اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔12-09-2010

پولیس ڈرائیور کی سفاکی
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ
نو،ستمبر 29رمضان المبارک کا دن تھا ،نوید، اوراس کا چچا، نثار آزادکشمیر کے ضلع باغ کے شہر میں عید کی شاپنگ کرنے گئے ،وہ دونوں غریب فیملی سے تعلق رکھتے ہیں ، وہ مزدوری کرکے اپنے گھروالوں کا پیت پالتے ہیں ان کی عمریں تعلیم حاصل کرنے کی اور سکول جانے کی ہیں مگر حالات کی وجہ سے وہ مزدوری کرتے ہیں،ان کی شرافت کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے محلے میں بھی کسی سے اونچی اواز میں بات نہیں کرتے ،ان کا سارا وقت اپنے حلال روزگار کی تلاش میں گزرتا ہے ان کے پاس ایک ایک پائی اپنے خون پسینے کی حلال کمائی کی ہوتی ہے کیوں کہ ان کے پاس محنت کی کمائی کے سوا کوئی اور آمدن کا زریعہ نہیں ہے ،ان کی خوشیاں بھی اتنی بڑی نہیں ہوتیں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو پورا کرنے کے لئے وہ دن رات محنت کرتے ہیں، وہ خوشی خوشی اپنی حیثیت کے مطابق عید کی خریداری کر رہے تھے مگر انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ رمضان کے بابرکت مہینے میں بھی بے رحم ظالم، سفاک، بھوکے بھیڑیے بازار میں گشت کر رہے ہیں ، انہیں یہ بھی خبر نہ تھی کہ ان کی عید کی خوشیوں پرہاں گشت کرنے والی پولیس ڈاکہ ڈال دے گی،نوید جس کی عمر ابھی مشکل سے اٹھارہ سال بھی نہ ہوگی اس نے روزہ نہیں رکھا ہوا تھا یہ پانی پی رہا تھا کہ سندھن گلی سے تعلق رکھنے والا شفیق نامی پولیس ڈرائیور نے اپنے تین ساتھوں سمیت ان کو گھیرے میں لے لیا اور ان کو پہلے دھمکایا پھر تھپڑ مارے اور پھر ان کو تھانے بند کرنے کی دھمکی دی کہ آپ لوگوں نے روزہ نہیں رکھا ہے اس لئے آپ سزا کے حق دار ہو چلو تھانے میں تمیں مزا چکھاتا ہوں،نوید اور نثار دونوں سادہ تھے انہوں نے کبھی پولیس والے سے بات تک نہیں کی تھی انہوں نے سمجھا کہ ہم واقعی مجرم ہیں وہ دونوں تھانے جانے کے لئے تیار ہوگئے جب حرام کھانے والے پولیس ڈرائیور نے دیکھا کہ یہ تو تیار ہیں اور ہمیں حرام کھانے کو نہیں ملے گا تو ڈرائیور شفیق نے کہا کہ اگر تھانے گئے تو ایس، ایچ، او، کا پورے باغ کی رشوت کھا کر بھی پیٹ نہیں بھرتا ، تم کیسے بھرو گے اگر تھانے جاتے ہو تو میں تمہا را مار مار کے وہ حال کروں گا کہ تم زندگی بھر یاد رکھو گے ،تمارے پاس اتنے پیسے ہیں کہ تم ایس ایچ او کو رشوت دے سکو، تم اسے جانتے نہیں ہو ،پھر بے رحم راشی شفیق نے ان کو دھمکاتے ہوئے ان دونوں سے موبائل فون اور نقدی بھی چھین لی کہ یہ روزہ نہ رکھنے کی سزا ہے، اس کے ساتھ جو دوسرے گماشتے تھے انہوں نے بھی اپنی بدمعاشی کا روعب جماتے ہوئے ان کی جیبیں تک صاف کر لیں ،وہ یہ اصرار کرتے رہے کہ ہم غریب ہیں ہم عید کی شاپنگ کرنے آئے ہیں ،یہ پیسے ہماری محنت کی حلال کمائی ہےں ، مگر ظالم اور سنگدل ڈرائیور نے ان کی ایک نہ سنی اور ان کو دھکے دے کر یہ کہا کہ اگر زیادہ بولے تو تھانے میں جا کر تمہا را وہ حشر کریں گے کہ تم یاد رکھو گے وہ دونوں ڈر کے مارے خاموش ہو کر خالی ہاتھ گھر واپس آگئے ، ان ظالم راشیوں کو کیا پتہ کی حلال کمائی کیا ہوتی ہے ان کو کیا پتہ کہ کسی مزدور کی کمائی میں کتنا خون شامل ہوتا ہے،یہ تو درندے ہیں یہ درد اور احساس سے عاری ہیں، یہ سفاکیت ان راشیوں نے باغ شہر میں دن دھاڑے سینکڑوں لوگوں کے سامنے دکھائی ، مگر سفید خون والے انسانوں کو کیا پتہ کہ اس وقت ان دو بے گناہوں کے دل پر کیا گزری ہوگی جب ان سے ان کی معصوم خوشیاں چھینی گئی ہونگی ،ان خود غرضوں کو کیا پتہ کہ جب وہ گھر گئے ہونگے تو بہن بھائیوں نے ان سے پوچھا ہوگا کہ کیا لائے ہو تو انہوں نے کیا جواب دیا ہوگا ، اس سلسلے میں ،میں نے باغ تھانے میں نمبر ملانے کی کوشش کی مگر کسی نے بھی نمبر پک نہ کیا اور پھر میں نے ڈی ایس پی سے بات کی جب میں نے ان کو یہ سارا قصہ سنایا تو انہوں نے جواب میںیہ کہا کہ آ پ تھانے میں ایف آئی آر درج کروائیں، جب تک آپ رپورٹ نہیں کرے گے اس وقت تک ہم کچھ نہیں کر سکتے ،پھر میری بات شفیق پولیس ڈرائیور سے ہوئی جب میں نے اس سے سوال کیا تو اس نے فون بند کر دیا ،اور ایک دن بعد آن کیا تو بجائے میرے سوالوں کا جواب دینے کہ کبھی کہتا کہ آواز نہیں آرہی ،کبھی کہتا میری بات سننے ،اور ہلو ہلو ہی کرتا رہا کوئی جواب نہ دیا ۔ ان دونوں کو صرف اس لئے دھمکی دے کر اور تھپر مار کر لوٹا گیا کہ انہوں نے روزہ نہیں رکھا ہوا تھا ،مگر یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روزہ نہ رکھنے کی سزا کیا پولیس کا ڈرائیور شفیق اور اسے کے گماشتے دینے کا حق رکھتے ہیں ،مولانا شفیق سے کوئی یہ پوچھے کہ روزہ نہ رکھنے کی سزا موبائل اور نقدی چھینا ہوتا ہے ،کیا پولیس ڈرائیور مولانا شفیق نے کبھی اپنے گریبان میں جھانکا کہ وہ کتنے روزے رکھتا ہے کیا وہ یہ جانتا ہے کہ حقوق اللہ تو اللہ معاف فرما دے گا مگر حقوق العباد کی پامالی کرنے پر اس کی معافی ہو جائے گی،میرا سوال ایس ،ایچ او ،ڈی ایس پی،تھانیدار اور پولیس کے اعلیٰ حکام سے ہے کہ کیااس طرح سے شہریوں کو لوٹنا ان کو مارنا ،ان سے نقدی اور موبائل چھینا روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے ان کو تشدد کا نشانہ بنانا ، کیاکسی قانون ،کسی مذہب اور کسی انسانیت میں آتا ہے ،روزے تو صرف اور صرف اللہ کے لئے ہےں اس کا اجر اور اس کی سزا جزا کا فیصلہ وہی کر سکتا ہے مگر وہ کونسا قانون ہے ،وہ کونسی پالیسی ہے جس نے ایک ڈرائیور کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ جس کو چاہے روزہ نہ رکھنے کی یہ سزا دے۔اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ کوئی ایسا قانون بنا ہوا ہے جو ضلعی انتظامیہ نے اپنے طور پر بنایا ہے ،تو پھر بھی سوال یہ ہے کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کمزورں اور شریف النفس لوگوں سے نقدی اور موبائل چھین کر اپنی جیبیں گرم کی جائیں۔ڈی ایس پی کو اس کا نوٹس لینا چاہیے ان کو اس سارے معاملے میں اگاہ بھی کیا جا چکا ہے اور جو پولیس ملازم بھی اس میں ملاوث ہیں ان سے پوچھا جائے کیوں کہ شفیق یہ اقرار کر چکا ہے کہ میں نے نہیں بلکہ میرے ساتھ جو ساتھی تھے انہوں نے یہ سب کچھ کیا ہے اور ان لڑکوں سے نقدی اور موبائل چھینے ہیں۔اگر اس کا نوٹس نہ لیا گیا تو یہ باغ کی پولیس کے چہرے پر شہریوں کا لوٹنے اور حراساں کرنے کا منہ بولتا ثبوت ہوگا اور انصاف کے نام پر ایک بد نما داغ ہوگا ۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved