اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-03222777698

Email:-azamazimazam@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-07-12

حکومت شہرقائد میں قیام امن کے لئے کیاواقعی سنجیدہ ہے..توپھرکیوں نہیں.....؟؟
کالم:- محمداعظم عظیم اعظم
جب حکمران اور اپوزیشن افہام و تفہیم اور صبروبرداشت کا دامن چھوڑ دیں تو.....کیایہی کچھ ہوتاہے جو ہورہاہے؟؟
ملک کو سنگین بحرانوںاور قرضوں سے نکالنے کے لئے بھی کوئی گرینڈالائنس تشکیل دیاجائے....؟؟؟
جیسے ہی قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو شہر میں امن وامان قائم کرنے اور شہر کو شرپسندوں سے پاک کرنے کے لئے اضافی اختیارات کے ساتھ ذمہ داری سونپی گئی تویوں ہی آدھے گھنٹے کے اندر اندر شہرکراچی میںایک ہفتے سے جاری پرتشدد وارداتوں کے ذریعے کھیلی جانے والی خون کی ہولی کا سلسلہ تھم گیاتھا اور اِس کے بعد ایسامحسوس کیاجانے لگاتھاکہ اَب شائد حکومتی فیصلوں اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے سامنے شرپسند دوبارہ سر نہیں اٹھاسکیں گے..... مگر دوسری جانب یہ انتہائی حوصلہ شکن اور افسوس ناک امررہاکہ ابھی شہر کے حالات میں کچھ بہتری آنی شروع ہی ہوئی تھی کہ اتواراور پیر کی درمیانی شب شرپسندوں نے اِس مرتبہ اورنگی ٹاو ¿ن یا کٹی پہاڑی نہیں بلکہ اپنی پُرتشدد کارروائیوں کا رخ لیاری، کھارادر، لی مارکیٹ، کھڈہ مارکیٹ ،اولڈ سٹی اور ٹاور سمیت اِس کے اطراف کے علاقوں کی جانب موڑلیاجس سے علاقہ میدان جنگ بن گیاآہستہ آہستہ فائرنگ کا سلسلہ ایم اے جناح روڈتک پھیل گیااور یہاں شرپسندوں نے اپنی شرپسند انہ اور گھناو ¿نی کارروائیاں کرکے چار کے قریب افراد کو ہلاک اور کئی کو زخمی کرکے شہر کا امن تہس نہس کردیاجبکہ اِن سطورکے رقم کرنے تک مذکورہ علاقوں میں جدیداسلحے سے شدیدفائرنگ کا سلسلہ جاری تھافائرنگ کی وجہ سے مذکورہ علاقوں میں شدید خوف وہراس پھیل گیااور علاقہ مکین گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے اوراِسی طرح مذکورہ علاقوں میں شدید کشیدہ صورتحال کے پیداہونے جانے کے باعث سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ بھی غائب ہوگیایوںسفری سہولت کی عدم دستیابی کی وجہ سے شہریوں کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں شدیدمشکلات اوردشواریوں کا سامناکرنا پڑا اور اِس طرح شہرکراچی میں ایک بار پھرسے زندگی مفلوج ہوکررہ گئی ہے اِس صورت حال میں اَب یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ حکومتی مشنری اورنگی ٹاو ¿ن، قصبہ کالونی، بلدیہ ٹاو ¿ن اور علی گڑھ کالونی جیسے پرتشدد علاقوںمیں ابھی امن قائم کرنے کے دعوو ¿ں سے اپنی زبان کی چاشنی سے الفت اندوز بھی ٹھیک طرح سے نہ ہونے پائی تھی کہ شرپسندوں نے اپنی پرتشددکارروائیوں کا رخ لیاری ، کھارادر، لی مارکیٹ اور اِس سے ملحقہ علاقوں کی جانب موڑکر سندھ انتظامیہ کو اِس کے شہر میں امن وامان قائم کرنے جیسے اقدامات سمیت حکومتی رٹ کوبھی چیلنچ کردیااور اِس طرح شرپسندوں نے سندھ حکومت کے شہرکراچی میں امن وامان قائم کرنے کے دعوو ¿ں کی قلعی کھول کر رکھ دی اِن علاقوں میں دہشت گردوں کی پُرتشددکارروائیوں سے اَب بھی خوف وہراس اور ہو کا عالم طاری ہے۔
جبکہ یہاںکسی حد تک یہ بات حوصلہ افزاضرور ہے کہ اِن علاقوں میں قانون نافذکرنے والے اداروں کے جوان اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے مذکورہ علاقوں میں امن وامان قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اوراُنہوں نے اِن علاقوں کو شرپسندوں سے پاک کرنے کے لئے کچھ گرفتاریاں بھی کی ہیں ۔
جبکہ عام شہریوں میں یہ خیال پیداہونا شروع ہوگیاہے کہ شہر کراچی کی موجودہ دن بدن بگڑتی ہوئی صورت حال کے حوالے سے اگر موازنہ کیاجائے تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہوئی یقینا محسوس کی جاسکتی ہے کہ موجودہ حکومت نے اب بھی شہرکراچی میں امن وامان کے قیام اور اِسے شرپسندوں سے پاک کرنے میں اپنی سیاسی وابستگیوں اور تعلقات کو ملحوظ خاطررکھاہواہے اور یہ مسلسل اپنی کسی نہ کسی بہانے غیر سنجیدگی کامظاہرہ کئے ہوئے ہے کیوںکہ شہر کے کسی نہ کسی علاقے میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے اِس بات کی غمازہے کہ حکومت اپنے رویوں سے کسی نہ کسی طرح سے اپنی کسی ایک حریف سیاسی گروپ کے لوگوں پر شک اور مفروضوں کی بنیادوںپرالزام تراشیوںکے باعث کسی نہ کسی طرح سے اِن پر مقدمات بنانے کے بہانے تلاش کرکے اِنہیں ضد ی بنارہی اور جو اِسی وجہ سے اِنہیں شہرکا امن اور حکومتی رٹ کو چیلنچ کرنے کا موقع بھی فراہم کررہی ہے جبکہ دوسری جانب یہ اپنے کسی ہم خیال اور ہمدرد سیاسی گروپ سے وابستہ لوگوں کو فری ہینڈ دینے کے عمل میں بھی کاربند آتی نظر آرہی ہے جس سے یہ ظاہر ہورہاہے کہ یہ دانستہ طور پر اپنی جانبداری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے شہر کے حالات خراب کرنے والوں سے چشم پوشی کررہی ہے اِس قسم کا حکومتی رویہ کسی بھی لحاظ سے شہر کراچی میں امن وامان کے قیام کے لئے سومند ہرگز ثابت نہیں ہوسکتاہے۔
جبکہ دوسری جانب یہاں ضرورت تو اِس امر کی ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ اِس کے نزدیک شہر کا امن اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت مقدم ہو اِس لحاظ سے اِسے کسی ایک سیاسی گروپ کو نیچادکھانے اورکسی دوسرے گروپ کی سپورٹ کرنے سے اجتناب برتتے ہوئے وہ راہ اپنانی چاہئے جس میں واضح طور پر اِس کے ہر قسم کے قول وفعل سے حکومت کی غیرجانبداری نہ صرف محسوس کی جائے بلکہ نظر بھی آئے۔اور شہر میں جلدازجلد حکومتی کوششوں سے امن قائم ہوجائے اور معمولات زندگی بحال ہوسکے۔
اور اِسی کے ساتھ ہی ہم یہاں یہ بھی کہناچاہیں گے کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ہر حال میں برداشت کرنے کا عادی بنالینا چاہئے اور وہ اشخاص جن پر قدرت مہربان ہواور اِنہیں کسی ملک کی بادشاہت یا حکمرانی سونپ دے تو پھر اِن پریہ ذمہ داری دوسروں کی نسبت اور زیادہ عائد ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے اندر افہام وتفہیم اور صبروبرداشت کا مظاہرہ کچھ اِس طرح سے کریں کہ اُن کی ذات نہ صرف اپنے لوگوں کے لئے ایک مثال بن جائے بلکہ رہتی دنیاتک بنی نوع انسان کے لئے بھی ایک ایسی مشعلِ راہ کادرجہ اختیار کرجائے کہ دوسرے اِس سے فیضیاب ہوتے رہیں....نہ کہ ایسے ہوجائیں جیسے اِن دنوں ہمارے ملک


کے حکمران افہام وتفہیم کے تمام دروازے اپنے ہی ہاتھوں سے خودبند کرنے کے بعد..... اپنے بے صبرے پن کی وجہ سے اپنا صبرو برداشت اور عفوودرگزر کے مادے کو ایک طرف رکھ چکے ہیں اوراپنے سخت رویوں اور لب ولہجے سے اپنی جارحیت کا مظاہرہ صوبہ سندھ میں کچھ اِس طرح سے کررہے ہیں کہ اِنہیں دیکھ کر اور اِن کی بیانات پڑھ کراور اِن کی پریس کانفرنسیں سُن کر توایسا لگتاہی نہیں ہے کہ یہ ہمارے ملک کے حکمران
ہیں کیوں کہ یہ اپنے جارحانہ لب ولہجے سے یہ ظاہر کرنے کی کوششوں میں لگے پڑے ہیں کہ اِن کا ہاتھ ہرحال میں اُوپر رہے اور اِن کی گردنیں بھی ہرحال میں تنی رہیں جس کے لئے یہ اُس انتہاتک بھی جانے کوتیارنظر آتے ہیں جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔
ہمارے فہم وفراست سے لبریز اور اپنی ذات سے بے پناہ صبروتحمل کا مظاہر ہ کرنے والے حکمرانوں کو ایساکیاکچھ اچانک ہوگیاہے کہ آج وہ جذباتی ہوگئے ہیںاور اپنے جذبات کو بھی قابو نہیں رکھ پارہے ہیں اور کئی مواقع پر اپنے جذبات کا مظاہر ہ کچھ اِس طرح سے کیا ہے کہ اِنہیں دیکھ کر ایسالگتاتھا کہ یہ وہی ہیں جو صبرواستحکام کے کبھی پیکرہواکرتے تھے اور آج ایک ذراسی بات پر آگ بگولہ ہوگئے ہیں جبکہ عوام کوبھی اَب اِن کے اِس طرح کے جارحانہ پن کی صرف ایک وجہ یہ سمجھ آنے لگی ہے وہ صرف اتنی سی ہے کہ سندھ کے اربن علاقوں بالخصوص کراچی اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ملک کی ایک منظم اور ہر طر ح سے فعل جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان(ایم کیو ایم ) جوموجودہ حکومت کی ساڑھے تین سال تک اتحادی رہنے کے بعد اَب جبکہ یہ حکومتی رویوںاور اِس کی سردمہری کے باعث یوں ہی باحالات مجبوری حکومتی اتحاد سے ّ(وفاق اور صوبہ سندھ سے) علیحدہ ہوئی توجب سے ہی یہ خیال ہر ذی شعور پاکستانی کے دل و دماغ میں جنم لے چکاہے کہ متحدہ کی جانب سے حکومتی اتحاد کے خیرباد کہتے ہی حکمران جماعت نے اپنے تیور بدل لے اور نہ صرف بدل لے بلکہ تب سے ہی آزادانہ طور پر حکمران جماعت نے دیدہ و دانستہ طور پر ترنت سندھ میں کمشنری نظام کی بحالی سمیت کئی ایسے اقدامات بھی کرڈالے ہیں جو برسراقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بالخصوص صوبہ سندھ میںمتحدہ کی موجودمیں نہیں کرسکی تھی جبکہ دوسری جانب برسرِ اقتدار جماعت کے سندھ میں ایسے اقدامات سے بھی عوام الناس میں یہ تاثر اُبھر کر سامنے آرہاہے کہ جیسے اِس کے لئے حکمران جماعت نے خودسے ایسے حالات اور واقعات کو جنم دیاکے اِن کی اتحادی جماعت ایم کیوایم اِن سے بدظن ہوکر خود علیحدگی اختیار کرجائے تو اِنہیں وہ موقع ہاتھ لگ جائے جس کی تلاش میں یہ ساڑھے تین سالوں سے سیاسی میدان کے صحراءمیں خاک چھان رہے تھے اور بالآخرسندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی مرادیں اُس وقت پوری ہوگئیں جب متحدہ قومی موومنٹ نے اِس سے اپنا سیاسی ناطہ توڑا اور اپنے علیحدہ سیاسی راستے پر گامزن ہوگئی جس کا بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے حکمران جماعت نے سندھ میں کمشنری نظام کی بحالی کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی اِس کے فوری نفاذ کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیاجس کے تحت حکومت سندھ نے صوبے میں کمشنری نظام کو باضابطہ طور پر بحالی کرنے کے بعد سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کو ختم کرتے ہوئے کراچی حیدرآباد کے پرانے اضلاع بحال کردیئے جن میں کراچی ڈویژن ضلع وسطی، شرقی، غربی، جنوبی اور ملیر پر مشتمل ہوگا جبکہ حیدرآباد ڈویژن میں ضلع حیدرآباد، دادو، ٹھٹھہ، بدین اور جامشوروپر مشتمل ہوگااور اِسی طرح میرپورخاص، لاڑکانہ اور سکھرڈویژن بھی بحال اورڈویژنل ہیڈکوارٹربنادیئے گئے ہیںاضلاع کے ڈی سی اوز ہی عارضی کمشنرہوں گے۔
اور اِسی طرح متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے لندن اور پاکستان میں بیک وقت ہونے والے ہنگامی اجلاس کے بعد نائن زیرو پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے موجودہ حکومت کی جانب سے انگریزوں کے غلامانہ کمشنری نظام کی سندھ میں نفاذ کو اُصولی بنیاد پر مکمل طور پر مسترداور اِس کی ہر سطح پر بھرپورمذمت کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ اِسے عدلیہ میں چیلنچ کرنے کا بھی فیصلہ کیاجبکہ اِس نظام کی بحالی اور حکومتی اقدام کو آمریت کی بدترین مثال قراردیتے ہوئے اِس کے خلاف ملک بھر میں عوامی رابطہ مہم کاآغاز بھی کیا۔جبکہ اِس موقع پر ہم بالخصوص سندھ کی سیاسی ماحول میں پیداہونے والی تناو ¿ کی کیفیت میں یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی موجودہ دگرگوں ہوتی معاشی واقتصادی پوزیشن کے لحاظ سے اور زمینی حقائق کے پس پردہ پیداہونے والی صورت حال جو ملک کے لئے کسی سنگین خطرے کی باعث بن سکتی ہے ایسے میں ہمارااپنی حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی افہام و تفہیم اور صبروبرداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عفوودرگزر سے کام لیناچاہئے اور اِنہیںاپنے تعین وہ کچھ کرناچاہئے جس سے اِن خطرات کا بہتر طور پر تدارک ہوسکے جو آج ہمارے ملک پر منڈلارہے ہیںاور اِن حالات میںا یسی دیر پااور پائیدار حکمت عملی اپنانی چاہئے کہ جوملک کے موجودہ حالات میں صوبوں اور ملک کے حق میں بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کے لئے بھی اُمیدافزاہو۔کیوںکہ جن سنگین حالات سے آج ہماراملک دوچار ہے اِس سے ملک کو اِسی صورت میںنکالاجاسکتاہے کہ جب ملک میںبرسرِ اقتدار جماعت سے لے کر اپوزیشن کی جماعتیںبھی مل کر ملک اور قوم کی بہتری کے لئے سوچیں۔ آخر میںہمارااپنے حکمرانوںاور اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو یہ مشورہ بھی ہے کہ جس طرح حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومتی رویوںاور پالیسیوںکے خلاف اپنا ایک گرینڈالائنس تشکیل دے ڈالاہے تو اِسی طرح ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں سمیت حکمران جماعت مل کر کوئی ایک ایسا گرینڈ الائنس بنائیںجس کا مقصد ملک کو درپیش سنگین بحرانوں اور قرضوںکے بوجھ تلے دبے رہنے سے نجات دلاناہو...کیااِس کام کے لئے حکمران جماعت خود یا اپوزیشن کی جماعتوںمیںسے کوئی آگے آنے کو تیار ہے .....؟؟یا یوں ہی مختلف اقسام کے گرینڈالائنس بناکر حکومت کو نیچادکھانے اور گرانے....کے چکر میںپڑکر حزب اختلاف کی جماعتیںاپنااور قوم کا وقت یوںہی برباد کرتی رہیںگی ۔اورکیا حکمران جماعت سمیت اپوزیشن کی جماعتیں ملک میں وہ کام نہیںکرپائیںگی جو اِنہیںکرناچاہئے......؟؟
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved