اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 03222777698

Email:-azamazimazam@gmail.com

تاریخ اشاعت:۔28-06-2010

امریکی سی آئی اے کے سربراہ کاسّچ

 

کالم۔۔۔ محمداعظم عظیم اعظم

 
امریکی سی آئی اے کے سربراہ کاسّچ .....افغان جنگ توقع سے کہیں زیادہ مشکل نکلی..
حقیقت ہے....؟امریکا افغانستان میں اپنی ناکامی اور شکست تسلیم کرچکاہے


ستمبر2000کے امریکی ٹریڈ سینٹر پرخودساختہ امریکی حملے کے ڈرامے کے بعد اِس حملے کے ملزمان اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے اراکین کی تلاش میں افغانستان پردہشت گردی کے خلاف زبردستی کی جنگ ملسط کرنے اور اِس پراپنی فتح و کامرانی کی صورت میں اپنے قبضے اورامریکی جھنڈاگاڑنے کی نیت سے گھسنے والی بالخصوص امریکیوں کے ساتھ ساتھ نیٹو افواج نے جو خواب اپنی اُلو جیسی آنکھوں میں سجارکھاتھا اِن شاطر اور چالاک امریکیوںاور نیٹو افواج کا یہ خواب آج نوسال بعد چکناچُور ہوتاساری دنیا کو نظر آرہاہے اور اَب اِس حقیقت کو امریکیوں سمیت ساری کو بھی تسلیم کرلینا پڑے گا کہ آج افغانستان میں لاکھوں ٹن بارود بھونک ڈالنے اورہزاروں معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے باوجود بھی امریکااور اِ س کے حواری اپنے اُن مقاصد میںکامیاب نہ ہوسکے ہیں جن کے لئے یہ افغانستان میں اپنے مذموم مقاصد لئے گھسے تھے۔اوریوںآج اِس حقیقت کوبھی امریکیوں سمیت دنیا بھر کے ا نسانوں نے برطانیوی آرمی چیف جنرل ڈیوڈ رچرڈاورمریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ لیون پینٹاکی زبانی خود سُن لیا ہے کہ 11)ستمبر 2000کے امریکی ڈرامے ٹریڈ سینٹر کے حملے میں ملوث ملزمان( طالبان سے مذاکرات کا وقت آگیاہے ،اِس جنرل کا یہ بھی کہناتھا کہ مذاکرات جلد شروع ہونے چاہئیں، تاہم اِس برطانیوی جنرل نے اِس بات کا بھی برملا اور کھل کرکچھ اِس طرح سے اظہار کیاہے کہ ہربغاوت کو ختم کرنے کے دوران ایسامرحلہ بھی ضرورآتاہے کہ جب فریقین کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیںمیں یہاںیہ سمجھتاہوں کہ دنیا کواَب یہ بات بھی اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ مذاکرات کی پیشکش میں پہل بھی وہ ہی فریق )برطانیہ جو امریکا کے اُکسانے پر اِس جنگ کا حصہ بناتھا آج اپنے ہزاروں فوجی افغانستان کی پہاڑوں میں مروانے کے بعد خود)کررہاہے اور جو اِس گھمنڈ میں تھاکہ وہ اپنی قوت کے زریعے افغانستان پر قابض ہوکر یہاں اپنی حکومت قائم کرلے گا اور دنیاکو یہ ثابت کردے گا کہ ہم اپنی بقاکے لئے ہر حربہ استعمال کرکے دنیا کو اپنے تابع کرسکتے ہیں.....اور آج کتنے افسوس کی بات ہے کہ افغانستان کی زمین پر اِس ہی زمینی خدائی فوج کا دعویدار برطانیہ خود اپنے ہی منہ سے یہ بات بھی تسلیم کررہاہے کہ افغانستان میں جنگ کا حل قوت کا استعمال نہیں بلکہ مذاکرات ہیں۔اور اِس حل کے نتیجے میں یہاں دائمی امن کے قیام کے لئے ہرصورت میں پُرامن مذاکرات جلد کئے جائیںیہاں میراخیال یہ بھی ہے کہ اگر یہی کچھ کرناتھا تو مزاکرات پہلے ہی کرلیتے تو اچھاہوتامعصوم انسان تو اِس جنگ میں نہ مرتے ۔جبکہ دوسری جانب امریکی سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے بھی افغان امریکا جنگ کے حوالے سے اے بی سی ٹی وی سے گفتگوکے دوران انتہائی ندامت اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ گزشتہ نو برس سے جاری افغان جنگ اندازوں سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوئی ہے جو حقیقتاََ افغان جنگ میں امریکی شکست کا بھی باعث ہے اور اِس کے علاوہ اِس امریکی نے اپنی جھینپ مٹانے کے انداز میں بات کو گول مول کرتے ہوئے یہ بھی کہاہے کہ شائد یہی وجہ ہے کہ اِسی لئے جنگ میں بہت سست رفتاری سے پیش رفت ہورہی ہے۔مگر اِس کے ساتھ ہی انتہائی افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ اِس ہی امریکی سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے اپنی اِسی گفتگو میںیہ بات کہہ کر ہم پاکستانیوں کے لئے ایک نئی مشکل کھڑی دی ہے کہ ”اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے بیشتر ارکان پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں روپوش ہیں“ جبکہ اِس بات کا یقین ہزاروں مرتبہ حکومت ِ پاکستان اِن شاطر امریکیوں کو کرواچکی ہے کہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں نہ تو اسامہ بن لادن موجود ہے اور نہ ہی القاعدہ کا کوئی رکن ہے“ مگرحکومت پاکستان کی جانب سے اتنی یقین دہانیوں کے باوجود بھی امریکیوں کا اِس پر یقین نہ کرنا تو پھر یہی ہے کہ اِس کے بعد امریکیوں کے لئے یہ انتہائی شرم اورڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی شکست تسلیم کرلینے کے بعد بھی اِس ضد اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے ارکان پاکستان میں موجود ہیں “جبکہ اِن کی اِس جنگ کا ایک بڑااتحادی پاکستان بارہا اِسے یہ یقین دلاچکاہے کہ اِیسا کچھ نہیں ہے جیساکہ امریکا سوچ رہاہے۔جبکہ اِس منظر اور پس منظر میں، تو میں یہ سمجھتاہوں کہ آج امریکا کو پاکستان پر کسی قسم کی الزام تراشی اور شک و شبہات کا اظہار کرنے سے پہلے سوبارسوچتے ہوئے اپنے گربیان میں بھی جھانک لینا چاہئے کہ پاکستان بھلا کیوں کسی ایسے دشمن کو اپنے یہاں پناہ دے گا..؟ جس کے خلاف پاکستان پہلے ہی امریکی جنگ کا حصہ بن کر گزشتہ نو برس کے دوران اپنے 35سے38ارب ڈالر کا نقصان کرنے کے علاوہ اپنی افواج کے ہزاروں بہادر سپاہیوں کو اِس امریکی جنگ میں شہید کراچکاہے تو بھلا پاکستان کیوں..؟ اپنے کسی دشمن کو پناہ دے گا..؟جبکہ امریکیوں کو پاکستان پر الزام لگانے اور”اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے بیشتر ارکان پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں روپوش ہیں“ یہ کہنے سے پہلے افغانستان میں اپنی ناکامی کے اسباب کا جائزہ امریکی کانگریس کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان ٹائرینے کے کہے ہوئے جملوں کی روشنی میں لے لیناچاہئے کہ جو اُنہوں نے امریکاکے دورہ کرنے والے پاکستانی پارلیمانی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی زبان سے اداکئے اُنہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی سی آئی اے میںبداعتمادی ہے جس کی وجہ سے امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے اہداف افغانستان میں حاصل نہ کرسکاہے۔جبکہ اِن کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی سی آئی اے اور آئی ایس آئی میں بد اعتمادی ہے بالکل غلط اور بے بنیاد ہے اصل میں امریکی سی آئی اے خود آپسمیں عدم اعتماد کا شکار ہے اور وہ افغانستان میں کھل کراپنی موت کے خوف سے کام نہیں کرپارہی ہے یوںاِسی وجہ سے امریکی اپنی ا ناکامی کا ساراالزام یہ آئی ایس آئی کے کاندھوں پر ڈال کراِسے دبارہے ہیں حلانکہ امریکی سی آئے آئی افغانستان میں بُری طرح سے ناکام ہوچکی ہے اور اِس میں پایاجانے والا عدم اعتمادی کا عنصر ہی افغانستان میں امریکی شکست کی وجہ بناہے۔
 

 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team