اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔07-17-2010

یہی ہمارا المیہ ہے
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ
 
میرا ایک دوست پولیس میں تھا میں جب پہلیبار اس کے باس گیا تو اس نے میری بہت خدمت کی اور کسی قسم کی کوئی کیسر باقی نہ چھوڑی ،میں نے اس سے کہا کہ تم اپنا ہاتھ ہلکا رکھو ،اس نے کہا نہیں تم فکر نہ کرو میں کون سا تم کو اپنی جیب سے کھلارہاہوں میں نے اس سے پوچھا کہ کیامطلب اس نے کہا کہ دن کو میری ڈیوٹی ہی ایسی جگہ پر ہوتی ہے کہ میں اپنا سارا خرچہ پورا کر لیتا ہوں میں نے کہاکہ اس کامطلب یہ ہوا کہ تم رشوت لیتے ہو وہ بولا کہہاں لیتا ہوں میں نے اس سے کہا کہ تم دیکھنے میں اور باتیں کرنے میں تو بہت اچھے انسان لگتے ہو مگر پھر بھی رشوت لیتے ہو ، باتیں تو تمایمانداری کی اور انسانیت کی کرتے ہو پھر یہ ظلم کیوں کرتے ہو،اس نے ایسا جواب دیاکہ میں لاجواب ہو گیا اس نے کہا کہ میں نے پولیس میں بھرتی ہونے کے لئے بہت پاپڑ پیلے مگر مجھے کامیابی نہیں ہوئیمیں جب اس محکمے میں گیا تو پتہ چلا کہ یہاں پر کسی قسمکا کوئی میرٹ نہیں ہوتا یہاں صرف اور صرف پیسہ چلتا ہے اس نے کہاکہمیں نے کسی سے ادھار لے کر دو لاکھ روپے رشوت کے طور پر دیے تھے تب جا کر میرا انٹرویوں ہوا اور پھر جیسے جیسے اگے حالآتے گئے میرے پیسے لگتے گئے یہاں تک کہ میں نے میڈیکل پاس کر وانے کے بھی پیسے دیے ،اس دوران میں اتنا ٹھک گیا اور میرا یمان اتنا کچا ہو گیا کہمیں نے یہ سوچہ کہ یہ جو میںنے ادھار لیا ہوا ہے اس کو تو کسی نہ کسی طرح پورا کرنا ہے ،،مختصر کہ میں پولیس میں بھرتی ہو گیا اور میں نے سوچہ کہ جو ادھار میں نے لیا ہے اس کو پورا کرنا ہے کیوں کہ یہمجھ سے رشوت کے طور پر لیا گیا ہے اور اس کومیں اپنی حلال کمائی سے کیسے دونگا جب کہ میری امدنی بھی اس قابل نہیں کہ میں یہ سب اتار سکوں،یہ سوچ کر میں نے پہلے تو چھوٹے چھوٹے ہاتھ مارے جیسے جیسے وقت گزرتا گیا میرے ہاتھ بڑے ہوتے گئے میرا دل بے رحم ہوتا گیا۔کیوں کہ سب سے پہلے میرے سامنے ایک ہی ٹارگٹ تھا کہ میں نے دو لاکھ جو قسطوں پر لیا ہے وہ پورا کرنا ہے وہ دو لاکھ پورا ہوتے ہوتے مجھے اس کی ایسی عادت پڑھ گئی کہاب مجھے کوئی رشوت رشوت نہیں لگتی اور جب کوئی مجبور دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا وہ وقت یاد اتا ہے جب میرے پاس تمام چزیں پوری تھیں مگر میں نے لوگوں سے منت کر کر کے پیسے جمع کئے اور پھر پولیس کو رشوت دی ،اس نے اپنی کہنا سنانے کے بعد مجھ سے کہا کہ اگر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو تو آپ کیا کرو گے ،نوکری آپ کو حق ہے مگر جب حق رشوت سے ملے تو پھر آپ کیسے ر حم کر سکتے ہیں ،اس کیاس بات کامیں کیا جواب دیتا ،البتہ مجھے اس کی اس کہانی سے بہت سے جواب مل گئے ہمارا اکثر یہ شکوہ ہوتا ہے کہ یہ سیاست دان ،یہ امید وار ،یہ الیکشن لڑھنے والے اتنےبے رحم کیوں ہوتے ہیں اور ان کو عوام سے کیے وعدے کیوں یاد نہیں آتے ،یہ جھوٹبھی بولتے ہیں اور عوامکا حق بھی کھاتے ہیں اور کرپشن بھی کرتے ہیں ،انکے دل میں کسی قسم کی کوئی رحم نام کی چیز نہیں ہوتی یہ دنوں میں اپنے محل بنالیتے ہیں ،عوام ہمیشہ ان سے یہی شکوہ کرتی ہے کہ آپ نے عوام کا خون چوسہ ہے ،مجھے اب اس سوالکاجواب ملا کہ یہ سب کیوں ہوتا ہے ،جب کہیہاں پر بھی یہی کہا جاتا ہے کہ الیکشن لڑھنا ہر شہری کا حق ہے مگر ہر شہری ایسا کر نہیں سکتا کیوں کہیہ جو سیاسی پارٹیاں ہوتیں ہیں یہ بھی پولیس کا وہمحکمہ ہوتیں ہیں جو اندرون خانے اپنے کارکنوں کا لہو نچوڑتے ہیں اور کارکن کا اس حد تک مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ نہجماعت چھوڑ سکتا ہے اور نہ اس میں راہ سکتا ہے ،کسی ایک امیدوار کوٹکٹ دینے کے لئے سیاسی جماعت اس کیساریزندگی کی جمع پونجی لے لیتی ہے اس کو اتنا مجبور کر دیتی ہے کہ ایک نیاامیدوار یا کوئی پرانا جس کوٹکٹ دیاجائے اس کے تمام اثاثے جمع کر دیے جاتے ہیں اب یہ سب کچھ ایکامیدوار صرف اور صرف اسیامید پرکرتا ہے کہ جب میں کرسی پر بیٹھوں گا تو اس سے کئیں گناہ زیادہ پورے کر لوں کا ،ابھی ایکامیدوار الیکشن میں حصہ لینے کی تیاری ہی کر رہا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ اس نے کس کس طرح سے حکومت کے خزانے کو لوٹنا ہے کس کس طرح سے اس نے عوام کو دھوکا دینا ہے ،اور وہ یہ قسم کھا چکا ہوتا ہے کہ میں نے اپنی نسلوں کو پہلے سدھارنا پے پھر اس کے بعد عوامکا سوچنا ہے اور جب ایک سیاسی امید وار الیکشن جیت جاتا ہے تو پھر اس نے وہی کرنا ہے جو اس کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور اس کے سامنے کوئی عوام کا درد نہیں اس کے سامنے کوئی ترقی نہیں اس کے سامنے کوئی ملک کوئی فلاح و بہود نہین اس کا ایک ہیمشن ہوتا ہے کہ وہ جلد از جلد کرپشن کرے اور اپنے خزانے بھرے ،شروع شروع میں تو وہ کچھ عوام سے ملتا ہے کچھ انکے چھوٹے موٹے کام کرواتا ہے مگر جیسے جیسے وہ پرانا کھیلاڑی ہوتا جاتا ہے وہ عوام سے دور ہوتا جاتا ہے ایک سیاسیامیدوار کو کسی قسم کیمحنت کی ضرورت نہیں ہوتی اس کو یہ فن آنا چاہئے کہ جھوٹ کیسے بولا جاتا ہے اور عوام سے بچ کر کیسے نکلا جاتا ہے ،باقی سکول ،سڑکیں ،کالیجز،ہسپتال،اور اس طرح کے دیگر وعدے ،عوامکے ساتھ تعاون کے وعدے ان اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے وہ اپنا ایک گروپ بنا لیتا ہے جو سیاسی بنایات جاری کرتا ہے ،جو اس کے جھوٹ کا مسلسل سچ کہتا ہے ،جو اس کے نکمے پن کوکاممیں بدلتا ہے ،جو اس کی بے رحمی اور بے حسی کو عوام دوست ،اور ہمدرد کا دعوہ کرتا ہے ،یہ گروپ اس کے وہ چمچے ہوتے ہیں جن کاکسی نہ کسی طرح سے اس سیاست دان کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور یہ گروپ بے ضمیر اور بدمعاش ہوتا ہے اس کا کام بس جھوٹ بولنا اور چاپلوسی کرنا ہوتا ہے ،
یہ عوام کی سادی اور معصومیت ہوتی ہے کہ وہ بار بار ایک ہی سیاست دان کو اپنا لیڈر سمجھ کر اس کے گرد گھومتی رہتی ہے ،اور اصل میں سیاست دان صرف اس وقت سامنے آتا ہے جب الیکشن کے دن قریب ہوتے ہیں اور جب اسے ووٹ کی ضرورت پڑتی اور وہ ایک بار پھر عوام میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہے اور ائندہ دور کاایک نیاکھیل تیار کرتا ہے ۔یہی ہمارا المیہ ہے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved