اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔08-08-2010

سوری بھائی یہ ملک آپ کا نہیں ہے
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ


ایک پیر درویش دریا کے کنارے بیٹھ کر اپنا چیلا کاٹ رہے تھے انکے ساتھ ہمیشہ دو تین چیلے بھی ساتھ ہوتے تھے۔پیر نے دیکھا کہ دریا میں ایک کمبل بہتا ہوا آرہا ہے انہوں نے اپنے چیلے سے کہا کہجاو اس کمبل کو نکال لاو ،چیلے نے کمبل لینے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی اور کمبل کو پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ کمبل نہیں تھا بلکہ ریچھ تھا ریچھ نے جب دیکھا کہ ایک بندہ اس کو باہر کھیچ رہا ہے تو اس نے اس آدمی کو پکڑ لیا اب اس آدمی نے اپنا آپ بچانے کے لئے باہر کی طرف کوشش کی مگر وہ جان چھڑانے میں نا کام رہا ،کچھ دیر گزری تو پیر نے اپنے چیلے کو آواز دی کے کمبل کو رہنے دو تم خود ہی واپس آجاو ،چیلے نے جواب دیا جنا ب میں تو کمبل کو چھوڑ رہا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا ،وہاں سے یہ کہاوت مشہور ہو گئی کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا،یہ کہاوت اس وقت استعمال ہوتی ہے جب کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلاہو اور وہ اس سے جان چھڑانا چا رہا ہو اور وہ اس سے جان چھڑا نہ سکے۔بطور قوم اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہمیں اپنی حالت بھی کچھ ایسی ہی نظر آئے گی ،ہر ایک یہ کہتا ہوا نظر آئے گا کہ میں اس نظام سے تنگ ہوں میں اس حکومت کو نہیں مانتا ،میں اس سیاست کو نہیں مانتا مگر اس کے باوجود بھی کہ سب کچھ عوام کے اپنے ہاتھ میں ہے وہ اس سے جان نہیں چھڑا سکتے ،ہر ایک کو یہ پتہ ہے کہ مہنگائی ،بے روزگاری،اور نا انصافی ۔کرپشن ،بد دیانتی اور کرپٹ سیاست دانوں نے اس ملک کو لوٹ کر کھا لیا ہے مگر اس کے باوجود بھی وہ اس سے جان نہیں چھڑا سکتے ،اس ملک کی عوام جس کا کہنا یہ ہے کہ ہم تبدیلی چاہتے ہیں مگر وہ تبدیلی لا نہیں سکتے ،اس کیسب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ عوام کمبل کو چھوڑنا چاہتی ہے مگر اب کمبل اس کو نہیں چھوڑتا،کسی قوموں پر کسی بھی قسم کا آزمائش کا وقت آنا کوئی نئی بات نہیں اور یہازمائشیں قدرتی آفات کی صورت بھی ہوتیں ہیں اور پھر حکمرانوں کی صورت بھی جو آزمائش یا مشکل وقت کسی آفات کی صورت میں آتا ہے اس کا مقابلہ ساری قوم مل کر کرتی ہے اس سے سے نکل بھی جاتی ہے ،جاپان کی اگر مثال لیں تو دوسری جنگ عظیم میں اس پر گریا جانے والا ایٹم بم کسی آفت سے کم نہیں تھا ،انسانی ذہن اس بات کو تسلیم نہیں کرتی تھی کہ یہ قوم دوبارہ کبھی سمبل سکے گی مگر جاپانیوں نے نہ صرف خود کو سمبالا بلکہ پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا ،اسی طرح دنیا کی تاریخ ایسے حادثات و واقعات سے بھری پڑی ہے کہ صفاءہستی سے قومیں مٹتی رہی اور پھر سے دنیا کے نقشے پر ابھرتی رہی ،مگر جب کسی قوم پر حکمران کی صورت میں کوئی آفت آجائے ،یا حکمرانوں کو عوام کے اوپر باطور سزا مسلط کر دیا جائے تو وہ کا حل کوئی قوم نہیں نکال سکتی ،تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے بربادی ،غلامی اوربے حالی اس کی دلدل میں دھنسنا اس کے نصیب میں لکھا جا چکا ہوتا ہے ،یہ بات بھی سچ ہے کہ ایک لمحے کی غلطی سے صدیوں کوسزا بھگتنی پڑتی ہے ،اس وقت ملک کی صور حال کو دیکھا جائے عوام کے شب وروز دیکھیں جائیں،عوام کی زندگی اور ان کی رائے سنی جائے تو یوں لگتا ہے کہ اس ملک کی عوام دنیاکی وہ بد قسمت عوام ہے جس پر ایک نہیں دو نہیں ہزاروں قسم کے امتحان ہیں ،ان میں دہشت گردی،کی جنگ الگ ہے ،بے روزگاری اور مہنگائی کا طوفان الگ ہے ،سیلاب اور قدرتی آفات کا سامنا الگ ہے ،لیڈرشپ کا نہ ہونا اور غلامی کی زندگی گزارنا ایک آزمائش ہے مگر سب سے بڑی اور مشکل آزمائش اس وقت اس قوم پر یہ ہے کہ اس پر مسلط حکمران اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑا عذاب ہیں۔یہ حکمران جن کے دل میں عوام کی ہمدردی نام کی کوئی چیز نہیں اور عوام کو کس طرح ختم کرنا ہے ان کی ایک ایک پالیسی سے یہ بو آتی ہے۔یہ الزام کسی پر نہیں کیونکہ یہ صاف بتایا گیاہے کہ جیسی عوام ہو گی ویسے ہی اس پر حکمران بھی ہونگے۔
ایک مزدوری کرنے والا ،ایک سڑک پر زندگی گزارنے والا بھی یہ جانتا ہے اور کہتا ہے کہ جس قوم کے لیڈر کے اندر خود انحصاری کی پالیسی نہ ہو وہ لیڈرشپ کبھی اپنے ملک اور اپنی عوام کو مشکلات سے نہیں نکال سکتی ،ہمارے لیڈر اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم نے قوم کے نام پر قرض لیا مگر یہ بتا سکتے کہ وہ قرض کہاں لگایا ،یہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم نے جو کام کئے اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ،یہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے آنے سے ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوا۔کیا یہ قوم کہ لئے ایک شرم اور ڈوب مرنے کا مقام نہیں کہ ملک میں لاکھوں متاثرین کے لئے پچیس لاکھ کی امداد کاعلان کیا جائے ،یہ پچیس لاکھ ان حکمرانوں کے ایک منٹ کا خرچہ ہے ۔خود عوامی رائے یہ ہے کہ یہ امداد اس ملک کی غریب عوام کے منہ پر تمائچہ نہیں بلکہ لات ماری گی ہے ۔عام آدمی کو اس کی اوقات دیکھائی گی ہے ،لاکھوں متاثرین ،اور کروڑوں کا نقصان ہوا غریب لوگوں کے گھروں کہ گھر پانی میں ڈوب گئے مگر افسوس کہ عوامی حکمرانوں کا یہ کہنا تھا کہ اس سے پہلے کبھی ایسا طوفان نہیں آیا اس لئے ہمارے پاس اس سے نمٹنے کے لئے بند وبست نہیں تھا۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم وہی کام کر سکتے ہیں جو پہلے ہوا ہو ،یا ہم اس مصیبت کا سامنا کر سکتے ہیں جو ہم پر پہلے آچکی ہو،ایسی کونسی مشکل ہے یا مصیبت ہے یہ ہمیں یہ بتا کر آئے کہ میں آرہی ہوں آپ بندوبست کر دینا ،کسی حکمران پر تنقید کرنا یا کسی کی اہلیت کو نشانہ بنانا عوام کے لئے ایسا ہی ہے جیسا کہ خود زہر کھا کر پھر جینے کی دعا بھی کرے ،چند لوگوں کا اس ملک کی ایک ایک انچ پر قبضہ ہے ،اس ملک کے تمام وسائل پرقبضہ ہے ،اس ملک کے تمام خزانوں پر قبضہ ہے ،یہ ملک جن کا ہے وہ چلا رہے ہیں ،اور وہ خوش بھی ہیں ،یہ ملک نہ میرا ہے نہ آپ کا ،ہم اس پر مر سکتے ہیں ،قربانی دے سکتے ہیں ،بھوکے راہ سکتے ہیں مگر ہم اس کی کسی چیز پر کوئی حق نہیں رکھتے ،اور اس وقت تک یہ ملک اس عوام کا نہیں ہو سکتا جب تک عوام قومی اور ملکی مفاد میں اپنا ووٹ استعمال نہیں کرتی ۔حکمرانوں کی یہ نا اہلیاں،لاپروائیاں،مہنگائی،بے روزگاری ،دہشت گردی،بد امنی،یہ سب ہم سب کا اپنا انتخاب ہے ۔جب تک عوام خود اپنی سوچ نہیںبدلتی ۔،مشکلات کی دلدل سے نکل نہیں سکتی۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved