اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔12-08-2010

احساسات سے محروم حکمران
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ

وہ کہنے کو تو زندہ تھا ،وہ دیکھ بھی رہا تھا ،سن بھی رہاتھا،اور سمجھ بھی رہا تھا، ایسے شخص کو سارے زندہ کہتے ہیں ،وہ کھاتا بھی تھا وہ سوتا جاگتا بھی تھا ،وہ باتیں بھی کر تا اور جواب بھی دیتا ،مگر یہ سب کچھ ہونے کہ باوجود اس میں ،جذبات نہیں تھے اس میں احساسات نہیں تھے ،وہ بے حس تھا ،اس پر کسی قسم کا کوئی حادثہ کوئی واقعہ کوئی چیز اثر نہیں کرتی تھی ۔اس پر نہ کوئی بات اثر کرتی اور نہ کوئی گرمی سردی،وہ اپنی دھن میں تھا اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ کون مر رہا ہے کون جی رہا ہے ،کون مشکل میں ہے کس کو کس چیز کی ضرورت ہے ،اسے یہ بھی سننے کو ملتا تھا کہ آج ماں نے اپنے بچوں سمیت خود کشی کر لی ،اسے یہ بھی سننے کو ملتا تھا کہ آج ایک باپ نے گھر کا خرچہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو پھانسی پر لٹکا دیا ،اسے یہ بھی پتہ تھا کہ حالیہ بارشوں سے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے ،کروڑو بے گھر ہو گئے ،اربوں کا نقصان ہو گیا ،آئے روز ملک میں ہونے والے بم دھماکوں کی خبریں بھی اسے سننے کو ملتی تھیں ،وہ مہنگائی اور بے روز گاری سے بھی واقف تھا ،وہ عوام کی غربت اور بڑتی ہوئی افلاس سے بھی واقف تھا ،مگر حیرت اس بات پر تھی کہ وہ زندہ تھا مگر یہ تمام حالات و واقعات اس پر کسی قسم کا کوئی اثر نہیں کرتے تھے وہ یوں کا توں رہتا اس کی سوچ میں اس کے خیالات میں کوئی تبدیلی نہ آتی،کہنے کو تو میں بھی ،ڈاکٹر بھی اور معاشرے کہ تمام لوگ بھی اس کو زندہ کہتے اور انسانوں کی صف میں اس کا شمار کرتے ،دیکھنے کو وہ ایک مکمل انسان تھا مگر اس کے اندر کا انسان مر چکا تھا ،اس کے جذبات ،اور احساسات مردہ ہو چکے تھے ،اس کا ضمیر سویا ہوا تھا یا پھر وہ بھی نیم مردہ حالت میں تھا ،یہی وجہ تھی کہ وہ کوئی ہمدردی نہیں رکھتا تھا ۔ وہ بس جیتا تھا یہاں ایک سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا یہ انسان زندہ تھا ،اگر زندہ تھا تو اس کو کسی بھی چیز کا اثر کیوں نہیں ہوتا ،اگر ہوتا ہے تو اس کے جذبات میں تبدیلی کیوںنہیں آتی ،یہ کیسا انسان ہے جو معاشرے میں تو رہتا ہے ۔دنیا سے باخبر ہوتے ہوئے بھی بے خبر ہے ،یہ کیسا زندہ شخص ہے کہ اس کے سامنے لوگ مرتے ہیں مگر اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا ،کیوں ؟؟ اس سوال کا جواب آپ مجھ سے بہتر دے سکتے ہیں ہاں میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ شاہد کسی نشے نے اس کے اندر کا انسان مار دیا ہو ،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ڈرگس نے اس کو زندہ تو رکھا ہو مگر اس کے تمام حساسات اور جذبات کو ختم کر دیا ہو، اب اس کو سوائے اپنی ذات کہ کچھ اور نظر ہی نہ آتا ہو۔یہ اپنی ذات کی حد تک تو ٹھیک ہے ،لیکن کسی دوسرے کا غم اس کو غم نہیں لگتا ،بات یہاں نشے کی ہوئی کہ اس کے اندر کاانسان کسی نشے نے مار دیا ،کیا واقعی نشہ اتنا اثرانداز ہوتا ہے انسان کی زندگی میں ۔نشہ کیا ہے یہ تو کسی بھی چیز کا ہو سکتا ہے ،چرس کا، سیگریٹ کا ،پوڈر کا،،دولت کا ،اقتدار کا ،کرسی کا ،پیسے کا،پروٹوکول کا،گاڑی کا ،ظلم کرنے کا ،نا انصافی کرنے کا ،تماشہ دیکھنے کا،آوارگی کرنے کا ، جھوٹ بولنے کا،سیاست کرنے کا ،وعدے کر کے توڑنے کا ،رشوت لینے کا ،کمیشن کھانے کا ،نشہ تو کسی بھی چیز کا ہو سکتا ہے ،اور جب انسان کسی نشے کا عادی ہو جائے تو وہ باہر کی دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے ،اسے سوائے اپنی ذات کے کچھ بھی نظر نہیں آتا ،وہ بے حس بھی ہوجاتا ہے ،وہ مردہ ضمیر بھی ،وہ ظالم بھی ہو جاتا ہے اور لاتعلق بھی ،وہ دیکھنے میں تو زندہ انسان ہوتا ہے مگر وہ اصل میں زندہ نہیں ہوتا ،اسی لئے کہتے ہیں کہ زندہ قوموں کی سب سے بڑی پہچان یہی ہوتی ہے کہ ان کی غیرت ،ان کا ضمیر ،ان کی سوچ ،ان کا دل ،ان کے جذبات سب زندہ ہوتے ہیں غریب ہونا کوئی جرم نہیں یہ ایک الگ بات ہے کہ کوئی قوم غریب ہے ،کوئی قوم کسی مشکل میں ہے اس سے اس کا وقار مجروع نہیں ہوتا مگر جب قوموں کہ اندر سے جذبات ختم ہو جائیں تو پھر وہ قومیں زندوں میں اپنا نام نہیں لکھوا سکتی ،جب کسی قوم کے لیڈر احساسات سے خالی ہو جائیں،جذبات ان کے سامنے کوئی معنی نہ رکھتے ہوں تو ان کی مثال بھی اس آدمی جیسی ہوجاتی ہے جو اپنے جسم کو ٹیکے لگا کر زندہ رکھتا ہے ،جو پوڈر کی ایک پڑیا پر خود کو زندہ رکھتا ہے اس کا کام ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح آپنا نشہ پورا ہوتا رہے ،ہم اپنے حکمرانوں کی طرز عمل کو دیکھیں ،ہم اپنے حکمرانوں کے کام دیکھیں ان کہ بیانات دیکھیں تو ایک نشوی میں اور ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ،یہ بھی اپنے اقتدار کہ نشے میں اپنی کرسی کے نشے میں عوام کے تمام مسائل بھول چکے ہیں ،عوام کی مشکلات ان کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتیں،بد حالی ،تباہی ،بے گھری ،عوام کا نقصان ،مرنا ،بیوہ ہونا ،یتیم ہونا ،گھر اجڑ جانا ،اور ایک عام انسان کی زندگی کا مہنگائی سے متاثر ہونا،بے روزگاری کی وجہ سے خود کشی کرنا اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں جو عام آدمی کو نظر آتے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کو لیڈروں کو سیاست دانوں کونظر نہیں آتے ،یہ بھی نشے میں ہیں انکے اندر بھی نشے نے گھر کر لیا ہے ،اس سے بڑی بے حسی کی ،ضمیر کے مردہ ہونے کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ یہ اس عوام سے مدد کی اپیل کرتے ہے جس کو انہوں کی زندہ رہنے کے قابل نہیں چھوڑا ،یہ اس عوام سے ایک وقت کے کھانے کی درخواست کرتے ہیں جس کوپہلے سے ہی نہیں ملتا ،مگر یہ خود ارب پتی ہیں ،یہ خود کھرب پتی ہیں مگر اپنی جیب سے ایک روپے کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتے ،ان کو تو مثال بننا چاہیے،یہ اگر اپنے کتوں کا خرچہ کم کر کے ہی سیلاب زدگان کی مدد کریں تو بہت سے گھرانے پل سکتے ہیں ،کیوں یہ خود غریب عوام کی مدد کیوں نہیں کرتے ،ان کو کسی کااحساس کیوں نہیں ہوتا ۔ان کو بھی بس نشے نے تباہ کر دیا ،باتیں کرنے سے ،لندن میں اربوں کا خرچہ کرنے سے،اور دوسرے کا نام لے لے کر جینے سے ،کبھی کوئی لیڈر اپنی قوم کو مشکل سے نہیں نکال سکتا جب تک کہ اس کے اندر کا انسان زندہ نہ ہو جب تک اس کا ضمیر زندہ نہ ہو۔جب تک وہ عوام کی مشکل کو مشکل نہ سمجھے اس وقت تک باتیں کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ،ہمارے لیڈران کو اب نشے سے باہر آنا چاہیے ۔عوام کے دلوں کی آواز سننی چاہیے ۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved