اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔07-19-2010

 میں بھی کبھی جیالا ہوا کرتا تھا
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ

وہ ایک سیاسی نوجوان تھا اس نے اپنی ساری زندگی سیاست کی نظر کر دی اس نے اپنے بچے بیوی اور ماں باپ بھی سیاست کی نظر کر دیے اس کے بچوں کو کھانے کو چاہئے ،تھا سکول میں تعلیم چاہیے تھی اس کے والدین کو اس عمر میں اس کا سہارا چاہئے تھا مگر وہ ان سے کے لئے کچھ نہ کر سکا کیوں کہ وہ عمر جس میں اس نے کچھ بنا نا تھا وہ ساری زندگی اس نے سیاسی نعرے لگانے میں اور سیاست دانوں کی چاپلوسی کر نے میں گزار دی وہ سیاست میں اس حد تک متحرک تھا کہ اس کے حلقہ سے سیاسی امیدوار کو کوئی فکر نہ ہوتی کہ اسے کوئی شکست دے سکتا ہے کیوں کہ وہ عوام کو جمع کرنے کا اور عوام کو استعمال کرنے کا فن جانتا تھا مگر ایک کارکن کی حد تک اس سے اگے نہیں ،جب پہلی دفعہ اس نے اپنے حلقے سے اپنے امید وار کو جیتایا تو امیدوار نے اس کو کندوں پر اٹھا کر یہ علان کروایا کہ یہ میری نہیں اس کی جیت ہے ،پھر اسی کے بعقول کہ جب میرا امیدوار جیت کر کرسی پر بیٹھا تو میںعوام کے کچھ مسائل لے کر اس کے پاس گیا تو اس نے یہ جواب دیا کہ اس کو بیٹھاو اور کہو کہ میرا انتظار کرے میں ابھی مصروف ہوں ۔یہ وہی سیاست دان تھا جو اس کو کندوں پر اٹھا کر یہ علان کر رہا تھا کہ یہ جیت میری نہیں بلکہ اس کی ہے ،مختصر کہ اس نے اپنی ساری زندگی اسی امید پر گزار دی کہ میں بھی کبھی اگے آوں گا مگر اب وہ بے روزگار اور بے سہارا غربت کی زندگی گزار رہا ہے ،اس نے آدھی عمر پیپلز پارٹی کے نعرے لگائے ،کچھ نہ ملا آدھی عمر اس نے مسلم کانفرانس نے نعرے لگائے کچھ نہ ملا ،اب وہ مایوس ہو کر اپنے ماضی پر رو رہا ہے اس کے ہاتھ ماضی کی چند یادوں کے سوا کچھ نہیں ،وہ بہت عرصے بعد مجھے ملا میں نے اس سے اس کی مایوسی کا پوچھا تو اس نے کرسی پر ٹیک لگائی ،لمبی آہ بھری سیگریٹ سلگایا اور کہنے لگا کہ۔۔
عوامی مینڈیٹ کے نعرے لگانے والے،جمہوریت کا راگ الاپنے والے ،عوام کی عدالت کو اپنی آخری عدالت کہنے والے ،عوام کو طاقت کا سر چشمہ کہنے والے حکمران جنہوں نے روٹی کپڑا مکان کو اپنا ماٹو بنایا اور پھر اقتدار کی کرسی پر بیٹھ گئے ان کے دور حکومت میں مہنگائی نے پچھلے باسٹھ سال کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ،عوام جو مشکل سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیت محنت مزدوری کر کے پالتے تھے ،جو مشکل سے بچوں کو تعلیم دلاتے تھے ،جو مشکل سے اپنے بوڑھے والدین کی دوائیاں پوری کرتے تھے وہ اس حکومت کی پالیسیوں کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہو گئے کہ ان کو اب زندگی سے موت آسان لگتی ہے ،ان کو اب اپنے بچے بوجھ لگتے ہیں ،وہ اب والدین کی دعائیں لینے کے بجائے ان سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں ،یہ مہنگائی جس نے عوام آدمی کا جینا محال کر دیا جس نے عوام سے ایک وقت کی روٹی بھی چھن لی ،مگر ان حکمرانوں کو اس کا کبھی اندازہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہوگا کیونکہ یہ کبھی بھوکے نہیں رہے ،یہ کبھی مالی مشکلات کا شکار نہیں ہوئے ،ان کو کیا اندازہ کہ غریب کے مسائل کیا ہیں یہ تو اپنی میٹنگز میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کو کچھ بھی نہیں سوجھتا ،جس ملک کے وزیر اعظم یہ کہئے کہ بجلی کی قیمتوں میں صرف چھ فیصد اضافہ ہوگا اس سے ان کی سوچ کا ان کی عوامی ہمدری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ مہنگائی جس نے ایک عام آدمی کی زندگی اجیراََ کر رکھی ہے اس کے زمہ دار کون ہیں اگر ہم ایک جائزہ لے تو یہ پتہ چلے گا کہ اس مہنگائی کے پیچھے کسی قدرتی آفت کا ہاتھ نہیں اور نہ کوئی بین الااقوامی مسلہ ہے یہ ہمارے حکمرانوں کا خود پیدا کردہ اور خود اپنے خرچے پورے کرنے کے لئے سب مصنوعی مہنگائی ہے ،حکومت نے عوام کے چلنے پھر نے پر ٹیکس لگا دیا ہے ،ہر ماہ کبھی تیل مہنگاہ ،کبھی بجلی مہنگی ،کبھی گندم مہنگی یہ سب کچھ اس لئے کیا جاتا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات اس میں سے نکالتی ہے اور اس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے ،حکومت کے ادارے کسی بھی تاجر سے کسی بھی کاروباری ادارے سے کوئی کمیشن لے گے تو اس نے وہ پیسہ عوام سے پورا کرنا ہے ،جس کی وجہ سے دو سالوں میں چار سو فیصد مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے مگر ایک غریب کی آمدن میں ایک پائی بھی اضافہ نہیں ہوا ،حکومت جس بات پر شور مچا رہی ہے کہ اس نے مزدور کی تنخواہ سات ہزار کر دی ہے اس سے کوئی پوچھے کہ ایک فیملی کا بجٹ سات ہزار میں کیسے بن سکتا ہے کیا کوئی انسان سات ہزار میں زندگی گزار سکتا ہے پھر یہ کس بات پر خوش ہوتے ہیں ،دوسری بات یہ ہے کہ پورے ملک کے مزدورں کا سروے کیا جائے ان سے پوچھا جائے کسی بھی مزدور کو سات ہزار مزدوری نہیں ملتی یہ علان کر کے سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنے سارے فرائض پورے کر دیے ہیں جب کہ آج بھی ملک کے ہر شہر کے ،ہر صوبے کے ،ہر ضلع کے مزدوری کے ریٹ الگ الگ ہیں اس ملک میں تو مزدور پالیسی ہی ایک نہیں ہے اور کیا ہوگی ۔یہ ٹیبل پر بیٹھ کر چند فوٹو بنوا کر اور پریس کانفرنس کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بس سب کاموں سے بری الذمہ ہو گئے ہیں ۔
اس وقت ملک میں کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں جس کو دیکھ کر عوام یہ کہئے کہ کچھ تو عوام کے حق میں ہو رہا ہے سوائے اس کے کہ پی ٹی وی اور ریڈیو میں اپنی تعریفیں آپ کرنے کے اعلاوہ ،تقریریں کرنے سے ،بڑے بڑے بیانات دینے سے ،اور زور زور سے بولنے سے ملک کے حالات بہتر نہیں ہو جاتے ،مہنگائی ختم نہیں ہو جاتی اس کے لئے عملی کام کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لئے عوام کے اندر راہ کر عوام کے مسائل سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ،اس کے لئے درد دل رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ،ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے عدالتوں کا احترام کیا ہے ہم ان کے فیصلوں کو قبول کرتے ہیں اور پھر خود ہی ان کے فیصلوں کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں ۔عوام نے اس سے پہلے بھی بڑے بڑے ظالم حکمرانوں کا سامنا کیا ہے پھر ان کو معاف کیا ہے اگر موجودہ حکمران کچھ نہیں کر سکتے تھے اگر مہنگائی کو ہی کنٹرول کر لیتے تو شاہد عوام کو قبول ہوتی مگر ایسا نہ ہوا اب تو یوں لگتا ہے کہ سب کچھ حکومت کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے ان کا کہنا ہے کہ ابھی ہمارے تین سال باقی ہیں ہم کو موقع دیا جائے تو سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دو سال میں کچھ نہیں ہوا تو اب باقی کیا ہوگا ،دو سال میں بجلی کی لوڈشیڈنگ تین گناہ زیادہ ہوئی تو اب کم کیسے ہوگی ،وہ والدین جو اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح اچھے سکولوں میں پڑھاتے تھے اب انہوں نے بچوں کو سکول چھڑانا شروع کر دیے ہیں اب اس حکومت سے کیا امید کی جا سکتی ہے کہ یہ کوئی بہتری کریں گی ،یہ سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب حساب لیتے ہیں تو اس وقت وہ کسی کو نہیں دیکھتے اس سے پہلے بھی جس جس حکمران نے عوام کے ساتھ جھوٹ بولا ،عوام کو دھوکا دیا ،عوام کے خون کو نچوڑا اگر اس ملک کا قانون اس کو عبرت کا نشان نہ بنا سکا عوام اس کو کچھ نہ کہہ سکی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا میں ہی سبق سیکھایا اور اس کو عبرت ناک سزا دی اس لئے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اقتدار کی کرسی کے نشے سے اتر کر عوام کے دکھوں کو سمجھے عوام کی مشکلات کو محسوس کریں اور اپنے اختیارات جعلی ڈگریوں والوں کی حمایت کرنے پر ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ غریب عوام کے مسائل کو حل کرنے میں لگائیں تاکہ ان کا نام مستقبل میں اچھے لفظوں سے لیا جائے ورنہ ان کو بھی عبرت کا نشان بننے میں کوئی دیر نہیں لگے گی یہاں بڑے بڑے فراعون ،شادات،نمرود جیسے نہیں رہے یہ تو کچھ بھی نہیں ،اللہ کے عذاب دے ڈرو۔ یہ اس یاسین کے الفاظ تھے جو کبھی اپنے آپ کو پیپلز پارٹی کا جیالا کہلوانے پر فخر کرتا تھا۔یہ اس ملک کے لاکھو یاسین کی کہانی ہے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved