اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-03222777698

Email:-azamazimazam@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔2010-07-22

شیرِ راولپنڈی شیخ رشید احمد کی ہار........حکومت کے لئے آئینہ ہے
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ محمداعظم عظیم اعظم
 
18فروری 2008کے ہارے ہوئے شیخ رشید احمد25فروری 2010کو بھی ہار گئے
شیخ رشید احمد25فروری کوبھی 12ویں کھلاڑی کی حیثیت سے چانس پر تھے
:
آج راولپنڈی کے حلقے این اے 55کے ضمنی انتخابی عمل میںحکومتی حمایت یافتہ اُمیدوار اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشیداحمد کی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار ملک شکیل اعوان کے ہاتھوںہونے والی 21ہزار ووٹوں سے شکست نے حکمرانوں اور سیاسی بازی گروں کی نیدیں اُڑادی ہیں اور اِس کے بعد حکمران اور برسرِاقتدار پارٹی کے اراکین سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ اِن کے حمایت یافتہ اُمیدواراور لال حویلی کے مالک شیرِ راولپنڈی شیخ رشید احمد کی شکست کیو ں کر ہوگئی ہے؟ جبکہ ایسا نہیں ہوناچاہئے تھا اِن کے حمایتی اُمیدوار کی جیت تو یقینی تھی مگر اِنہیں شکست کے کڑوے گھونٹ کیوں پینا پڑگئے؟ اِن پریشان کُن سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ متحرم حکمرانوں کیا آپ نے اپنے اِن دوسالہ اقتدار میں کیا کبھی یہ سوچاکہ آپ نے عوام سے کئے گئے اپنے کتنے وعدے پورے کئے؟ اور عوام کو کیا دیا؟کیا آپ نے اِس عرصے میںکبھی پیچھے مڑ کریہ دیکھاکہ آپ نے عوام کو کس معاملے میں کتنا ریلیف دیا ؟ اور کیا آپ نے اپنے نعرے روٹی ، کپڑااور مکان سے عوام کو حقیقی معنوں میں ہمکنار کیا؟ اور کیا آپ نے اپنااحتساب کیا کہ آپ عوام کے معیار پر کتنا اُترے ہیں ؟ اور آپ کا عوام میں کیا گراف ہے؟ میرے خیال سے جو کام آپ نہیں کرسکے وہ کام راولپنڈی کے حلقے این اے 55کے ضمنی انتخاب نے کر دکھایاہے یہ ضمنی انتخاب نشان عبرت ہے ہمارے اِن رہنماوں کے لئے جواِس خوش فہمی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ اُنہوں نے عوام کے مسائل حل کردیئے ہیں۔اور جب یہ اپنی حکومتی مدت پانچ سال پورے کرنے کے بعداپنا سر تان اور سینہ پھولاکر دوبارہ جنرل انتخابات کے وقت عوام کی دہلیز پر ووٹوں کی بھیک مانگنے جائیں گے تو عوام اِن کے پھیلائے ہوئے کانسہ میں اُسی طرح ووٹ ڈال دیں گے جس طرح عوام نے متحرمہ شہید بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اِن کے دامن اپنے ووٹوں سے بھر دیئے تھے۔ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اَب صورتِ حال اِس سے قطعاََ بڑی مختلف اور حیران کُن ہوگی کیونکہ اِس کا اندازہ حکمران راولپنڈی کے ضمنی انتخاب سے بخوبی لگاسکتے ہیںکہ عوام اِن کو تین سال بعد اپنی دہلیز سے کس طرح سے واپس کریں گے کہ شائد یہ اُس کیفیت کا بیان بھی نہ کرسکیں تو ضروری ہے کہ حکمران اپنے آپ کو سنبھالیں اور عوام کے معیار پر پورااُتریں تو ٹھیک ہے ورنہ تیار ہوجائیں اپنی سُبکی کے لئے جو ناقابلِ بیان ہوگی۔
بہرکیف !اِس صورت ِ حال کوئی اِسے کچھ بھی کہئے مگر اِس حقیقت سے قطاََ انکار نہیں کرسکتاکہ ملک کے عوام اَب ایک لمحہ بھی موجودہ حکمرانوں اور برسر اقتدارپارٹی کوحکومت میںنہیں دیکھانا چاہتے اور آج ملک کے عوام اِنہیںانتہائی مجبوری کے عالم میں برداشت کرر ہے ہیں اگر آج بھی ملک بھر میں جنرل انتخابات ہوجائیں تو ملک کے ساڑھے سولہ کروڑ عوام اپنے ووٹوں کی طاقت سے اِن حکمرانوں اور برسرِاقتدار جماعت کا بھی وہی حشر کریں گے کہ جس طرح عوام نے پچھلے انتخابات میںمشرف کے حامیوں اور راولپنڈی کے ضمنی الیکشن میںحکومتی حمایت یافتہ اُمیدوار کا کیا تھا ۔
اَب اِسی کو ہم بنیاد بناتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ اِس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کزشتہ کئی دنوں سے راولپنڈی کے حلقہ این اے 55کے ضمنی ایکشن میں حکومتی حمایت یافتہ اُمیدوار شیخ رشید احمد اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوارملک شکیل اعوان کے درمیان جو معرکہ جاری تھا بالآخر 25فروری کو اِس حلقے میںہونے والے ضمنی انتخابی عمل کے ساتھ ہی حکومت کے حامی اُمید وار شیرِ راولپنڈی شیخ رشید احمد کی ایک بار پھر ذلت آمیز شکست اور ملک شکیل اعوان کی فتح کے بعد اُس کا اختتام ہوگیا ہے۔اور اِس طرح ضمنی انتخاب کے نتیجے نے یہ واضح کردیاہے کہ عوام کا حکومت پرکتناعدم اعتماد ہے اور عوام آئندہ ملک میں ہونے والے جنرل انتخابات میں برسرِاقتدار پارٹی اور حکمرانوں کا کیا حشر کرے گی وہ بھی آج سب کے سامنے آچکا ہے اور ایک بات یہ کہ جس طرح عوام نے اِس ضمنی انتخاب میں حکومت کی حمایت یافتہ اُمیدوار شیخ رشید احمد کو شکست سے دوچار کرکے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار ملک شکیل اعوان کو فتح ِ عظیم دلاکر حکومت سے اپنی نفرت کا اظہارکرکے موجودہ حکومت کو ایک آئینہ دکھایاہے اَب اِس آئینے میں حکمران اپنا چہرہ دیکھ لیں کہ عوام نے اِس ضمنی انتخاب کے بعد حکومتی حمایت یافتہ امیدوار کی شکست سے جو آئینہ تراشہ ہے اِس میں حکمران یہ دیکھیں کہ عوام اَب انہیں کس طرح سے دیکھ رہے ہیں۔
بہرحال !میں یہ سمجھتاہوں کہ اَب بھی بڑاوقت ہے کہ حکمران خود کو عوامی عدالت میں لانے سے قبل اپنا احتساب خودکرلیں ورنہ اِن کا حشر عوام جنرل انتخابات میں ایسا ہی کریں گے جس طرح راولپنڈی کے ضمنی انتخاب میں حکومتی حمایت یافتہ اُمیدوار شیخ رشید احمد کا کیاہے۔
گوکہ اگر دیکھاجائے تو اِس الیکشن میںشیخ رشید احمد کی ہار اِس لحاظ سے بھی خاصی اہمیت کے حامل ہے کہ شیخ رشید احمد پہلے ہی پاکستان مسلم لیگ (ق) کے اُن اُمیدوار وں میںشامل رہے کہ جن سے متعلق یہ بہت مشہور ہواتھا کہ اُس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف کی بنائی ہوئی پاکستان مسلم لیگ (ق) کے وہ تمام کے تمام اُمیدوار جو مشرف کی قربت میں ایسے نڈھال ہوچکے تھے کہ اِنہیں اِس دوران عوامی کی کو ئی فکر نہ تھی اور اِن سب کو ہر طرف صرف مشرف ہی دِکھائی دیتا تھا اور پاکستان مسلم لیگ (ق) والے جن میں شیخ رشید احمد تو سرِ فہرست تھے یہ اُس آمر جنرل کی وردی اور اِس کی کبھی کبھی شیروانی پکڑے بھی ہر طرف پھرتے نظر آتے تھے اور آمر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے ایک اہم رکن جانے اور پہچانے جاتے تھے اور اُنہوں نے مشرف کی قربت میںرہتے ہوئے آمر پرویز مشرف کو ایسے مشورے بھی ضرور دیئے ہونگے کہ جن کا خمیازہ آ ج پوری پاکستانی قوم کوبھگتنا پڑرہاہے ۔اِسی دوران جب ملک میں 18فروری 2008کو عام انتخابات ہوئے تو عوامی طاقت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ایک ہی جھٹکے میں کردیااور عوام نے اپنے ووٹ سے اُس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف کے اُن چیلوں اور خوشامدیوں کو قومی دھارے سے باہر نکال پھینکا کہ اِن کے سیاسی کیریئر پر سیاہ دھبہ لگ گیاتھا کہ جو کبھی بھی نہ دھل سکے گااور اِس طرح پاکستان مسلم لیگ (ق) کے وہ تما م بڑے سیاسی بُرج جن میںگزشتہ دنوں راولپنڈی کے حلقہ این اے 55کے ضمنی الیکشن میں ہارنے والے شیخ رشید احمد بھی 18فروری 2008کوملک میں ہونے والے عام انتخابات میں ڈھائے جانے والے بُرجوں میں شامل تھے ۔
میراخیال ہے کہ اِس مرتبہ یعنی دوسال بعد جب اِن کے اِسی حلقے میں ایک بار پھر قسمت آزماو سیٹ پاو کا دنگل ضمنی انتخابی عمل کی صورت میںسجاتو شیخ رشید احمد نے اپنی بنائی ہوئی ایک نئی جماعت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کی حیثیت سے اِس انتخابی دنگل میں خود کو دھکیلا اور چلے انتخابی مقابلہ کرنے ...اور بالآخر اِس مرتبہ بھی ہوئی ہوا جس کا خدشہ تھا اور وہ اپنے ہی حلقے سے پھر ہار گئے اور ایسے ہارے کہ اِس مرتبہ تو وہ خود بھی اندر سے بُری طرح سے ٹوٹتے ہوئے محسوس کئے گئے ۔
جہاں تک میں خیال ہے اگرچہ شیخ رشید احمدبھی شائدیہ خوب جانتے تھے کہ یہ پہلے ہی ہارے ہوئے اُمید وار ہیں چلوپھر بھی موجودہ حکومتی ٹیم میں 12ویں کھلاڑی ہی کی حیثیت سے صحیح ایک چانس اور لے لیتے ہیں اور اُنہوں نے اپنے ماضی کے اُن کارناموں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے۔ضمنی انتخابی عمل میں خود کو جھونکا اور پھر اپنی ہار کی شکل میں خود ہی جل بھن کر باہر آگئے۔
اَب یہ اور بات ہے کہ حکومت نے بھی اِن کی حمایت کرکے خود ہی اپنا گراف گرادیاہے کیوںکہ شیخ رشید احمد پر آج بھی مشرف کے ایک بڑے حامی ہونے کا دھبہ لگاہواہے اور عوام اِس وجہ سے اِن کے سیاسی کردار پر شک کرتے ہیں جو اِن کی شکست کی بڑی وجہ بنا اور اِسی بناپراِن کی حمایت کرکے حکومت نے بھی عوام میں اپنا رہا سہاوقار بھی خاک میں ملادیاہے۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved