اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔29-06-2010

یہ سیاست دان نہیں یہ تسلی دان ہیں
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ

نذیر محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا اور گھر والوں کا پیٹ پالتا تھا اس کے 12بچے تھے اور آمدنی کا ذریعہ صرف مزدوری تھی ،اس کے پاس اتنا تو نہ تھا کہ وہ ان کو سکول بھیجتا ان کو پالنا ہی اس کے لئے بہت بڑا عزاز تھا ،بچے بڑے ہوئے وہ بھی مزدری ہی کرتے اور توکچھ تھا نہ ان کے پاس ،ان کی زندگی کیسے ہوئی ہوگی اس کا اندازہ آپ یو ں لگا سکتے ہیں کہ سب کے سب ان پڑھ تھے اور کسی قسم کا کوئی ہنر کوئی کام ان کے پاس نہ تھا مزدوری بھی کبھی ملتی اور کبھی نہ ملتی صرف اپنا گھر ہونے کی وجہ سے ان کو یہ فائدہ تھا کہ روکھی سوکھی کھا کر بھی سو جاتے ، اور اپنے بچوں کو اپنے دادا پڑھ دادا کی کہانیا سنا کر انہیں خوش کرتے، گاوں میں محلے میں معاشرے میں ان کا کوئی کردار بھی نہ ہوتا اور نہ ان کو کسی قسم کی کوئی بات کرنے کا یا کسی مسلے کو سلجھانے کا کوئی ڈانگ آتا ہاں ایک بات ہے کہ وہ بد اخلاقی میں ،آوارگی میں ،بدتمیزی میں بہت مشہور تھے سب ان کو نا لائق ،نا اہل اور بد اخلاق کہتے تھے ،مگر جب بھی ان سے یا کے کے باپ سے بات ہوتیں تو وہ ایک ہی قصہ لے کر بیٹھ جاتے کہ ہمارا داد اتنا بہادر تھا کہ زمانہ اس سے ڈرتا تھا ،انگریزوں نے اس کو اپنے علاقے کا نمبردار مقرر کر رکھا تھا ،ہمارے دادہ سارے گاوں کے فیصلے کرتے تھے ان کے قصے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں کہ جنگل میں شیروں سے لڑتے تھے ،وہ تین تین من کا وزن اٹھا کر گھنٹوں میں فلاں پہاڑی سے چڑھ جاتے ،یہ جو نہر آرہی ہے یہ ہمارے دادا کی گھودی ہوئی ہے ،یہ جو راستہ بنا ہوا ہے یہ ہمارے دادی نے بنایا تھا ،یہ جو مکان میں پورے پورے درخت لگے ہیں یہ اکیلے اٹھا کر لاتے تھے ،میرے داداکے بھائی نے ایک دفعہ اکیلے ایک بیل کو زبح کیا تھا اس زمانے میں سکول نہیں ہوتے تھے مگر مرے دادا پھر بھی آٹھ جماعتیں پاس تھے ،مگر جب کوئی ان سے یہ سوال کرتا کہ یہ تو آپ کے دادا کی کہانی ہے آپ کا کیا کمال ہے ،آپ نے کیا تیر مرے ،تو وہ یہی کہتے کہ ہمیں لوگ آج بھی دادا کی وجہ سے عزت کرتے ہیں ہم اس نسل سے ہیں جو کسی سے ڈرتے نہیں تھے ،پھر آپ ان سے سوال کرے کہ آپ اپنی کوئی خوبی بتا دیں تواس کے جواب میں وہ یہ کہتے کہ ایک دفعہ انگریز کی پولیس نے ہمارے دادا سے بدتمیزی کی تھی تو انہوں نے اسے اٹھا کر زمین پر مارا تھا ،۔نذیر اور اس کے خاندان میں اپنا تو کوئی کمال نہ تھا مگر وہ اپنے پچھلوں کے قصے سنا سنا کر اپنے دل کو تسلی دیتے اور یہ سوچتے کہ ہم بہت کمال کے لوگ ہیں ہم بہت بہادر ہیں شاید کہ ان کے پاس اس کے سوا اپنا کچھ نہ تھا،یہ بات مجھے اس وقت شدت سے یاد آتی ہے جب ہم سب مسلمان باحیثیت مسلم اپنے نبیﷺکی باتیں کر کر کے سب کو سناتے ہیں ،اپنے اولیاوں کے قصے سنا سنا کر خوش ہوتے ہیں ،اپنے اسلام لیڈروں کی داستانیں سنا سنا کر فخر محسوس کرتے ہیں اپنے مسلمان سائنس دانوں کی ذہانت کے کارنامے بیان کرتے ہیں مگر ایک لمحے کے لیے یہ نہیں سوچتے کہ یہ تو سب ٹھیک ہے مگر ہم نے کیا کیا ،ہم کتنے ان اولیاوں کے نقش قدم پر چلے ،ہم نے کتنا اپنے بنیﷺکی باتوں پر عمل کیا ،ہم کو یہ اساس تک نہیں ہوتا کہ دور حاضر میں ہمیں جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ ہم پوری نہیں کرتے اور یہ بڑے فخر سے کہہ دیتے ہیں کہ اسلام میں یہ ہے ،ہمارے بنی نے فرمایا کہ اگر میری بیٹھی بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم جاری کرتا ،مگر ہم خود تو اس پر عمل نہیں کر رہے ،ہم یہ بھی بڑاسر اٹھا کر کہتے ہیں کہ مسلمان سائنسدانوں کے یہ یہ کمالات ہیں مگر خود الف بے نہیں آتی ،انصاف کی بات کرتے ہوئے بھی ہم اپنے عمر فاروق ؓ کے قصے سناتے ہیں مگر جب اپنے انصاف کی باری آتی ہے تو ہم کچھ بھی نہیں کرتے یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہم اچھے ہیں یا وہ لوگ جو مسلمان تو نہیں مگر عمرفاروق کے قول و فعل پرعمل کرتے ہیں ،وہ لوگ جو مسلمان تو نہیں مگر نبیﷺکے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتے ہیں ،وہ لوگ جو مسلمان تو نہیں مگر قران و سنت کی ایک ایک بات پر عمل کرتے ہیں کون اچھا ہم یا وہ؟؟؟؟؟؟
یہ بات مجھے اس وقت اور بھی شدت سے یاد آتی ہے اور پھر شرم بھی آتی ہے جب موجودہ حکمران ایک ہی داعوہ کرتے ہیں کہ ہم پیپلز پارٹی کے لوگ ہیں ،ذوالفقار علی بھٹو نے قربانی دی ،بے نظیر بھٹو نے قربانی دی ہم اس پارٹی کے کارکن ہے جس کی قربانیوں سے ملکی تاریخ بری پڑی ہے مگر جب ان سے سوال کیا جائے کہ اپ نے اپنے قائد کی کس بات پر عمل کیا ،آپ نے اپنے قائد کے بتائے ہوئے کونسے طریقے اپنائے ،تو یہ پھر سے شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارا نعرہ ہیں روٹی کپڑا اور مکان ہم عوامی لوگ ہیں ،اپ ان سے پوچھے کہ آپ یہ بتائیں آپ کی جماعت نے کتنے لوگوں کو روٹی کپڑا مکان دیے ،تو یہ پھر سے شروع کریں گے کہ ہمارے لیڈر قائد ،کسی کے سامنے جھکے نہیں سرکاٹا دیا جھکایا نہیں ہمارے قائد نے امریکہ کو جواب دیا تھا، پھر ان سے یہی سوال کیا جائے کہ آپ پھر امریکہ سے ڈرتے کیوں ہو۔موجودہ حکمرانوں کی بد قسمتی دیکھیں کہ خود کچھ نہیں کرتے کسی بھی طرح سے قائد کی باتوں پر عمل نہیں کرتے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا یہ بس ایک ہی بات کہتے رہتے ہیں کہ ہم نے قربانیاں دیں ہم نے ماریں کھائیں،یہاں ایک بہت بڑا سوال عوام کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے کہ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ماضی میں کونسا لیڈر کیا تھا وہ کتنا اچھا تھا وہ کتنا کرپٹ تھا ان کو ایک ہی بات آتی ہے کہ ہمارے لیے کیا کیا جارہا ہے اور کیا کیا ہے ،ان کہ روٹی کپڑے کے نعرے کو عوام کیا کرے عوام تو بھوکی مر رہی ہے ،ان کے قائد خود انحصار تھے مگر کیا فائدہ موجودہ حکمرانوں نے تو بال بال ائی ایم الف کے قرضوں میں ڈبویا ہوا ہے ،ان کے قائد عوام دوست تھے تو کیا فائدہ یہ تو عوام کو نظر نہیں آتے ہیں ،یہ تو اسی عوام کا خون چوس چوس کر اپنی زندگی کی جڑوں کو پانی دیتے ہیں ، انہوں نے عوام کے لئے کیا کیا ہے ،اگر ہم اپنے نبیﷺکے اس قول کو دیکھے کہ جیسی قوم ہو گی اس پر ویسے ہی حکمران مسلط کیے جائیں گے تو بالکل سچ ہے کہ اس قوم میں اتنا شعور نہیں کہ ہم کردار کے مالک کو اپنا لیڈر نہیں بناتے بلکہ جو اچھی کہانی سنانا جانتا ہے اس کو اپنی تقدیر کا مالک بنا دیتے ہیں ،یہ چیلنج ہے کہ موجودہ حکمران اپنے اندر سے ایک بھی ایسی خوبی بتا دیں جو زوالفقار علی بھٹو ،قائد اعظم ،محمد علی جوہر ،لیاقت علی خان ،جیسے لیڈروں میں تھی ،آج یہ کس منہ سے ان کے قصے سنا سنا کر خود کو عوام کا لیڈر کہتے ہیں،کاش کہ عوام کو یہ سمجھ آجائے کہ یہ سارے اسی نذیر کے بچے لگتے ہیں جو دنیا جہاں کے نکمے ،نا لائق ،نا اہل ،بد معاش،بد اخلاق ،بد کردار ، آوارہ،چور،لہٹرے،کرپٹ،دھوکے باز،فراڈیے،قرض دار ،بھوکے ننگے، ہیں خود کچھ بھی نہیں کر سکتے اپنے گھر کی حالت تک نہیں بد سکتے مگر پھر بھی اپنے دادا کی کہانی سنا سنا کر اپنے آپ کو ایک تسلی دیتے رہتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں ۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved