اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-03222777698

Email:-azamazimazam@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔2010-08-04

آہ! وزارتِ داخلہ نے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر مدد مانگ لی ..کیوں ؟
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ محمداعظم عظیم اعظم
دنیایقین کرے..... !!!غیر ملکی ہاتھ پاکستان کو توڑنے کی سازش کررہاہے....؟؟؟

میں یہ سمجھتا ہوں کہ گزشتہ دنوں جیسے اپنے دوستوں اور دشمنوںسب کو یقین دلانے کے انداز سے وزیرِداخلہ مسٹر رحمن ملک نے سینٹ میں اپنے ولوالہ انگیز خطاب کے دوران جن حقائق کو ساری دنیا کے سامنے آشکار کرتے ہوئے کہاہے کہ غیر ملکی ہاتھ پاکستان کو توڑنے کی سازش کررہا ہے جس میں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتااور اِس موقع پر اُنہوں نے اِس کا بھی برملا اظہار کرکے نہ صرف پاکستانی قو م کوہی چونکادیا بلکہ پاکستان کے اُن دوست ممالک کو بھی حیرت زدہ کردیا ہوگا جو پاکستان کے اچھے ہمدرد اور دوست ہیں اُنہوں نے کہا کہ ہم نے بلوچستان سے ایک لاکھ آبادکاروں کو نکال دیاہے اور اِن کا یہ بھی کہنا تھا کہ صرف سات ماہ کے عرصے میں 252نہتے اور معصوم افراد کو انتہائی بیدردی سے قتل کردیاگیا ہے اور اپنے خطاب کے دوران اُنہوںنے ایک انکشاف یہ بھی کیا کہ صوبے کے ایک کالج میںقومی پرچم لہرایانہیں جاسکتااو ر نہ ہی وہاں قومی ترانہ پڑھنے کی اجازت ہے اُنہوں نے اپنے اِسی خطاب کے دروان اِس بات کا بھی انکشاف کیاکہ مہمند اور باجوڑ میں افغانستان سے شدت پسند اور اسلحہ لایاجارہاہے یہاں میں یہ سمجھتاہوں کہ طالبان کے روپ میں معصوم اور نہتے بچے،بوڑھے ،جوان ،مرد اور عورت کو بموں سے مارنے والے کوئی بھی ہوں مگر اُنہوں نے طالبان کا روپ دھار کر طالبان کو بدنام کردیاہے اور اگر ایسی دہشت گردی کی وارداتوں میں واقعی طالبان ہی ملوث ہیں تو پھر رحمن ملک کا کہنا بجاطور پر اَب درست معلوم دینے لگاہے کہ طالبان پاکستان اور اسلام کے خیر خواہ نہیں.... اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہاکہ افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے کرزئی حکومت سے بات کی ہے اَب دیکھنایہ ہے اُنہوں نے اپنے اِس خطاب کے دوران دنیا کو جس بات کا یقین دلانے کی کوشش کی ہے دنیا اور بالخصوص پاکستان کے دوست ممالک بھی اِس پر کتنا یقین کرتے ہیںاور پاکستان کی کیا مدد کرسکتے ہیں یہ فیصلہ اَب اِن کی صوابدید پر ہے ۔
مگر بہرحال ! اُدھرہی وزارتِ داخلہ رحمن ملک سے متعلق ایک خبریہ بھی ہے کہ جس کے مطابق اُنہوں نے اسلام آباد میں صحافیوں سے ایک گفتگو کے دوران اِس بات کا بھی انکشاف کرتے ہوئے کہاہے کہ کراچی میںہرمرنے والا ٹارگٹ کلنگ کا شکار نہیں ہے ہوتا.......؟؟؟؟تو پھر کیا ہوتا ہے ......مسٹر رحمن ملک صاحب ! آپ یہ بھی کیوں چھپاگئے اِسے بھی واضح کردیتے تو کوئی شک ہی نہیں رہ جاتا کہ ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ اور کس طرح کراچی کے معصوم شہریوں کی ہلاکتیں عمل میں آرہی ہیں......؟؟؟اوراِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اِس موقع پر اپنے اور اپنی حکومت کے اِس عزم کا بھی اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم کراچی کے امن و امان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور حالات خراب کرنے والوں کو کسی بھی صُور ت میں نہیں چھوڑیں گے خواہ اِن کا تعلق کسی بھی جماعت سے کیوں نہ ہواور اِسی طرح مسٹر رحمن ملک نے یہ بھی کہاکہ فاٹااور بلوچستان میں بھی خون بہہ رہاہے اِس پر اُنہوں نے انتہائی عاجزی اور انکساری سے عالمی برادری سے بھی اپیل کرتے ہوئے یہ کہاکہ کراچی سمیت فاٹااور بلوچستان میں ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام اور اِس کے ملک سے خاتمے کے لئے ہماری بھر پور مدد کی جائے۔
یہاں میرا خیال یہ ہے کہ اَب اِس کے بعد یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان میں حالات خراب کرنے اور اِسے دہشت گردی کے ذریعے غیر مستحکم بنانے کی سازش میں یقینا وہ ہی غیر ملکی ہاتھ ملوث ہیں جن کی جانب رحمن ملک نے اپنے واضح اور دوٹوک الفاظ میں اشارے سے کھلم کھلااپنا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے مدد مانگ لی ہے۔
اور اِس کے ساتھ ہی اَب اِس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان اِس حوالے سے اپنی یہاں ہونے والی دہشت گردی کی روک تھام اور اِس کے خاتمے کے لئے کچھ نہیں کررہا.....یایہ اپناہاتھ پہ ہاتھ دھرے اپنی مدد کے لئے دوستوں کے انتظار میں بیٹھاہے بلکہ اگر یہاں میں یہ کہوں تو زیادہ بہتر ہوگا کہایک عرصہ سے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی خونریز وارداتوں سے جاری امن و امان کی دگرگوں ہوتی صورتِ حال پرپریشان حال حکمرانوں نے چلو! دیر آیددرست آید کے مصداق پر عمل کرتے ہوئے گزشتہ دنوںسینٹ میں12صفحات پر مشتمل اِنسدادِدہشت گردی ایکٹ کاایک ایسا ترمیمی بل پیش کردیاہے جس کی ایوان سے متفقہ منظوری کے بعد ملک میں اِس کے فوری نافذالعمل سے آئندہ دہشت گردی کاپھر کوئی چارہ نہیں رہ پائے گااوراِس ترمیمی بل برائے اِنسدادِ دہشت گردی ایکٹ جس میںشامل اہم نکات یہ ہیںاول دہشت گردی کے الزام میں ملوث اور گرفتار شخص کو 90روز تک حراست میں رکھا جاسکے گااوراِس کے ساتھ یہ بھی کہ جِسے کسی بھی عدالت میں چیلنچ نہیں کیاجاسکے گااور ملز م کا ٹرائل بند کمرے میں ہوگادوئم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف مزاحمت ، اسلحہ کے زور پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانا اور غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چلانا بھی دہشت گردی کے زمرے میں شمار ہوگی اور سوئم دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار مجرم کی کم ازکم سزا دس سال قیدکی سفارش کی گئی ہے یوں اِس سست آور حکومتی عمل سے قوم میںذراسی یہ اُمید پیدا ہوگئی ہے کہ اِس سے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کو کسی حد تک ضرور کنٹرول کرنے اوراِس کا خاتمہ کرنے میں مدد مل سکے گی۔اوراِس حکومتی اقدام سے قوم میں ایک حوصلہ پیدا ہوگا کہ حکومت نے دیر سے ہی صحیح پر ملک سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے کچھ تو کیا ہے .....؟یہ اور بات ہے کہ اِس پر خود حکومتی اراکین بعد میں عمل نہ کروائیں۔
جبکہ اِس اِنسدادِ دہشت گردی ترمیمی ایکٹ2010 کے حوالے سے وزیر داخلہ جنابِ محترم رحمن ملک نے حسبِ روایت اپنے مخصوص انداز سے اِس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہربار دہشت گرد سزاو ¿ں سے بچ جاتے ہیںاِس موقع پر اِن کا دہشت گردوں کومتنبہ کرتے ہوئے یہ بھی کہناتھا کہ ملک سے دہشت گردی اور دہشت گرد عناصر کے خاتمے کے لئے ایسے سخت ترین اقدامات بہت ضروری تھے جس پرارکان سینٹ کا یہ مو ¿قف سامنے آیا کہ بل جلد بازی میں پیش نہ کیاجائے ۔
اگرچہ اِس کے بعدآنے والی ایک خبرکے مطابق ارکان سینٹ کی جانب سے اِس قسم کے بل پر تحفظ کے بعد اِنسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 ءمیں ترمیم کا ترمیمی بل 2010ء مزید غوروخوص کے لئے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو ترجیحی بنیادوں پر بھیجوادیاگیاہے۔تاہم اِسے بھی ہم ایک انتہائی حوصلہ افزاامرضرور قرار دے سکتے ہیں کہ اِس بل کے حوالے سے قائم مقام چیئر مین سینٹ جان جمالی نے خصوصی طور پر یہ ہدایت جاری کی ہے کہ کمیٹی آئندہ پیر کی شام تک اِس بل پر اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کرے تاکہ ایوان میں اِس پر بحث کے بعد اِسی سیشن سے اِس قانون کو پاس کیاجاسکے۔
اگرچہ پاکستان کو آج دہشت گردی سے متعلق درپیش چیلنجزسے نمٹنے کے لئے یہ ترمیمی بل 2010دس بھی کوئی اتنا زیادہ مو ¿ثر نہیں ہے مگر پھر بھی اِسے اتنا ناقص بھی نہیں کہاجاسکتا کہ اِس کے نکات کو ملک میں نافذالعمل کرکے اِس پر عملدرآمد نہ کرایاجاسکے اورقومی سلامتی اور خودمختاری کو یقینی بنانے کے لئے بہت ضروری ہے کہ ملک سے دہشت گردی اور دہشت گرد عناصر کے خاتمے کے لئے اِس قانون کو جلد ازجلد نافذکیاجائے تاکہ کراچی سمیت بلوچستان اور ملک کے طول ُارض میں آئے روز ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اوراندہولناک دہشت گردی کا خاتمہ بھی ممکن بناجاسکے۔
امرواقع یہ ہے کہ اِس پریشان کُن صورت حال میں اِنسدادِ دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل ملک کے عوام کے لئے اندھیرے میں ایک کرن کی حیثیت رکھتاہے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس بل میں شامل نکات سے نہ صرف ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوسکے گابلکہ اِس بل کے نفاذ سے اُن ملک دشمن عناصر کا بھی قلع قمع کیاجاسکے گا جو ملک میں دہشت گردی پھیلاکر پاکستان کی سلامتی اور اِس کے استحکام کے لئے ایک عرصہ سے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔اور یقینا اِس اِنسدادِدہشت گردی ایکٹ کے ملک میں نفاذ سے ملک میں اتحاد اور یکجہتی کا ایک ایسا عمل پیدا ہوجائے گا کہ جس کے ملکی سیاست پر مثبت اور تعمیری اثرات مرتب ہوں گے۔
یقیناآج ملک کے غیور و محبِ وطن حکمرانوںاور سیاستدانوں پر مشتمل موجودہ حکومت ......؟؟؟؟ا ور ملک کے ساڑھے سولہ کروڑ عوام اپنی تاریخ کے جس نازک ترین دور سے گزر رہے ہیںاگرہم ماضی میں جھانکیں توہمیں اِس کی مثال ملک کی 62سالہ تاریخ میںکہیں نہیں ملتی ۔جبکہ اِن حالات میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہر پاکستانی کواپنے ہر قسم کے ذاتی ، سیاسی اور مذہبی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کرصرف اور صرف ملک کی بقا و سا لمیت اور اِس کے استحکام کے لئے ہر فرد کو ایک پاکستانی قوم کی حیثیت سے سوچناچاہئے اور اِن حالات میںاِ سے اپنے اندر ملی یکجہتی اور اتحاد کا مظاہر ہ کرنا ہوگااوراِن لمحات میں، میں حقیر فقیر بے توقیر اپنے اہلِ وطن سے یہ کہناچاہوں گا کہ اِ س گھمبیر اور انتہائی کٹھن دور میںاگر ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اہلِ دانش سمیت عوام نے بھی اِس موقع پر صبروبرداشت ا ورتحمل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے تدبر اور فہم وفراست سے کام نہ لیااور اِن لمحات کا ڈٹ کرمقابلہ نہ کیا اور آپس ہی میںہم یوں ہی لڑتے رہے اور ایک دوسرے کو نیچادِکھانے اور سبقت لے جانے کے لئے آپس میں ٹانگیں کھنچتے رہے تو ہمیں یا د رکھنا چاہئے کہ ہمارا یہی بے حسی اور خود غرضی کا یہ عمل اور یہ رویہ ہمیں قصہ ¿ پارینہ بنادے گا اور پھر ہمارے ہاتھ سوائے پچھتاو ¿ے کے اور کچھ نہیں آئے گا۔تو ضروری ہے کہ ہم اور ہمارے حکمرانوں کو پہلے خود اپنے مسائل حل کرنے کی تدبیرکرنی چاہئے اور پھرجب خود سے کام نہ بنے تو عالمی برادری سے اپنے مسائل کے حل کے لئے مدد ضرورمانگنی چاہئے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved