اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔15-08-2010

اگر ہم زندہ قوم ہیں
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ
 اس وقت پورا پاکستان سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات کی زد میں بھی ہے اس وقت ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ افراد اس سیلاب سے مٹاثر ہوئے ہیں اور اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے ،یہ سیلاب کی تباہ کاریاں تاریخ میں سب زیادہ ہیں ،سونامی ،ہیٹی ،اور 2005کے زلزلے سے کئیں گناہ زیادہ یہ نقصان ہوا ہے اور ابھی مسلسل ہو رہا ہے اس میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔مگر یہاں ایک بہر بڑا سوالیہ نشان ہے کہ اس دفعہ قوم میں جو بے حسی دیکھی گئی اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ماضی میں جب بھی پاکستانی قوم پر کسی قسم کی کوئی مصیبت آئی تو ساری قوم ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی ہے مگر اس دفعہ حکمرانوں نے تو بے حسی کے ریکارڈ توڑے ہی مگر قوم نے بھی مصیبت زدہ بھائیوں کو اکیلا چھوڑ دیا ۔ایسا کیوں ہوا اور اس کو جواب کیا مل رہا ہے ،سب سے پہلے تو وہ شخص جو کسی بھی طرح سے مشکل کی اس گھڑی میں مدد کرنا چاہتا ہے اسے یہ عتبار ہی نہیں کہ وہ جو مدد کرے گا وہ حق دار کے پاس پہنچے گی بھی کہ نہیں ۔دوسری بات یہ کہ حکمرانوں نے اپنا عتماد اس قدر کھو دیا کہ اب کسی کو یہ یقین ہی نہیں کہ حکمرانوں کی اکاونٹ میں جمع کی گئی رقم استعمال میں لائی بھی جائے گی کہ نہیں ،اور تیسری سب سے بڑی بے حسی کی وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے عوام کو اس قابل چھوڑا ہی نہیں کہ وہ کسی کی مدد کر سکیں۔مہنگائی اور کرپشن نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہ آدمی جو کبھی کسی کی مدد کرنے کے قابل تھا ان دو سالوں میں وہ ایک وقت کی روٹی تک مجبور ہو گئے ہیں ،جس کی وجہ سے عوام میں وہ جوش و ولولہ نہیں رہا جو ماضی میں ہوا کرتا تھا ،ہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ جو اس قابل ہیں کہ وہ مدد کر سکیں ان کو کوئی ایسا پلیٹ فارم ہی نظر نہیں آتا کہ وہ کس کو دیں اور کس کو نہ دیں ،میڈیا اپنی جگہ پر ایک رول ادا کر رہی تھی مگر حکمرانوں نے اس پر بھی پابندی لگا کر وہ کچھ بھی ختم کر دیا جو کچھ عوام کو دیکھنے کو ملتا تھا ۔یہ قدرتی آفت اس قدر تبایہ کن تھی کہ اس میں لوگوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے قیامت کے منظر دیکھیں ہیں ،یہاں سے اندازہ لگا لیں کہ گھر میں رہتے ہیں تو گھر گر کر مرنے کا خطرہ ،باہر نکلتے ہیں تو سیلابی ریلا بہا لے جاتا ہے ،کسی اونچی جگہ پر جاتے ہیں تو بارش اور بھوک سے مرتے ہیں یہ مجبور انسان جائے تو جائے کہا ں، اپنی ماں کو اپنے باپ کو سامنے بہتے ہوئے دیکھتے ہیں اپنے بچوں کو بچاو بچاو کی آوازیں لگاتے ہوئے سننتے ہیں،اپنءبھائیوں کو زندہ پانی میں ڈوبتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر مجبوری دیکھیں ان لوگوں کی کہ یہ کچھ بھی نہیں کرسکتے،یہی نہیں ان کے بچے ،بھوک سے بچتے ہیں تو ہضے کی بیماری سے مرتے ہیں،ہضے سے بچتے ہیں تو کسی اور وبائی بیماری سے مرتے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں ان کو کوئی بھر در نہیں ان کے پاس کچھ بھی نہیں کہ وہ انے والے کل کا گزارہ کر سکیں،رمضان کے روزے نہ سحریکو کچھ ملتا ہے نہ افطاری کو ،پانی ہے کہ سب کچھ بہا کر لے جارہاے مگر پینے کو ملتا نہیں۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ 20کلو آتے کی تھلی دوہزار کی ہے ،چینی دو سو روپے کلو ہے ،گھی دو سو روپے کلو مل رہا ہے ایسے میں کیسے زندہ رہا جائے ،حکومت بجائے عوام کے لئے کچھ کرنے کے اپنی آنا کے گرداب میں پھنسی اپنے گلے سے بدنامی کا طوق اتارنے کی کوشش میں اسے اور تو کوئی چیز نظر نہیں آتی بس میڈیا پر پابندیاں لگا دیتی ہے ،کرپشن کی یہ انتہا ہے کہ ملک میں ایک طرف تاریخ کے بد ترین تباہی ہو رہی ہے اور دوسری طرف حکمرانوں کو اپنے کمیشن جمع کرنے سے فرست نہیں ملتی،یہاں یہ بات بھی سوچنے والی ہے کہ ہمارے حکمران اپنی عوام کے ساتھ ان کی اصل صورت حال دیکھنے کے بجائے بیرون ملک جاتے ہیں یہ کہنے کہ ہماری مدد کی جائے ،جب کہ ان سے زیادہ بیرون ممالک اس بات سے اگاہ ہیں کہ تباہی کا سکیل کیا ہے ،وہ امداد جو کسی دوسرے ملک سے آتی ہے اس کو کوئی پتہ نہیں چلاتا کہ وہ کہاں گئی اور اس سے کس کی مدد کی گئی ،
ہاں یہاں ایک بات ضرور ہے کہ ہر کوئی اپنا اپنا کام کرتا ہے ،بچھو کا کام ڈسنا ہے اور مسیحا کا کام ،بچانا ،دونوں اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں،مخیر حضرات کو اس مشکل کی گھڑی میں اپنے بھائیوں کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے ،ان کو حکمرانوں کی طرف دیکھنے کے بجائے جس طرح بھی ممکن ہو سکتا ہے کسی ادارے کے تھرو،کسی این جی او یا پھر خود اپنی مدد آپ کے تحت ان کو مشکل میں پھنسیں لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔یہ بہت بڑی ازمائش ہے اس ملک کی حکومت کے لئے اور مخیر حضرات کے لئے کہ وہ اس مصبیت کی گھڑی میں کس حد تک کام آتے ہیں ،یہی وہ وقت ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کی مدد کر کے زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیں۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved