اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔23-08-2010

انسان کے روپ میں بھیڑیے
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ


پندرہ اگست 2010رمضان کا مہینہ ،صبع آٹھ بجے کا وقت تھا سیالکوٹ میں ہونے والے ظلم پر نہ آسمان رویانہ زمین پھٹی ،دو معصوم بھائی جن کی عمریں15اور18سال تھیں دوسرے گاوں کھیلنے گئے انہوں نے فجر کی نماز پڑی روزہ رکھا اور کرکٹ کھیلنے چلے گئے مگر ان کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ آج ان کا پالا سفاک اور جنگلی درندوں سے پڑے گا انہیں یہ بھی خبر نہیں تھی یہ دن ان کی زندگی کا آخری دن ہوگا ،ان کو اس بات کا علم بھی نہ تھا کہ سینکڑوں کی تعداد میں انسانی شکل کے ،بھیڑے ان کی موت کا جشن منائیں گئے اور انسانیت کی بدترین تذلیل کریں گے ۔ان کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ ان کے ساتھ آج جو کچھ ہونے والا ہے انسانی تاریخ میں کم ہی ہوتا یہ دو بھائی اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے یہ دو بھائی اور ان کی ایک بہن تھی ،ان کے ساتھ کیا ہوا میرے پاس اور نہ ہی اردو کی ڈکیشنری میں ایسے الفاظ ہیں کہ یہ بیان کیا جا سکے ،یہ دو بھائی جب وہاں کھیلنے گے تو گاوں کے خون خوار بھیڑے اپنا کوئی اور ظلم چھپانے کے لئے بس اس انتظار میں تھے کہ کوئی ہمارے سامنے آئے اور ہم اس پر ٹوٹ پڑے ،۔یہ دو بچے جن کے ساتھ کچھ پہلے بھی کھیل کی حد تک لڑائی ہوتی تھی مگر اس دفعہ جیسے ہی وہ گئے تو لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ ڈاکوں ہیں ،اور سار ا گاوں جو کہ اندھا تھا ان پر ٹوٹ پڑا اور ان دو بچوں کو مارنا شروع کر دیا ،ان کو ڈانڈوں سے مارا گیا اس بے دردی سے مارہ گیاکہ چھوٹا بچہ تو دس منٹ کے بعد ہی اللہ کو پیارا ہو گیا مگر بڑے بچے کو مسلسل دو گھنٹے تک مارتے رہے اور وہ ان کہ اگے ہاتھ جوڑتا رہا کہ ہمیں گولی مار دو مگر اس طرح نہ مارو لیکن ان خون خوار لوگوں کو ان پر کسی قسم کا کوئی ترس نہ آیا اور انہیں مارتے گئے ،اس دوران تماشا دیکھنے والوں میں گاوں کے سینکڑوں لوگ تھے ،پولیس کے ظالم اور سفاک انسان کا چہرہ لئے بیانک ڈاکو موجود تھے ،پاکستان میں ریسکیو میں اپنا نام بنانے والے 1122کے نمائندے موجود تھے مگر کسی کے دل میں اللہ کا کوئی خوف نہیں آیا وہ ظلم کرتے رہے یہاں تک کہ شطان بھی اس ظلم سے پناہ مانگنے لگا کہ ان بچوں کو مار مار کر ہلاک کیا گیا اور پھر ان کو سب کے سامنے الٹا لٹکایا گیا اور بیلچوں سے ان کے منہ پر مارا گیا ، پھر چھری سے ان کی رسی کو کاٹا گیا ،پھر ان کی آنکھوں میں سریے مارے گے ،اور پھر ان کو ٹرک کے ساتھ باندھ کر گھیسٹا گیا ،اور پھر ان کو پورے شہر میں گومایا گیا ،یہ ظلم ہوتا رہا انسانیت کی بدترین تذلیل ہوتی رہی انسانیت شرماتی رہی مگر بے حس ،ظلم ،اور درندہ صفت عوام ،پولیس اور ریسکیو والے تماشا دیکھتے گاڑی کے پیچھے پیچھے نعرے لگاتے چلتے رہے ،ان کے دل تھے یا کچھ اور پتھر بھی ہوتے تو پگل جاتے ،مگر وہ تھے کہ اپنے اس شطانی کارنامے پر ہنستے رہے اور نعرے لگاتے رہے ،ان بچوں پر سیالکوٹ کے درندوں نے الزام لگایا کہ یہ ڈاکو تھے ،مگر ان سب آندھوں ،ظالموں سے کوئی صرف اتنا پوچھ لیتا کہ کیا ڈاکوں کی یہی سزا ہے جو اپ نے ان بچوں کو دی ہے اگر یہی ہے تو اس ملک میں کوئی ایک شخص ایسا نکال کر دیکھاو جس نے ڈاکہ نہ ڈالا ہو ،یہاں تو ڈاکوں کی حکمرانی ہے ،یہاں تو ڈاکوں کا راج ہے یہاں تو سب چور ،ڈاکو ہیں ،پولیس سے بڑھ کوئی ڈاکو نہیں،یہ ظلم ابھی ختم نہیں ہوا اس سے آگے کیا ہوا ،سنیے؟
ان بچوں پر اتنا ظلم کیا گیا ان کو اتنا مارہ گیا ان پر انتے ڈنڈے اور بیلچے مارے گئے کہ جب ان معصوموں کی لعشیں گھر لائی گئی تو ان کی شکل پہچانی نہیں جا رہی تھی کہ یہ وہی بچے ہیں جو صبع سحری کھا کر روزہ رکھ کر گھر سے نکلے تھے ،یہ واقعہ 15اگست ،صبع آٹھ بجے کا ہے آٹھ سے لے کر گیارہ بجے تک مسلسل ان بچوں کا مارا جاتا رہا مگر میڈیا پر اس کی خبر پانچ دن بعد آئی اس سے پہلے وہاں پر کسی کے دل میں کوئی رحم نہیں آیا ،وہاں کا ڈی پی او ،وہ پولیس جو موقع پر موجود تھی ،وہ عوام جو اندھوں کی طرح تماشا دیکھ رہی تھی ،وہ سفاک بھیڑے جو ان بچوں کو مار رہے تھے یہ سب کہ سب اپنے اپنے کارناموں پر فخر کرتے تھے کہ ہم نے انسانیت کو بھی ،شیطان کو بھی اور بدنام زمانہ گونتانوبے جیل کے ظلم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ،مگر جب یہ خبر میڈیا پر آئی تو کچھ لوگوں کی انسانیت نے انگڑائی لی اور اس پر افسوس کرنے لگے ،چیف جسٹس نے اس کا سو موٹو ایکشن لیا اور فوری طور پر ڈی پی او سیالکوٹ ،اور ان ظالم پولیس آفیسران کو معطل کرنے کا حکم دیا اور ایک آفیسر کو اس واقع کی انکواری پر لگایا ،شہباز شریف نے وزیر اعظم گیلانی سے درخواست کی کہ ڈی پی او،کو معطل کیا جائے ،مگر ان سارے حکامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیف جسٹس کا حکم ماننے کے بجائے اس آفیسر کا تبادلہ کر دیا گیا جس کو چیف جسٹس نے نامزد کیا تھا ،وہ پولیس کے ظالم درندے جو ہفتے بعد گرفتار کئے گئے ان کو فرار کر وا دیا گیا ،پہلے تو گیلانی ڈی پی اوکو معطل نہیں کر رہا تھا مگر جب اس نے حکم دیا تو چند گھنٹے بعد ڈی پی او کو بھی فرار کر وا دیا گیا ۔یہ ظلم اور اس بربریت کو اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لئے اس کو سیاسی ایشو بنا دیا گیا ، انصاف کرنے کے بجائے اس کو سیاست کی نظر کر دیا گیا ،یہ اس سے بھی بڑا ظلم ہے کہ اس طرح کے ہونے والے ظلم کے بعد جب کسی کو انصاف نہ ملے تو پھر ان بھیڑیوں کو آزادی تو ملتی ہی ہے ،وہاں کی ظالم پولیس نے اور حکمرانوں نے جو تحقیقاتی کمیٹی بنائی اس میں ان ہی لوگوں کو شامل کیا گیا جو اس کو حل نہیں کرےں گے بلکہ ایک سیاسی ایشو بنا کر اس کو ٹال دے گے ،مگر ان ظالموں کو کیا پتہ اس ماں پر کیا گزری ہوگی جس کے دو لعل بغیر کسی وجہ کہ موت کے منہ میں چلے گے ،ان بچوں پر کیا گزری ہوگی جب ان کے سروں پر ڈنڈے مارے جا رہے تھے ،وہ لوگ صاف ویڈیوں میں نظر آتے ہیں وہ پولیس والے سب سامنے نظر آتے ہیں مگر پھر بھی ان کو تحقیقات چاہیے ،یہ ظلم کسی جنگل میں نہیں ہوا ،خواجہ آصف اسی حلقہ سے تعلق رکھتا ہے ،حسن اقبال اور فرودس عاشق بھی سیالکوٹ سے تعلق رکھتی ،یہ شہر علامہ اقبال کا شہر ہے آج علامہ اقبال کی روح بھی تڑ پ اٹھی ہوگی کہ میرے شہر میں یہ کیا ہو رہا ہے ،کہ انسانیت بھی تڑپ اٹھی مگر وہاں موجود سینکڑوں لوگوں کے دلوں میں اتنا احساس نہیں ہوا کہ وہ اگے بڑھ کر ان کو بچا ہی لیتے ۔اس ظلم کا انجام کیاہوگا۔ یہ تو اس ملک کے منصف جانتے ہیں مگر اس ظلم کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا کہ ہم پر عذاب کیوں آتے ہیں ،یہ کہنا کہ ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں ،یہ سوچنا کہ ہمیں اچھے حکمران کیوں نہیں ملتے اس طرح کے ہزاروں سوالوں کا جواب اس ظلم میں اور لوگوں کی اس بے حسی میں پولیس اور عوام کی سفاکی میں موجود ہے ،کہتے ہیں کہ کفر سے تو معاشرے چل سکتے ہیں مگر نا انصافی سے نہیں ،کاش کہ کوئی تو وہاں پر زندہ دل ،با ضمیر،خوف خدا رکھنے ولا ،کوئی تو انسان کا بچہ وہاں موجود ہوتا ،مگر وہاں سب انسان کا لبادہ اڑے بھیڑیے اور درندے تھے ،کیوں کہ پتھر پگل گئے مگر ان ظالموں کا دل موم نہ ہوا ۔تو پھر آفتیں نہ آئیں تو اور کیا ہو۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved