اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-03222777698

Email:-azamazimazam@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔2010-08-04

توہمات میں مبتلاصدر اور میڈیا
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ محمداعظم عظیم اعظم
 
صدرکے پاس کون سے ہتھیار ہیں؟قوم جاننے کوبیتاب ہے؟
صدر اپنا ہتھیار استعمال کرکے کیا ؟اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور حکومت بچاپائیں گے.....؟
یومِ عاشورہ کے بلوائیوں پر پولیس گولی چلادیتی تو اتنی تباہی تونہ ہوتی.....؟

 
کہاجاتاہے کہ سچی اور کھری بات کہیں سے بھی مل جائے اُسے قبول کرنے میں تامل سے کام نہیںلینا چاہئے اور کیوں کہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر کامیاب آدمی نے اِسی کلیئے کو اپنی گِرہ سے باندھے رکھااور یوں وہ امر ہوگیامگر آج کا انسان اپنے جذبات کے ہاتھوں اتنا اندھاہوگیاہے کہ اُسے اَب کوئی اچھی بات بھی پسند نہیں آتی ہے اوروہ خوش فہمی کے ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوکر رہ گیاہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کہہ رہاہے بس وہ ہی حق اور سچ ہے اوراِس کے علاوہ سب جھوٹ اور غلط ہے۔
اور ساتھ ہی آج کے اِنسان کو دوسربڑاا مرض وہم کا لاحق ہے جس سے متعلق یہ مشہور ہے کہ اگر کوئی شخص وہم کے مرض میں مبتلاہوجائے تو پھر اِس مرض سے چھٹکارا بڑی مشکل سے ہی حاصل ہوتاہے ، اِس لئے بزرگوں نے فرمایاہے کہ وہم کا علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھااِسی وہم کے حوالے سے میں اپنی بات مزیدآگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹربراوئن کا ایک واقعہ بیان کرناچاہوں گاکہ ڈاکٹر براوئن کو ایک ایرانی نے بتایا کہ چلے کاٹنے والے تنہائی، فاقہ زدگی اور غیر معمولی توقعات کے باعث واہموں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اِسی حالت میں انہیں عجیب و غریب خیالی صورتیں بھی دکھائی دینے لگتی ہیں جنہیں وہ جن سمجھنے لگتے ہیںاور وہ بعد میں اِسی خوش فہمی کی وجہ سے یہ دعوے بھی کرتے پھرتے ہیں کہ جن اِن کے قبضے میں ہے۔اوروہ اِن جنوںسے جو چاہیں کرواسکتے ہیں حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوتاجیسا جو وہ سمجھ رہے ہوتے ہیںسِوائے اِن کے ذہنوں کے فتُور کے اور بس......
ایسی ہی کچھ کیفت آج کل ہمارے یہاں ایوان صدر اور ایک میڈیا کے خاص گروپ کے درمیان بھی پیداہوچکی ہے کیوں کہ ایوانِ صدر والے سچی اور کھری با ت کو سننا اوربرداشت کرناتو اپنی توہین سمجھنے لگے ہیں اور میڈیا ہے کہ جو اِس خوش فہمی میں کثرت سے مبتلا ہوچلا ہے کہ یہ جو کہہ دیتا ہے وہ ہوکر رہتاہے اور اِسی بنا پرطاقتور میڈیا اِس حکومت کے جانے کے دن گن رہا ہے یوں ایوان صدر اور میڈیا کے ایک خاص گروپ کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے دیکھیئے کہ یہ جنگ کہاں جاکر رکتی ہے۔
بہرحال! اِس طاقتور میڈیا گروپ جس سے آج ایوانِ صدر خوفزدہ ہے اِس کی مثال بھی اِس کے اِس حکومت سے متعلق تبصروں اور تجزیوں سے کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ ایک پیر دس عورتوں کو اولادِ نرینہ کا تعویذ دیتاہے نوکے یہاں بیٹاپیدانہیں ہوتا لیکن دسویں کے ہاں بیٹا پیداہوتو لوگ ناکامیوںکو بھولادیتے ہیں اور بیٹا پیداہونے کو پیر کی کامیابی قرار دیتے ہیں عوام کی یہی سادہ لوحی پیروں کے لئے سونے کی کان بن گئی ہے اور اِسی وجہ سے ہمارے ہاں پیر قدیم جادوگروں کی یادگار ہیں اِن کاکاروبار زیادہ ترحُب کے تعویذوں سے چلتاہے ۔اور اِسی طرح گزشتہ کئی سالوںسے اِس طاقتور میڈیا کا کاروبار بھی حکومتوں کے آنے جانے سے متعلق اِس کے نت نئے سیاسی تجزیوں اورتبصروں سے اُس پیر کے حُب کے تعویزوں کی طرح چل رہاہے۔جس یہ میڈیا سونے کی کان بن گیاہے۔
اوراِسی طرح ٹھیک ہے کہ اِس طاقتور میڈیانے ماضی کی حکومتوں کوجانے کے لئے ضرور دن گننے ہوں گے اور اُن حکومتوں میں سے کوئی ایک دو حکومت اِس کے اِس طرح دن گنے جانے اور اِس کے سچے اور کھرے تبصروں اور سیاسی تجزیوں سے چلی بھی گئی ہو گی تو اِس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ اِس میڈیا کی ہر بات ،ہربار اور ہر حکومت کے لئے درست ہی ثابت ہو اور ہر حکومت اِس کے بے لاگ تبصروں اور تجزیوں سے چلی بھی جائے ۔اوراِس پیر کی تعویذوں کی طرح درست ثابت ہوجنہیں پیرنو عورتوںکو بیٹے کے لئے دیتاہے مگر نوعورتیں کامیاب نہیں ہوتیں اور آخر کار دسویں عورت اِس پیر کے تعویذ سے بیٹا پیداکرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پیر کا اِس میں کیاکمال ہے کہ نوعورتوں کوتو اولادِ نرینہ نصیب نہیں ہوئی مگر دسویں کو بیٹا پیداہوگیا۔
بہر کیف!یہ بھی کتنا عجیب اتفاق ہے کہ وہ صدر جن کے پاس صرف سیاسی ہتھیار ہیں وہ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے اپنے ہتھیار کے استعمال کے بہانے کا وقت تلاش کررہے ہیںاور وہ اِس فِراق میں مبتلاہیں کہ یوں ہی اِن کی حکومت اور اِن کی ذات پر اَب کسی بھی جانب سے کوئی بھی وار ہوا اور اِن دونوں پر کسی نے بھی کاری ضرب لگانے کا ارادہ بھی ظاہر کیاتو وہ تُرنت(فوراََ) اپنے ہتھیار استعمال کرکے وہ کارنامہ انجام دے جائیں گے کے دنیاحیران ، پریشان اور ششدر رہ جائے گی ۔یہاں پاکستانی عوام اور سیاسی حلقوں کے لئے یہ نکتہ توجہ طلب ضرور ہے کہ ایک طرف تو ہمارے یہ صدر ہیں جن کے ارادے خطرناک معلوم دیتے ہیں اورجو ہمہ وقت تیار ہیں کہ اِنہیں اِن کے سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کا بس ایک بہانہ چاہئے تو پھر دیکھو کہ وہ اپنے اِن سیاسی ہتھیاروں کا استعمال کس طرح سے کرتے ہیں۔کہ جس سے آر یا پار ہوجائے گا۔
ایک خبر یہ ہے کہ اپنے اِن سیاسی ہتھیاروں کی موجودگی کا اظہار صدر مملکت آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوںاپنے ایک انٹرویومیں کچھ اِس طرح سے کیاکہ” میرے پاس سیاسی ہتھیارہیں جنہیں میں وقت آنے پر استعمال کروں گا“اور اِس کے بعد سے ہی قوم یہ جاننے کے لئے بیتاب ہے کہ صدرمملکت کے پاس ایسے کون سے خفیہ ہتھیار ہیں جن کا انہوں نے اِس طرح برملا اور کھل کر اظہار کرڈالاہے؟اور اِس کے ساتھی ہی قوم یہ بھی تسلی کرلیناچاہتی ہے کہ کیا میڈیااور ایوان صدر کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف تُوہمات کی جاری جنگ میں کون ؟، کون سا اپناآخری اور فیصلہ کن ہتھیار استعمال کرے گا؟ اورکیا صدراپنے اِن سیاسی ہتھیاروں کے فوری استعمال سے ایک میڈیا کی جانب سے مسلسل اپنی حکومت کی گرائی جانے والی مہم سے اپنی ساکھ اوراپنی حکومت کو بچاپائیں گے؟ یا اِس میڈیااور اپنی حکومت کے خلاف کی جانے والے سازشی عناصر کے خلاف اپنے سیاسی ہتھیار استعمال کرکے امر ہوجائیں گے؟میرے خیال سے تواِس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہی ممکن ہوسکے گا کہ کون کس ہتھیار کے استعمال کے بدولت فاتح قرار پاتاہے یاشکست اُس کا مقدر بنتی ہے ۔
جبکہ اُدھرکتنے افسوس کی بات ہے کہ کراچی میںیوم عاشورہ پرعزاداروں کے مرکزی جلوس کی حفاظت کے لئے تعینات فورسزکے وہ چاک و جوبند دستے جن میں رینجرزاور پولیس کے اہلکار وں کی بھاری تعداد شامل تھی اورجو اُس روز شرپسندوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے اور انہیںکچلنے کے لئے جدیدگنوںاور ہتھیاروں سے بھی لیس تھے اُس روز اِن سیکورٹی کے اہلکاروں کو دیکھ کرعوام میں یہ احساس پیداہوگیاتھاکہ ہماری سیکورٹی کے یہ اہلکار کیسے بھی خراب حالات میں عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کی بھی بازی لگانے سے دریغ نہیں کریں گے اور چاہئے اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران انہیں اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑجائے تو یہ اِس سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
مگر عوام کے اِن احساسات اورجذبات پر اُس وقت اُوس پڑگئی جب یہی پولیس اور رینجرز کے اہلکار عاشورہ محرم کے موقع پر اعزاداروںکے جلوس میں خود کش بم دھماکے کے بعد مشتعل افراداور شرپسندوں کو قہر وغضب میں مبتلادیکھ کر سرپٹ گھوڑوں کی طرح اپنی جانیں بچاکرخودہی بھاگتے نظر آئے اور کچھ دور جاکر یہ رینجرز اور پولیس کے اہلکار شرپسندوں کو تماش بین کی حیثیت سے دیکھتے رہے اور اپنے بھاری بھرکم اسلحے کے باوجود یہ فورسز کے اہلکار ایک گولی بھی نہ چلاسکے اور آنسوں گیس کاایک شیل بھی استعمال نہ کرسکے تو اِنہیںگولی چالانے کے اگلے حکم کے آنے تک دو سے تین گھنٹوں میں اِن سیکورٹی کے اہلکاروں کی لاچارگی کے باعث شرپسندوں کے حوصلے اور بلند ہوئے اور اِن پاکستان ،اسلام اورکراچی دشمن عناصر نے کراچی کی بڑی مارکیٹوں میں آگ لگا کر اِنہیں بھسم کردیا۔
اورپاکستان کے تجارتی حب کراچی کو اربوں ، کھربوں کا نقصان کرکے اپنے عزام کی تکمیل کے بعد سکون سے بڑے فاتحانہ مگر ناپاک جذبات کے ساتھ اپنے کمین گاہوں کو واپس لوٹ گئے اوراِس سارے عمل کے دوران وہاںموجود سیکورٹی فورسزکے اہلکار مجسمہ بنے اِن شرپسندوں کوجاتا دیکھتے رہ گئے۔
اگرچہ خبروںسے یہ بات بھی واضح ہورہی ہے اور اُس روز وہاں موجودلوگوں کا بھی یہی خیال ہے کہ یومِ عاشورہ پرخودکش بم دھماکے کے بعد مشتعل افراد اور شرپسند عناصر اُس وقت جب وہ کراچی ہی کیا پاکستان کی بڑی ہول سیل کی مین مارکیٹوں کو آگ لگارہے تھے اُس دم یہی موٹر سائیکل پرڈبل سواری پر سفرکرنے والوں اور راہ گیروں کوبلاوجہ پکڑکر تلاشی لینے اور اِنہیں رات دن تنگ اور پریشان کرنے پر معمور پولیس اور رینجرز کے اہلکار اپنے جانیں بچاکر بھاگنے کے بجائے بغیر کسی مصلحت کا شکار ہوئے شرپسندوں پر فائرنگ اور آنسووں گیس کے شیل ہی استعمال کردیتے اوراِن کی جانب سے ایک گولی ہی چل جاتی جس سے ایک دوشرپسنداور بلوائی اِن کی گولی کا نشانہ بنتاتو کراچی کی مارکیٹیں اِن شرپسند عناصر کے ہاتھوں جلنے سے تو بچ جاتیںمگراِن اہلکاروں کی جانب سے جب کسی بھی قسم کا طاقت اور قوت کا استعمال سامنے نہیں آیاتو اِس سے شرپسندوںکے حوصلے اور بڑھے اور انہو ں نے ایم اے جناح روڈ کی اِن مارکیٹوں کواپنے آگ و خون کے گھناونے عمل سے نشان عبرت بنادیااورآج ان مارکیٹوں کے وہ دکانداروںجن کے ہاتھ کبھی دینے والے ہواکرتے تھے اَب امداد لینے کے لئے پھیل ہوئے ہیںجن کی دکانوں کو آج اِن شرپسندوں نے سوچی سمجھی سازش کے تحت جلاکر اِنہیں ایک ایک کوڑی کابھی محتاج کردیاہے۔جنہیں سنبھلنے میں اَب کئی سال لگ سکتے ہیں۔
اگرچہ وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے سانحہ کراچی کے متاثرین کے لئے ایک ارب امداد دینے کا اعلان تو کیا ہے جومیرے مطابق اِن ارب پتی دکانداروں کے لئے اِن کے آنسوں پہچنے جیسے ٹِشوپیپرکی قیمتی جتنی بھی مدد نہیں ہے وزیراعظم صاحب !اِس قلیل امداد سے اِن متاثرہ دکانداروںکا کچھ بھی نہیں بننے گا اِن دکانداروں کی اگر حکومت کو مدد ہی کرنی ہے تومزید نوسے دس ارب کی اورامداد کرے توجس سے اِن چار ہزاردکانداروں کا کاروبار بھی چل پڑے گا اورتو اِن کے گھر کے چولہے بھی دھک اٹھیں گے۔
آخر میں میراحکومت کو ایک مخلصانہ مشورہ تو یہ ہے کہ وہ ایسے مواقعوں پر سیکورٹی کے اہلکاروں کو صورتِ حال دیکھ خود گولی چلانے کا اختیار دے کر حفظات کے لئے معمورکیاکرے یااگر حکومت ایسابھی نہیں کرسکتی تو پھرانہیں(رینجرز کے اہلکاروں کو) واپس سرحدوں پر بھیج دے جہاں وہ سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے دشمن پر گولی چلانے کے لئے تو آزاد ہوں گے ۔اورمحکمہ پولیس کے اہلکاروں کو بھی حکومت کو ایسے موقعہ کے لئے بغیر کسی کے حکم کے گولی چلانے کے اختیار دے کر حفاظت کے لئے بھیجاکرے اور اگر حکومت مصلحتوں کا شکار ہوکر انہیں یہ اختیار نہیں دے سکتی توپھریہ اِن بیچارے پولیس والوں کو کیوں نہتہ کر دشمنوںسے مقابلے کے لئے بھیجتی ہے اِس سے تو اچھا ہے کہ حکومت محکمہ پولیس ہی کوختم کردے۔تاکہ یہ بیچارے یوں ہی نہتے ہوکر اپنی جانیں تو نہ گنوائیں
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved