اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔07-21-2010

کیا انسان واقعی بے حس ہو گیا ہے
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ

آزادکشمیر کے ضلع باغ میں مظفرآباد روڈ پر ایک نالہ مال آتا ہے ، دوسال پرانی بات ہے کہ ایک شخص وہاں سے گزر رہاتھا اسے مال میں ایک عورت کی لاش نظر آئی اس نے اپنے ساتھ بندوں کو بتایا اور سب نے مل کر اس لاش کو پانی سے نکالااور اسے باغ تھانہ میںپولیس کے حوالے کیا ،لاش کس کی تھی ان کو اس کی پہچان ہو گئی تھی انہوں نے بعد میں ورثہ کو بتایاکہ آپ کی فلاں عورت کی ڈیڈ باڈی تھانے میں ہے ،ورثہ میت لینے تھانے گئے تو پولیس نے انہیں ڈیڈ باڈی دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم نے ابھی قانونی کاروائی کرنی ہے،قانونی کاروائی کیا تھی یہ ُاس نیکی کرنے والے نے بتائی ،کہ پولیس نے مجھے بولایا اور پوچھا کہ تمیں یہ لاش کہاں سے ملی ،اس نے کہا کہ میںنے بتایا کہ باغ شہر میں جا رہاتھا راستہ خراب تھا گاڑیاں نہیں چلتی تھی ہم چند بندوں نے پیدل نالے کو کراس کرنے کی کوشش کی تو یہ نظر آئی ،ہم نے اس کو نکالا اور آپ کے حوالے کر دیا ، پولیس کا دوسرا سوال تھا کہ یہ آپ کو ہی کیوں نظر آئی ،پھر سوال تھا کہ آپ وہاں کیا کر رہے تھے ۔آپ کو کیسے پتہ چلا کہ یہ لاش اس وقت یہاں ہوگی ،یہ سب سوال سن کر تو اس کا دماغ چکرا گیا اس نے کہا کہ مجھے یہ بتایا جائے کے میں نے کیا غلطی کی میں نے تو یہ کام نیکی سمجھ کر کیا میں اکیلا بھی نہیں تھا بلکہ میرے ساتھ بہت سے لوگ بھی تھے ہم سب نے مل کر اس کو نکالا ۔پولیس نے اس کی جان نہیں چھوڑی اور مسلسل اسے سوال پوچھتی رہی ،یہ سلسلہ دو تین دن تک جاری رہا کہ روز پیشی روز پیشی، اب وہ کیا جواب دیتا یہ تو سب کو پتہ ہے کہ درد دل رکھنے ولا کوئی بھی ہوتا وہ یہی کرتا ،دیہی علاقوں میں قبائلی نظام ہوتا ہے ، وہاں ایک آدمی تھانے نہیں جاتا بلکہ پورا گاوں اٹھا کر چلا جاتا ہے ۔ پولس نے اس کل پھر آنے کا حکم دیا ،وہ پریشان گھر پہنچا اس نے جا کر اپنی براردی سے یہ سب ذکر کیا کہ میں نے یہ کام کیا اور مجھے اس طرح پولس تنگ کر رہی ہے ،وہ سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے اس کی برادری ورثہ کے پاس گئی اور ورثہ سے کہا کہ اس طرح پولیس ہمیں تنگ کر رہی ہے کہ آپ نے ڈیڈ باڈی پانی سے کیوں نکالی ورثا نے کہا کہ ہم آپ کے مشکور ہیں ہم خود پولیس سے بات کریں گے ،ورثا کہ چند معتبر لوگ گئے انہوں نے جا کر کہا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے یہ عورت نالہ کراس کرتے ہوئے پانی میں بہہ گئی تھی ہم اس کی تلاش میں تھے ہم تو اس بندے کے مشکور ہیں ۔مگر پولیس نے پھر بھی سوال کئے ،جب کہ وہاں کی پولیس سب کچھ اچھی طرح جانتی تھی کہ یہاں کا نظام کیسا ہے اور آئے روز اس طرح کا کوئی نہ کوئی واقع پیش آتا ہے ،وہ جس نے اس عور ت کی چور چور ڈیڈ باڈی نکالی اور اپنی طرف سے انسانیت کا کام کرتے ہوئے اپنا فرض نبھایا اب اس نے دونوں کان پکر کر توبہ کی کہ میں نے زندگی میں کسی کے ساتھ کوئی نیکی نہیں کرنی خاص طور پر کسی حادثے میں کسی کو ہسپتال لے جانا ۔،یا کسی کو راستے میں ،کسی حالت میں دیکھ کر اس کو اس کے ورثا تک پہنچانا ۔یہ کوئی ایک واقعہ نہیں اور نہ ہی کوئی نئی بات ہے اس آدمی کی جان تو اس لئے بچ گئی کہ وہاں پر گاوں کے لوگوں نے اس کی مدد کی ۔اب یسے ہی واقعات پاکستان میں آئے روز ہوتے ہیں اور کوئی کسی کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتا ،اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ سینکڑوں لوگ ایسے ہیں جو دس دس سال سے تاریخیں بھگت رہے ہیں جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو انکے پاس یہی بات ہوتی ہے کہ ہم نے ایک زخمی کو ہسپتال پہنچایا تھا وہ تو مر گیا مگر ہم اس کی سزا کاٹ رہے ہیں، کوئی کہئے گا کہ میں ایک بے ہوش شخص کو اٹھا کر ہسپتال لایا تھا وہ تو چل بسا مگر میں آج بھی تاریخیں کاٹ رہا ہوں،اس طرح کے ان گنت واقعات ہیں کہ لوگ پولیس کے اور قانون کے اس اندھے پن کی و جہ سے ڈرتے ہوئے کوئی بھی حادثا ہو جائے اس کیطرف مڑ کر نہیں دیکھتے ۔
ہم جب آپس میں باتیں کرتے ہیں تو ہمارا یہی سوال ہوتا ہے کہ ہمارے اندر سے انسانیت ختم ہو گئی ہے ہم اب کسی کو مرتا بھی دیکھیں تو ہم بے رحم کی طرح منہ موڑ کر چلے جاتے ہیںاس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے انسانیت کو نہیں چھوڑا مگر قانون نے ،نظام نے اور یہاں کی پولیس نے ہم سے ہماری انسانیت بھی چھین لی ہم کو مجبور کر دیا کہ ہم تڑپتے ہوئے انسان کو دیکھتے ہوئے بھی اس کی مدد نہ کریں۔ پاکستان میں آئے روز کسی نہ کسی حادثے میں ،ایکسیڈنٹ میں لوگ مر جاتے ہیں اگر ان کو بر وقت کسی ہسپتال میں یا کسی کیئر سنٹر میں پہنچایا جائے تو ان کی جان بچ سکتی ہے مگر ایسا ہوتا نہیں لوگ جمع ہوتے ہیں آدمی وہی پڑا ٹرپتا رہتا ہے اور کوئی اس کو اٹھاتا نہیں لوگ پولیس کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور پولیس اس وقت آتی ہے جب انسان کی روح پرواز کر جاتی ہے اور پھر لوگ افسوس کرتے ہیں اور باتین کرتے ہیں کہ اگر اس کو اسی وقت ہسپتال پہنچایا جاتا تو یہ بچ جاتا ،مگر سوال یہ ہے کہ اس کو ہسپتا ل کون پہنچاتا ،اگر کسی سے پوچھا جائے تو یہی جواب ہوتا ہے کہ ہمیں قانون سے ڈر لگتا ہے اگر ہم اس کو لے بھی جاتے ہیں تو ڈاکٹر اس وقت تک اس کو ہاتھ نہیں لگاتے جب تک پولیس کی آیف آئی ار نہ درج ہو ،اس کو درج ہوتے ہوتے بھی انسان اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے ،اگر کسی قانون دان سے سوال کیا جائے تو وہ یہ کہتا ہے کہ قانون انسان کے تحفظ کے لئے بنایا ہے مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا تحفظ یہی کہ جب انسان مر جائے اس وقت اس کو دفن کر دو بس اتنا تحفظ،یہاں ایسی ایسی حیرت انگیز قانون کے اندھے پن کی کہانیاں ملتی ہیں کہ انسان کی عقل دھنک راہ جاتی ہے ،کہ کوئی چلتے ہوئے اپنی نظر بھی اٹھا لے تو وہ مجرم بن جاتا ہے ،اور جو انسایت کا قاتل ہوتا ہے جو انسان کو خون کرتا ہے جس کو سب دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں جان بھی رہے ہوتے ہیں اور سمجھ بھی رہے ہوتے ہیں مگر وہ بے گناہ ہی نہیں بلکہ وہ معصوم بن کر بری ہو جاتا ہے ،اگر ہم عوام کی رائے سننے اگر ہم عام ہمدرد آدمی کی بات سننے تو وہ ایک ہی بات کہتا ہے کہ یہ سب قانون انسان کے اپنے بنائے ہوئے ہوتے ہیں ،اگر عام آدمی کو پولیس کے اس عذاب سے نجات دلائی جا ئے کوئی انسان کسی دوسری کی مدد کرتا ہے اور اس کو سالوں تک پولیس کی انکوائری نہ بھگتنی پڑے تو عین ممکن ہے کہ ہر ایک نیکی کرنے میں پہل کرے مگر جب اس ملک کے نظام کو دیکھتے ہیں قانون کو دیکھتے ہیں تو ہر ایک نظر چرا کر اپنے ضمیر کا مجرم بنانا قبول تو کرتا ہے مگر وہ پولیس کا مجرم نہیں بن سکتا ۔اگر قانون دان چاہئےں تو اس تو تبدیل کر سکتے ہیں۔اور انسان کو اس کی انسانیت واپس لوٹا دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved