اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔22-09-2010

زرا غور کیجیے گا
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ

ایک صاحب بھاگتے ہوئے گاوں کہ نمبردار کے پاس آئے ،نمبردار نے پوچھا کہ کیا بات ہے تم اتنے جلدی میں کیوں ہو، کیا کہنا چاہتے ہو ،خیریت تو ہے ،وہ صاحب بولے جناب آپ نے سنا ہے کہ فلاں کمی کا بیٹا مدرسے سے عالم کی ڈگری لے کر آیا ہے وہ عالم بن گیا ہے اب ہمارے بچوں کو وہ پڑیا کرے گا،نمبر دار نے کہا کہ جاو پتہ کرو جس مدرسے سے اس نے عالم کی ڈگری لی ہے اس میں کوئی سید کا بیٹا بھی تھا ،وہ آدمی گیا اور پتہ کر کہ واپس آیا اور کہا کہ ہاں جی وہاں سے ایک سید کا بیٹا بھی عالم کی ڈگری لے کر فارغ ہوا ہے ،نمبردار نے کہا جاو ان دونوں کو بولاو،ان دونوں کو نمبردار کے سامنے پیش کیا گیا ،نمبر دار نے پہلے کمی کی لڑے کو اندر بولایا اور سب کے سامنے اس پر گن تان دی اور گالیاں دی اور کہا کہ تم نے معاشرہ خراب کر دیا ہے تم یہ کیا لوگوں کو درس دیتے ہو کہ اللہ ایک ہے ،سب اس پر ایمان لائیں ،اور تم یہاں پر کیا اسلام کی باتیں کرتے ہو ،تمکو مار دیا جائے گا تم اس قابل نہیں کہ اس گاوں میں رہ سکو یہاں وہی ہوگا جو میں کہوں گا ،کوئی کسی کو کچھ نہیں بتا سکتا،کمی کے بیٹے نے جب یہ سنا تو وہ ڈر گیا اس نے کہا کہ نہیں جناب میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی میں کسی کو خراب کرتا ہوں اگر آپ کہتے ہیں تو میں آئندہ کسی کو بھی کوئی بات نہیں بتاوں گا مجھے معاف کر دیں میں کسی کو اسلام کا اور اللہ کا درس نہیں دونگا،نمبر دار نے کہا کہ اس کو باہر لے جاو اور اب سید کے بیٹے کو لے آو،لوگوں نے ایسا ہی کیا اب سید کے بیٹے جس نے عالم کی ڈگری حاصل کی تھی پیش کیا گیا نمبردار نے اس سے بھی زیادہ سخت لہجے میں اس کہا کہ تم کو قتل کر دیا جائے گا تم نے معاشرہ خراب کیا ہے ،تم لوگوں کو کیا اللہ اور اسلام کا درس دیتے پھرتے ہو سید کے بیٹے نے جب یہ سنا تو وہ نمبر دار کے سامنے اکڑ گیا اور بولا کہ تم میرے جسم کی سو ٹکڑے بھی کر دو تو میں اللہ اور رسول ،اسلام کی باتیں کرتا رہوں گا اور سب کو سناوں گا ،تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے ،تم جیسے ہزار بھی آجائیں تو میں آپنا کام نہیں چھوڑوں گا ،یہ سن کر نمبر دار نے کہا کہ اصل عالم تو یہ ہے ،دین کا اور لوگوں کو درس دینے کا تو یہ حق دار ہے ،کمی کا لڑکا ڈگری تو لے آیا مگر اس میں وہ صلاحیت ہی نہیں اس میں وہ جرت اور اہمت ہی نہیں کہ وہ اسلام کو پھیلا سکے یا پھر حق اور سچ کی بات کر سکے ،لے جاو ان دونوں کو میں صرف یہ سب کو دیکھانا چاہتا تھا کہ اصل اور نقل میں کیا فرق ہوتا ہے ،
یہ سچ ہے اور ہمیں ان تمام سوالوں کے جواب اس میں مل جاتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اصل مسلہ کیا ہے ،ہمارے حکمرانوں کی اصل بیماری کیا ہے ہم کیوں کمزور ہیں ،ہم امریکہ کے اگے کیوں نہیں بولتے ،ہمیںاپنے ملک کی اور اپنی عوام کی حفاظت کی بات کرنا کیوں نہیں آتی ،کہ جب طاقت کسی کمی کے ہاتھ چلی جائے تو وہ اس کا استعمال نہیں کر سکتا ،جب دولت کسی بیکاری ہاتھ لگ جائے تو وہ اس سے تعمیر و ترقی کہ کام نہیں کر سکتا ،جب اقتدار کسی عیاش کے پاس ہو تو وہ سنجیدہ کبھی نہیں سوچتا ،جو لوگ اصل حقدار تھے اور جن کو اس ملک کی بھاگ دوڑ سمبالنی چاہیے تھی وہ تو اس ملک میں نظر نہیں آتے اور وہ جن کو کئیں اور ہونا چاہیے تھا وہ اس ملک پر اس کی ایک ایک انچ پر قابض ہیں اور بات وہی ہے کہ جب امریکہ نمبردار ان کو بند کمرے میں بولا کر یہ کہتا ہے کہ تم نے اسلام کو غلط پھیلایا ہے ۔تم نے اپنی عوام کے حق میں بات کر کے غلط کیا ہے ،تم نے ملک میں ترقی کا نام لے کر عوام کو گمراہ کیا ہے تو یہ سب ہاتھ جوڑ کر اس کے اگے کھڑے ہو جاتے ہیں اور معافیاں مانگنا شروع کر دیتے ہیں ،جب یہ ڈرون حملوں کے روکنے کی بات کرتے ہیں ،جب یہ بے روزگاری ،مہنگائی اور غربت کی بات کرتے ہیں،جب یہ کرپشن اور لوٹ مار کی بات کرتے ہیں تو امریکہ نمبر دار فوراََ ان پر کوئی نہ کوئی الزام لگا کر ان کو دبا دیتا ہے اور یہ پھر اپنا سر اس کے قدموں میں رکھ دیتے ہیں ،دنیا میں طاقت ،اقتدار ،اور دولت جس جس ملک میں بھی خاندانی لوگوں کے ہاتھ ہے وہاں پر انصاف بھی ہے امن بھی اور غرت بھی ،ان ملکوں میں انسانیت بھی ہے اخلاق بھی اور عوام کی قدروقیمت بھی ،جب کوئی چیز کسی بھی غلط ناتجربے کار اور غیر سنجیدہ کے ہاتھ لگ جائے تو اس کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو اس وقت ہمارے ملک میں اقتدار کی کرسیوں کے ساتھ ہو رہا ہے ،جو اس وقت ہمارے ملک میں عوام کے حقوق کے ساتھ ہو رہا ہے جو اس وقت ہمارے ملک میں اشیاءخورونوش کے ساتھ ہو رہا ہے جو اس وقت سیلاب سے متاثرہ بے گھر ،بے بس ،مجبور عوام کے ساتھ ہو رہا ہے ، جو ہمارے ملک کے غریب عوام کی دولت کے ساتھ ہورہا ہے ،جو یہاں محکموں کے ساتھ ہو رہا ہے ،جو یہاںمیرٹ کے ساتھ ہو رہا ہے جو یہاں غریب کی صلاحتوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اور اگر عالم کی ڈگری کسی سید کے پاس ہو ملک کا اقتدار اور دولت کسی خاندانی کے پاس ہو تو۔ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ایران کی طرح ایک وقت کی روٹی تو قبول ہے مگر کسی کی غلامی نہیں،امریکہ کی دھمکیاں اور بے حس عالم کی پابندی قبول ہے مگر کسی کافر کی اجارہ داری نہیں ،پھر عوام میں بھی جذبہ ایثار ہوتا ہے ،پھر ملک میں امن بھی ہوتا ہے اور انصاف بھی ،پھر انسانوں کو حق بھی ملتا ہے اور روزگار بھی ،پھر کھانے کو روٹی بھی ملتی ہے اور سر پر چھت بھی ،پھر تعلیم بھی حاصل ہوتی ہے اور اخلاق بھی ،پھر سیلاب اور قدرتی آفات کے نام سے حاصل ہونے والا فنڈ بھی اصل جگہ پر لگتا ہے ،پھر تعمیر بھی ہوتی ہے ترقی بھی ،پھر دیانت داری بھی ہوتی ہے اور ایمانداری بھی مگر جب چور ،لٹہرا، عیاش،اور ظالم،گھر کا چوکیدار ہو تو پھر اس ملک کے ساتھ وہی کچھ ہونا ہے جو ایک کمی نے عالم کی ڈگری کے ساتھ کیا ،جو ہمارے ملک میں عوام کے ساتھ ہو رہا ہے ،جس دن اقتدار کسی دیانت دار کے ہاتھ اگیا اس دن اس ملک کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved