اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔27-09-2010

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سزا کیوں ہوئی
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ
ایک شیرنی نے دو بچوں کو جنم دیا اور وہ فوت ہو گئی شیر نے جب یہ دیکھا کہ شیرنی فوت ہو گئی تو وہ بہت پریشان ہوا کہ اب یہ بچے کیسے پلے گے اور ان کا کیا ہوگا ،وہ اسی پریشانی میں تھا ،کہ نہ یہ بچے شکار کر سکتے ہیں اور نہ میں دوھ پیلا سکتا ہوں اسی پریشانی میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ایک بکری آئی اس نے شیر کے بچوں کو اپنا دوھ پیلانا شروع کر دیا شیر یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ میرا مسلہ حل ہو گیا ،بکری روزانہ اپنے وقت پر آتی اور آکر شیر کے بچوں کو دوھ پیلا کر چلی جاتی شیر دن بھر شکار کرتا اور بچوں سے بے فکر رہتا ،یہی سلسلہ چلتا رہا اور شیر کے بچے جوان ہو گئے اس قابل ہو گئے کہ وہ اپنا شکار خود کرنے لگے شیر کے بچے روزانہ جاتے اور شکار کر کے اپنا پیٹ پالتے ایک دن شیر کہ بچوں کو شکار نہیں ملا تو وہ پریشان ہو گئے کہ آج کیا کھایا جائے اور کس طرح اپنا پیٹ پالا جائے یہی سوچ رہے تھے کہ ایک بچے نے کہا کہ پریشانی کس بات کی بکری روزانہ ہمارے پاس آتی ہے ہم آج اس کا شکار کرتے ہیں اور اپنا پیٹ بھرتے ہیں دونوں نے یہ طے کر لیا کہ آج بکری کا شکار کیا جائے گا جب بکری آئی تو شیر کے بچے اس پر حملہ کرنے والے تھے کہ شیر پہنچ گیا اس نے بچوں سے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آج بکری کا شکار کریں گے اس پر شیر نے انہیں کہا کہ نہیں تمیں اس کا شکار نہیں کرنا چاہیے اور تم کو شرم آنی چاہیے کہ اس نے تماری زندگی بچائی اس نے تمیں دوھ پیلایا اور تم آج اسی کا شکار کر رہے ہو شیر نے کہا کہ اس کا صیلہ اس کو ملنا چاہیے جاو جنگل کے تمام شیروں کو بولاو اور ان کو جمع کر و سب شیر جب جمع ہو گئے تو شیر نے بکری کو اپنے کندوں پر اٹھایا اور اس کو ایک بلند مقام پہاڑی پر اعزازی طور پر لے گیا اور کہا کہ اب تم یہاں رہو گی تمارے کھانے کا بندو بست میں کرو گا ،شیر نے بکری کو کندے پر اٹھایا ہوا تھا کہ ایک باز اڑتا ہو جا رہا تھا اس نے یہ منظر دیکھا تو حیران راہ گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ شیر اور بکری ایک ساتھ اور وہ بھی شیر کے کندوں پر باز نے بکری سے پوچھا کہ تم کو یہ عزاز کیسے ملا اس پر بکری نے کہا کہ یہ سب نیکی کا صیلہ ہے ،باز یہ سن کا چلا گیا وہ جا رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ دریا میں ایک چوہا پانی میں بہے جا رہا ہے وہ اپنی زندگی بچانے کی کوشش کر رہا ہے مگر وہ بچا نہیں سکتا باز کو بکری کی بات یاد آئی اس نے چوہے کو پانی سے نکالا اور اس کو دھوپ میں رکھا کہ یہ بچ جائے ،چوہے کو جیسے ہی جان آئی اس نے دیکھا کہ ایک باز پاس بیٹھا ہے اس نے باز کے پر کاٹ دیے باز اڑنے سے معزور ہو گیا ،کچھ دن گزرے باز کے پر واپس آئے تو وہ اڑا اور سیدھا بکری کے سر پر بیٹھ کر بولا کی میں تماری آنکھیں نکالوں گا بکری نے پوچھا کہ کیوں،، باز نے کہا کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا کہ مجھے یہ بلندی نیکی کی وجہ سے ملی ہے تمارے کہنے پر میں نے نیکی کی تو میرے اس کے بدلے میں پر کاٹ دیے گئے ،بکری نے کہا کہ روکو پہلے یہ بتاو کہ تم نے نیکی کس کے ساتھ کی باز نے کہا کہ چوہے کے ساتھ ،بکری نے لمبی سانس لی اور کہا کہ کسی خاندانی کے ساتھ نیکی کرتا تو یہ صیلہ نہ ملتا تم نے جس کے ساتھ نیکی کی اس نے یہی کچھ کرنا تھا۔
ہم اگر اپنے گھر سے ،معاشرے سے ،گلی کوچوں سے باہر نکلے تو ہمیں ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ ہم آج اتنے غیر محفوظ کیوں ہیں ہم آج اتنے عدم تحفظ کا شکار کیوں ہیں ،جبکہ ہمارے لیڈر بھی ہیں ،ہمارے حکمران بھی ہیں ،ہمارے بادشاہ بھی ہیں ،ہمارے ادارے بھی ہیں ،ہمارے قانون بھی ہیں ،ہمارے اصول اور ضابطے بھی ہیں مگر ان سے کے باوجود بھی ہم ایسا کیوں محسوس کرتے ہیں کہ ہم بے یار و مدد گار ہیں ،ہم لاوارث ہیں ،اگر دیکھا جائے تو جب ایلکشن ہوتے ہیں تو ہم اپنی جانوں پر کھیل کر اپنے حکمرانوں کو ووٹ دیتے ہیں ،ہم اپنے کاروبار تباہ کر کے اپنے نمائندے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں ،ہم اپنا گھر بار لوٹا کر ان سیاست دانوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر پھر بھی ایسا کیوں ہے کہ ہمیں ان سے ہی ڈر لگتا ہے ہم ان کے سامنے نہیں جاتے کہ شاید انصاف اور حق مانگتے مانگتے ہم زندگی سے ہی ہاتھ نہ دھو بیٹھے ، ایسا کیوں ہے اور حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ہم بار بار ایسا کرتے ہیں اور بار بار ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے ،اس وقت اس قوم کی بیٹی اس ملک کی عزت ڈاکٹر عافیہ جس کو امریکہ نے بھونڈے الزامات لگا کر 86سال کی سزا دی مگر کمال ظرف دیکھو اپنے لیڈروں کا کہ یہ ٹس سے مس نہیں ہوئے کیوں کیا وہ پاکستانی نہیں تھی کیا وہ انسان نہیں تھی ،کیا اس پر لگنے والے الزامات سچ تھے ،مگر اس کے باوجود بھی حکومت بہت کچھ کر سکتی تھی مگر اس نے نہیں کیا ،سوال صرف یہ ہے کہ اگر عافیہ پاکستانی نہ ہوتی کسی اور ملک کی شہری ہوتی تو کیا وہ اسی طرح خاموش رہتا ،ہرگز نہیں ،اس وقت تک امریکہ نے دنیا میں کتنے ممالک کے شہریوں کو سزا دی ہے کتنوں کو مارہ ہے ،مگر جب بھی ہمارے حکمرانوں اور شہریوں کی بات آتی ہے تو ایمل کانسی سے لے کر ڈاکٹر عافیہ تک سارے زخم تازہ ہو جاتے ہیں کیوں ،یہ سب صرف اس قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ،تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ ووٹ ،دیتے وقت ،لیڈر بناتے وقت ،اقتدار کی کرسی پر بیٹھاتے وقت ،ایوانوں کے اندر پہنچاتے وقت شیر اور چوہے کا فرق دیکھ لیا ہوتا تو آج ہم بلندی پر ہوتے، نہ کہ اپائنچ ہو کر بیٹھے ہوتے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved