوث ہونے کے کوئی ایک بھی ٹھوس شواہد آج تک منظرِعام پر نہیں آسکے ہیں مگر اِس کے باوجود بھی اُس وقت جو بات کہہ دی گئی اُسی مفروضے پر امریکی اب تک قائم ہیں اوریوںاِس واقع کے بعد روپوش القاعدہ کا سربراہ اُسامہ بن لادن امریکا کی بقاءو سا لمیت کے لئے سب سے بڑاخطر بن چکاتھا جسے زندہ یا مردہ کسی بھی حال میں ڈھونڈ نکالنے والے کے لئے امریکانے اِس کی قیمت ڈھائی کروڑ ڈالرمقررکی تھی اور اِس کے علاوہ اور بہت سے انعامات کا بھی دینے کااعلان کررکھاتھا۔
اور بالآخر القاعدہ کا سربراہ اُسامہ بن لادن ماضی کے اپنے دوست اور موجودہ حالات میں اپنے سے زیادہ انسانیت کے طاقتور اور شاطرترین دشمن امریکاکے ہاتھوں گزشتہ دنوں ایبٹ آباد کے ایک نواحی علاقے بلال ٹاو ¿ن میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب امریکی اسپیشل فورسزکے مختصر ترین صرف 40منٹ کی کاررائی کے دوران جن سے متعلق ابتدائی اطلاعات یہ ہیں کہ اِس آپریشن میں 40امریکی فوجیوں نے حصہ لیااوراِس میں سانحہ نائن الیون کے ذمہ دار اور کئی انسانی جانوں کو موت کی آغوش میں دھکیلنے والے امریکا کو انتہائی مطلوب عرب دہشت گرد اُسامہ بن لادن ((یعنی آج کے علی بابا اُسامہ بن لادن کو 40منٹ کی کارروائی امں40امریکی فوجیوں نے اِس )کے سر پر گولی مار کر اُسے زندگی اور خود کو اِس کے ڈر اور خوف میں ہردم مبتلارہنے کا قصہ تمام کردیا۔
اگر چہ اِس کارروائی میںاُسامہ بن لادن کے بیٹے اور تین ساتھیوں کے بھی مرنے اور اِن کی دوبیوں اور چھ بچوں سمیت بارہ افرادکو گرفتارکئے جانے کی بھی متضاد انفارمیشنز ہیں جن کے بارے میں ابھی تک میڈیا کو ٹھیک سے کچھ نہیں بتایاجارہاہے اور نہ ہی اُسامہ بن لادن کی لاش میڈیاکے سامنے لائی جارہی ہے اور ہمارے ملکی اور عالمی میڈیاپر وہی کچھ دِکھایااور سمجھایا جارہاہے جو اطلاعات امریکا فراہم کررہاہے۔




اگرچہ یہاں سب سے زیادہ غورطلب ایک پہلویہ بھی ہے کہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کی تصدیق امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام (کہنے کو تو مسلمان)صدر مسٹر بارک اوباما نے بڑے پُرتباگ اور اپنے خوشی سے تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ کردی ہے کہ اُسامہ جس نے اُن کے پیش رو(سابق صدر بش )سمیت اُن کی بھی ناک میں دم کررکھاتھا وہ اَب اِس دنیا میں نہیں رہاا ور اِس طرح مسٹر اُباما نے اُسامہ کی دہشت سے ڈرے سہمے اپنے شہریوں سے کہاہے کہ”اُسامہ کی اپنی بیوبیوں، بیٹے اور اپنے انفارمر سمیت کئی دوسرے افراد کی ہلاکت سے دنیا بالخصوص امریکا محفوظ ہوگیاہے اورجو امریکا کے لئے ایک عظیم فتح ہے اِن کا اپنے شہریوں اور دنیا سے یہ کہناہے کہ اُسامہ کے مرنے سے ہم نے نائن الیون کے مرنے والوں کا بدلہ لے کر انصاف کے وہ تمام تقاضے اور ذمہ داری بھی پوری کردی ہے جو مرنے والوں نے اِن کے کاندھوں پر ڈال دی تھی جبکہ اُبامااور ہلیری کااپنے خوفزدہ عوام اور دنیاسے یہ بھی کہناہے کہ چوںکے اُسامہ کے نزدیک کبھی بھی اِنسانی زندگیاں اہمیت کی حامل نہیں تھیں اِس لئے اُسے اور اُس کے ساتھیوں کا خاتمہ کردیناامریکاکے لئے ضروری تھاجوہم نے اپنی انتہائی چالاکی اور ہوشیاری سے ایک بڑے عرصے بعد صبروتحمل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنے اِس مشن کو کامیابی سے ہمکنار کردیاہے۔
ایک طرف جب میں یہ دیکھتاہوں کہ روس افغان جنگ میں امریکا کااچھادوست اور ساتھی کہلانے والا اُسامہ ہے تو دوسری طرف نائن الیون کے واقع کے بعد امریکا کا سب سے زیادہ خطرناک دشمن یہی اُسامہ نظر آتاہے آج چونکہ اُسامہ بن لادن کی کہانی ختم اور پیسہ ہضم ہوچکاہے تومیں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اِس صورت حال کے بعد دنیاکے بہت سے غیر جانبدار تجزیہ نگار اُسامہ اِس کی موت کے بعد اِسے مرحوم لکھیں، ہلاک یا شہید کیالکھیں .....؟ جس سے اِن کے تجزیئے پڑھنے اور سُننے والوں کو بہتر محسوس ہو اور اَب یہ فیصلہ آپ خود کریں کہ اُسامہ بن لادن کو اِس کی موت کے بعد کسی امریکی دباو ¿ میں آئے بغیر اِس کے نام سے پہلے اور بعد میںکیا لکھے.....؟؟9/11 کے بعدسے اَب تک چارمرتبہ موت سے بچ جانے والے امریکاکے نزدیک اِس کے سب سے بڑے دشمن اُسامہ بن لادن جنہیں یہ یقین تھا کہ ایک ناںایک دن اِن کا طاقتورترین اور شاطر دشمن امریکا اِن کی جان لے لے گا مگر اِس باوجود بھی وہ اپنے عزم و ہمت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور اِس طرح جو2مئی 2011 کو اتوار اور پیر کی درمیانی شب پانچویں مرتب موت سے نہ بچ سکے اور اپنے وعدے اور اُس عزم کی تکمیل پوری کرگئے جو اِن کے سینے میں برسوں سے دفن تھاکہ ”وہ اپنے دشمن کو کبھی زندہ گرفتاری نہیں دیں گے دشمن کے ہاتھ اِن کے گربیان تک اِن کی موت کی صُورت میں ہی بڑھ سکتے ہیں “اوریوں اُسامہ نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا....جو یہ اکثر کیاکرتے تھے۔اُدھر اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد خود امریکی صدر مسٹر بارک اُباما اور امریکی فورسز کے سربراہان کے پاکستان کے تعاون سے متعلق جو متضاد بیانات سامنے آرہے ہیں اَنہوںنے اَب تک امریکی جنگ میں فرنٹ لائن کے کردار اداکرنے والے پاکستان کی پوزیشن پر سوالیہ نشان لگادیاہے....ایک طرف امریکی صدر اُباما یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکا کی اِس عظیم فتح اور کامیابی میں پاکستان کا اہم کردار رہا ہے اورپاکستان کے تعاون سے ہی ہم اُسامہ بن لادن کے ٹھکانے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور اُسامہ کو مارکر اپنے مرنے والوں سے ہم نے انصاف کیاہے اِس حوالے سے پاکستان کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے جبکہ دوسری طرف امریکی سربراہ جان برتن نے وائٹ ہاو ¿س میں بریفنگ کے دوران اُسامہ بن لادن کے خلاف کی جانے والی اِس مختصر مگر کامیابی کا سہراامریکی فورسز سر لیتے ہوئے پاکستان کے تعاون کی سخت ترین الفاظ میںاپنی تردیدمیںبلاجھجھک کہاہے کہ ”اُسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی سے پاکستان لاعلم تھااور پاکستان کو ہم نے اُس وقت اطلاع دی جب امریکی فورسزاپنا مشن ” دی کلڈ آف گریڈ اُسامہ “ مکمل کرنے کے بعد پاکستانی فضائی حدود سے باہرآچکی تھیں ۔
اِس حوالے سے یہاں میں یہ سمجھتاہوں کہ یہ بحث فضول اور بے مقصد ہے کہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت میں پاکستان نے کیا کیااور کیا نہیں ...یہاںمیرے خیال سے یہ ایک علیحدہ بحث سے جو پاکستان اور امریکا سمیت دنیا بھر میں ایک بڑے عرصے تک جاری رہے گی مگریہاںاِن تمام باتوں سے بھی زیادہ جو سب سے زیادہ ایک اہم سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاامریکی ایک اُسامہ بن لادن سے اتنے ڈرے ،سہمے تھے کہ اُنہوں نے اِس کی ہلاکت کے بعد اِس کی لاش کو نہ تو میڈیا کے سامنے لانے کی بھی جرات کی اور نہ ہی اِسے کسی مسلم ملک کے حوالے کرنے کا کوئی پروگرام ترتیب دیا یہاں میراخیال یہ ہے کہ غالباََ ڈرے ، سہمے امریکیوں نے خود ہی سے یہ جواز پیش کیاکہ اُسامہ کی لاش کو کوئی بھی مسلم ملک اپنے دیادفن کرنے کو تیار نہیںہے اِس لئے امریکی حکام نے اُسامہ کا مزار بننے سے روکنے کے لئے اُسے سمندر بردکردیا۔ اِس موقع پر مجھے یہ کہنے دیجئے کہ یعنی امریکی اُسامہ بن لادن سے اِس قدر خوفزدہ ہیں کہ اُنہوں نے یہ سوچاکہ اگر اُسامہ بن لادن کا مزار کسی بھی ملک کی زمین پر بنادیاگیا تو پھر آئندہ اِس کے چاہنے والے اِس کے مزار کی دن رات زیارت کریں گے اور اِس کے مزار کی زیارت کے بعدبھی وہ اپنے اندر پہلے سے کہیں زیادہ جذبہ جہاد اور امریکا کے خلاف نفر ت کو متحرک کرتے ر ہیں گے تویوں ڈرے ، سہمے امریکیوں نے اُسامہ کو سمندر برد کرکے اپنی تنگ ذہنی اور محدود سوچ رکھنے کے باعث ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُسامہ بن لادن کے وجود اور اِس کے خوف سے اپنی جانیں چھڑانے کا ایک اچھا بہانہ تلاش کیاہے جس میں وہ اپنی تسلی کے خاطر کامیاب تو ہوگئے مگراُسامہ سے اپنے ڈراور اپنی اِس نفرت سے یہ ایک ایسی انتقام کی آگ دنیا میں بھرگئے ہیں کہ جس سے شائد جھٹکارہ حاصل کرنا امریکا کے لئے بہت مشکل ہوجائے۔جب کہ امریکیوں کی اِس حرکت پر مسلم اُمہ کی ایک شہر ہ آفاق اسلامی درسگاہ جامعتہ الازہر کے ترجمان اور ممتاز سعودی عالم دین ریاض الشریعہ کالج کے سابق ڈین ڈاکٹر سعودالفتیسان نے اپنے ایک بیان میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہاہے کہ اسلام نے کسی مسلمان کی سمندر میں تدفین کی مخالفت کی ہے اور اِس طرح الازہر کے شیخ احمدالطیب کے مشیر محمد عغب نے بھی اُسامہ بن لادن کی میت کو سمندر میں پھینکنے کے حوالے سے کہاہے کہ اسلام اِس کے سخت خلاف ہے اُنہوںنے کہاکہ اگر کسی کو قتل کیاگیاہویاوہ اپنی موت سے مرے اُس کی میت کا ہر قیمت پر احترام کیا جاناچاہئے اِس حوالے سے مسلم غیر مسلم یا عیسائی کی کوئی تفریق نہیں ۔بہرحال! یہاں میرایہ کہناہے کہ اُسامہ بن لادن کو اگر امریکیوں نے واقعی مارکر سمندر بردکردیاہے تو اِنہیں ایسانہیں کرناچاہئے تھا کیونکہ یہ کسی بھی لحاظ سے کسی کو بھی زیب نہیں دیتاہے کہ کوئی کسی پر اتنا ظلم کرے کہ وہ مر جائے تو مرنے والے کو ظالم اِس کے دین ودھرم کے مطابق تدفین کے حق سے بھی محروم کردے یہ کہاںکا انصاف ہے اور یہ کیسی ظالم کی دادی گیری ہے جسے انسانیت ہر دور میں براتصورکرتی رہے گی۔اگرچہ آج امریکا اُسامہ بن لادن کو مارکر خوشیاں تو منارہاہے مگر وہ یہ بھی تو سوچے وہ ایک طرف تو دنیا میں امن کاعلمبردار بناپھرتاہے اور دوسری طرف اُسامہ بن لادن کو سمندر بردکرنے والی اپنی جارحیت سے دنیاکے سامنے اپناایک ایساروپ سامنے لایا ہے کہ جس سے انسانیت تھرااٹھی ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اُسامہ بن لادن کو سمندر بردکرکے امریکا دنیاکے سامنے کیا ثابت کرناچاہتاہے....؟؟
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved