اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-03222777698

Email:-azamazimazam@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔2010-07-15

حکومت محکمہ ¿ ریلوے کی تباہی کا نوٹس لے
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ محمداعظم عظیم اعظم
پاکستان ریلوے میں فنڈ کی کمی ! 102ریلوے انجن ناکارہ اور302اپنی عمر پوری کرچکے ہیں
نااہل وزیر ریلوے کی وجہ سے آج پاکستان کا محکمہ ¿ریلوے تباہی کے دہانے پر پہنچ گیاہے
محمداعظم عظیم اعظمazamazimazam@gmail.com
پاکستان میں پہلی مسافر ٹرین کراچی پورٹ سے کوٹری تک چلانے کا منصوبہ 1847میں اُس وقت کے کمشنر آف سندھ سرہنری بیڈوارڈ فریریSir Henry Bdward Frere نے پیش کیا تھا جس پر سروے کا کام 1858کو شروع کیاگیااور بالآخر ایک انتہائی مختصر عرصہ میں یہ کام پایہ ¿ تکمیل کو پہنچااور یوںپاکستان میں31مئی1861میںکراچی پورٹ سے کوٹری تک پہلی آزمائشی طور پر مسافر ٹرین سروس کا افتتاح کردیاگیاجس کا کُل فاصلہ 105میل اور 169کلومیٹر تک کا تھااور پھر رفتہ رفتہ اِس کا دائرہ وسیع ہوتاگیا اور ایک اندازے کے مطابق 1947میں جب پاکستان کا وجود عمل میںآیا تو اُس وقت ریلوے لائن کا جال پورے پاکستان میں پھیل چکاتھایعنی ریلوے کے پاس اُس وقت 1,947روٹس مائلز جو3,133کلومیٹر بنتاتھا اتنے بڑے حصے میں ٹرینوں کی آمدورفت جاری تھی۔اور آج یہ محکمہ پاکستان ریلوے جو قیام پاکستان سے قبل قائم ہوا تھااَب یہ ادارہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے یکدم صفر ہوکر رہ گیاہے۔
آہ! اَب اِسے کیا کہاجائے کہ21ویں صدی کے جدید سائنسی اور ٹیکنالوجی کے دورمیں دنیا کے ایک ایٹمی ملک پاکستان آج جس کی کُل آبادی لگ بھگ ساڑھے سولہ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور اِس ملک کی ایک حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیاکے اِس ایٹمی ملک میںاِس کے عوام کوجہاں بہت سے اور ضروری سہولتیں میسر نہیں ہیں تو وہیں دنیاکے دیگر ممالک کے مقابلے میں اِس ملک کے عوام تیز رفتار سفری سہولت سے بھی محروم ہیں اور اِس ملک کا محکمہ ریلوے جو1847میں قائم ہواتھا یہ ادارہ اپنے مسافروں کو آج تک بہتر سفری سہولت دینے کے قابل نہیں بن سکاہے اور آج یہ ادارہ اپنے مسافروں کورہی سہی سفری سہولت سے مہیاکرنے سے بھی عاری ہوگیاہے جس کا جواز اِس ادارے نے پیش کرتے ہوئے یہ بتایاہے کہ والے محکمہ ¿ ریلوے کے فنڈ میں کمی ہونے کی وجہ سے یہ اپنے مسافروںکو بہتری سفری سہولت مہیانہیں کرپارہاہے جس کے باعث سالانہ اِس کے مسافروں کی تعداد میں کمی کاگراف بڑھتاجارہاہے اور اِس ادارے کو اربوں کا خسارہ ہورہاہے جس کی وجہ سے یہ ادارہ تباہی اور بربادی کے اندھے اور سیاہ ترین کنوئیں میںگرنے کو ہے اور ایک خبر کے مطابق دنیاکے اِس ایٹمی ملک پاکستان کے محکمہ ¿ ریلوے کی بیوروکریسی کی نااہلی اور اِس کی سوفیصد ناقص منصوبہ بندی کے باعث لوکو شیڈزاور ورکشاپس انجنوں کے قبرستان میں تبدیل ہوچکے ہیںبتایاجاتاہے کہ پاکستان ریلوے کے قبرستان نما ورکشاپوں میں 102ریلوے انجن صرف اسپئیر پارٹس نہ ہونے کی وجہ سے ایک سال یا اِس سے بھی زیادہ عرصے سے ریلوے کے مختلف شیڈز میں ناکارہ کھڑے کھڑے ختم ہورہے ہیںاور 302انجن اپنی عمر پوری کے اَب قبروں میں پاو ¿ں لٹکاچکے ہیں مگروزارتِ ریلوے اور پاکستان کا محکمہ ریلوے نئے انجن لانے کے موڈ میں قطعاََ نہیں ہے جبکہ دوسری جانب یلوے ہیڈکوارٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق انجنوں کی قلت کی وجہ سے80 مال گاڑیاں ملک کے مختلف چھوٹے بڑے اسٹیشنوں پر ایک ماہ سے کھڑی ہیںاور اِس کے ساتھ ہی اِس رپورٹ میںیہ بھی بتایاگیاہے کہ ریلوے نظام میں اِس وقت مجموعی طور پر صرف520انجن موجود ہیںاِن میں سے صرف 256انجن زیر استعمال ہیں ۔اورقابلِ استعمال انجنوں میں سے صرف 150انجن مسافرٹرینوں کے ساتھ، 50انجن فریٹ (مال) گاڑیوںاور بقایا56انجن بیلٹ (پتھر)، ریلوے میٹریل کی نقل وحمل اور شٹنگ کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں۔اور اِس کے ساتھ ہی اِس رپورٹ کے مطابق اِس وقت ریلوے شیڈکراچی میں 28انجن ایسے ہیں جو پاور اسمبلی،ٹربو کمپریسر،الیکٹریکل پینل، ٹریکشن سوئرزاور دیگر چھوٹے موٹے اسپئیر پارٹس نہ ملنے کی وجہ سے موجود ہیں،لاہور شیڈ میں 21انجن،کنڈیاں شیڈ میں18 انجن، کوئٹہ شیڈ میں 13انجن،راولپنڈی شیڈ میں12انجن، اوراِسی طرح روہڑی شیڈ میں سب سے کم صرف 10انجن انتہائی ناکارہ حالت میں کھڑے ہیںجبکہ اِس سارے منظر اور پس منظر کے حوالے سے جب ریلوے حکام سے رابطہ کیاگیاتوبڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ ریلوے حکام نے بڑی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِ س سارے مسائل کی وجہ صاف صاف یہ بتائی کہ اسپئیرپارٹس کی خریداری کے لئے فنڈزموجود نہیں ہے یہ کہہ کر ریلوے حکام نے اپنی جان چھڑانی چاہی مگر کیسے....؟ عوام اِن کی جان چھڑسکتی ہے....؟جب کہ پاکستان ریلوے تو وہ ادارہ ہے جس کو اگر صحیح چیک اینڈ بیلنس کے ساتھ چلایا جاتاتو کبھی اِس ادارے میں خسارہ ہوہی نہیں سکتاتھا۔شائد اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ محکمہ ¿ ریلوے جب سے وفاقی وزرا ¿ کے انڈر کنٹرول ہوا ہے تب سے لیکر موجودہ وزیرریلولے تک سب کے سب نااہل لوٹ مار کرنے والے وزرا ¿ اِسے ملے تب ہی تو یہ سونے کاانڈہ دینے والا مرغی جیسا ادارہ بھی خود کواپنی تباہی کے دہانے تک پہنچانے سے نہ بچاسکا ۔اور اگر اَب بھی حکومت نے اِس ادارے کی تباہی اور بربادی کاسنجیدگی سے کوئی نوٹس نہ لیااور موجودہ نااہل وفاقی وزیر ریلوے کو فی الفورطور پر تبدیل نہ کیا تو عین ممکن ہے کہ اِس حکومت کے رہنے تک محکمہ ¿ ریلوے پورا کا پوراتبا ہ نہ ہوجائے اور پاکستان میں کوئی اِس محکمے کا نام بھی لینا،سُننااور پڑھنا بھی گوارہ نہ کرے۔کیونکہ ایک اندازے کے مطابق اتنے بڑی تعدا د میں انجنوں کی خرابی کے باعث فریٹ آپریشن متاثر ہونے کے ذمہ دار بھی وفاقی وزیرریلوے ہیںجن کی عدم دلچسپی کی وجہ سے فریٹ آپریشن متاثرہونے سے اِ س مد میں2009-2010کے دوران ریلوے کو آمدن کا ہدف بھی حاصل نہ ہوسکاہے جبکہ مذکورہ مالی سال میں فریٹ کے شعبہ میں آمدنی کا ہدف 10ارب 50کروڑ مقررکیاگیاتھااور اِس صُورتِ حال میںاَب عوامی سطح پر خیال کیاجارہاہے کہ ریلوے اپنی اِس ناقص کارکردگی کے باوجودبھی اپنے کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ کرکے بھی اپنا یہ ہدف پورانہیں کرسکا ہے ۔اِس ساری صورت حال میں ایسالگتاہے کہ محکمہ ریلوے کو دانستہ طور پر ایک ناکام ادارہ بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔تاکہ محکمہ ریلوے اپنے خسارے کے باعث بندہوجائے اور اِس کی جگہہ مال برداری اور مسافروں کی آمدورفت کے لئے ملک بھر میں چلنی والی پرائیوٹ بس سروس کے شعبے کو فروغ دیاجائے تاکہ اِس شعبے سے وابستہ افراد اور اداروں کی ملک بھر میں اجارہ داری قائم ہوسکے۔
بہرحال!ریلوے حکام نے اپنی رپورٹ میںیہ بھی تحریر کیا کہ فریٹ کے شعبے میں 2009-2010کے دوران ریلوے کو آمدن کا ہدف صرف6ارب98کروڑروپے رہی ہے جس کی وجہ سے ریلوے کا فنڈز کم ہوگیاہے اوریوں اِس کو اربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
بہر کیف !ہم اِسے اُمتِ مسلمہ کے پہلے اور دنیا کے آٹھویں غریب ترین ایٹمی ملک پاکستان کے حکمرانوں کاایک قابلِ فخر کارنامہ ہی کہیں گے کہ اُنہوں نے گزشتہ63/62سالوں میںبھارت جیسے شاطر اور مکاّر ملک کے پڑوسی ہونے کے ناطے بتدریج اپنے ملک کے ساڑھے سوالہ کروڑ عوام پرمہنگائی کا عذاب نازل کرکے اِسے ایک ایٹمی ملک توبنا ڈالا ہے جو کہ بیشک ایک اچھااور قابِل تعریف عمل ہے اور جس پر یہ اَب اِتراتے اور شیخیاں بھگارتے بھی پھرتے ہیںکہ اِن کا ملک پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے بلکہ اِس پر اگر میں یہ کہوں تو کوئی بُرابھی نہ ہوگاکہ یہ خود کوایک سُپرطاقت اور ایٹمی ملک کا حکمران بھی کہلانا بڑے فخر سے پسند کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتاہے کہ دوسری طرف ہمارے اِن ہی حکمرانوں نے اپنے ملک کے عوام کواِن کے بنیادی حقوق اوراِنہیں اُن کی تمام بنیادی سہولتیں سے بھی محروم رکھا جو دنیا کے دوسرے ایٹمی ممالک کی عوام کوسہولتیں حاصل ہیں۔اُنہوں نے ایسا کیوں کیا....؟اور اِس کی کیا وجہ ہے....؟یہ سوال جو آج ہر پاکستان کی زبان پر ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ہر دور میںوطنِ عزیز پاکستان کو دنیا کا ایک عظیم ایٹمی ملک بنانے کے لئے تواپنی جدوجہد جاری رکھی مگراپنی عوام کے لئے یہ حکمران کچھ نہ کرسکے ....؟تو اَس کا صاف اور انتہائی سیدھا سے جواب یہ ہے ....کیونکہ اِن سب کی توجہ بھارت کوخطے میں اِس کی بڑھتی ہوئی ہٹ دھرمی پر نکیل دینی تھی جو ہمارے حکمرانوں نے خود کو ایک ایٹمی ملک بناکر بھارت کی بدمعاشی خطے میںہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردی تو اُدھر ہی پاکستان کو ایک ایٹمی ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہونے سے جنوبی ایشامیں طاقت کا تواززن بھی برقرار ہوگیاہے اوراَب اِس سے یہ تو ہواکہ بھارت پاکستان کے خلاف ا پنے کسی بھی قسم کے جارحانہ عزام رکھنے سے قبل یہ ضرور سوچتاہے کہ اِس کی ذراسی غلطی اور غلط نشانہ بھارت کو بھی صفحہ ¿ ہستی سے مٹانے کا سبب بن سکتاہے۔یوں اَب طاقت کے نشے میں چُور بھارت پاکستا ن ہرسیاسی اور غیر سیاسی معاملے کا حل مذاکرات سے نکالنے کا خواہشمندہے۔
مگر دوسری طرف ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے اِس جذبہ جنون کا ایک نتیجہ یہ نکلاکہ آج دنیا کے آٹھویں ایٹمی ملک پاکستان کے ساڑھے سولہ کروڑ عوام خوشحالی کوترس رہے ہیںاوراِن کے ماتھے اور اِن کے چہروں پر مایوسی ، پریشانی اور تنگدستی کے آثار نمایاںطور پر دیکھے جاسکتے ہیں اورآج یقینا اِن کی آنکھیں اُس راہ اور اُس دن کی شدت سے منتظر ہیں جب اِنہیں اپنی خوشحالی کی کوئی راہ کہیں سے سُجھائی دے گی اور اُن کے کان کوئی اٰیسی نوید مُسرت سُن پائیں گے کہ حکمرانوں کو عوامی دُکھ اور تکالیف کا بھی حقیقی معنوں میں احساس ہوگیاہے اور اَب اِن کے ووٹوں کی بھیک پر مسندِ حکمرانی پر قدم رنجافرمانے والے حکمران عوام کو ہر طرح کے ریلیف پہنچانے کے لئے اپنی سرتوڑ اور جان چھوڑ کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں تو اُس روز ہی عوام کو یہ ایٹم بم بھی بھلالگے گا اور یہ حکمران بھی اِنہیںاور اچھے لگنے لگیںگے .....ورنہ تویاد رکھو حکمرانو!اُس وقت تک تمہارا یہ ایٹم بم اور ایٹمی میزائلز وغیرہ سب کے سب بیکار ہیں۔ جب تک تم عوام کو اِن کے بنیادی حقوق اور وہ تمام سہولتیں اِن کی دہلیز وںتک نہیں پہنچادیتے جو دنیا کے دیگر ایٹمی ممالک کے عوام کو حاصل ہیں۔
اِس ساری صورتِ حال میں صرف ایک یہی بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے ہر دور میں آنے والے حکمرانوں نے پاکستان ریلوے کو اپنی کمائی اور لوٹ مار کاہمیشہ ایک اچھا ذریعہ بنائے رکھا اور شائدیہی وجہ رہی کہ اُنہوں نے خود یہ نہیں چاہاکہ محکمہ ¿ ریلوے کی حالتِ زار درست ہو جائے اور اِسے ایک منافع بخش ادارہ بنادیاجائے اِسی لئے یہ کوئی ایسی پالیسی اور منصوبہ بندی بھی نہیں کرسکے کہ محکمہ ¿ ریلوے اپنی آمدن خود بڑھائے اور اِس سے اپنے اخراجات بھی پورے کرے۔ میراخیال یہ ہے کہ اگر اُنہوں نے ایساکرلیاہوتاتو پھرمحکمہ ریلوے کی حالت نہیں سُدھر جاتی ....اور جب پاکستان ریلوے کی حالت سُدھر جاتی تو پھر اِن کی ملک بھر میں چلنے والی بسوں میں کون سفر کرتا.....؟
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved