اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔05-10-2010

غلام حکمران،یا عیاش
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ

،
جب میں نے پہلی بار یہ بات سنی تو مجھے ہنسی بھی آئی اور یہ بات میری سمجھ میں بھی نہ آئی ،میں میٹرک کرنے کے بعد ٹکسیلا میں اپنے ماموں کے پاس گیا وہ مجھے روزانہ ٹکسیلا میوزیم پر لے جاتے اور وہاں کی ہسٹری بتاتے ایک دن انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمیں پتہ ہے کہ یہاں کہ لوگ پیسے کیسے کماتے ہیں میں نے کہا یہی کام وغیرہ کر کہ ،انہوں نے کہا کہ نہیں تم سنو گئے تو حیران ہو جاو گئے میں نے پوچھا کہ کیسے تو کہنے لگے کہ یہاں کے پرانے لوگ کچھ مورتیاں بنا بنا کر زمین میں دفن کر دیتے ہیں اور دو تین سال تک ان کو دفن ہی رہنے دیتے ہیں اور پھر جب ان کو یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اب یہ ہمارے کام کی ہو گئی ہوں گی تو نکال دیتے ہیں میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ اس کو وہ کیا کرتے ہیں کہنے لگے کہ وہ ان پر کچھ صدیوں پرانی تاریخ لکھ دیتے ہیں اورجب انڈیا سے ہندو اپنا تہوار منانے پاکستان آتے ہیں تو ان کے سامنے یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ یہ فلاں دور میں فلاں بگوان کی مرتی تھی جو کہ اب اثار قدیمہ سے نکلی ہے اس طرح ہندو منہ مانگی قیمت دے کر ان کو خرید لیتے ہیں اور پھر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس فلاں بگوان کی مورتی ہے،اس طرح ان کی امدن بھی ہو جاتی ہے اور ہندو بھی خوش ہو جاتا ہے ،اس وقت تو یہ مجھے ایک مذاق لگتا تھا مگر جب سے بابری مسجد کا کیس سامنے آیا تو مجھے اس کی حقیقت سمجھ میں آئی کہ ہاں ایسا ہوتا ہے اور ہند کے لئے بہت اسان ہے کہ وہ جب بھی کسی پر کوئی الزام لگانا چائیں تو اپنی پرانی مورتیاں نکال کر یہ کہہ دیں کہ یہاں پر ہمارا مندر ہوتا تھا لہذا یہ جگہ ہماری ہے ،انڈیا میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے اس وقت تک وہاں پر سات سو سے زائد مسجد اور مدرسے مسمار کر چکے ہیں صرف یہ کہہ کر کہ یہ مندر کی جگہ تھی یہاں سے کچھ بگوانوں کی مورتیاں ملی ہیں اور انڈین حکومت بھی اس کو مان لیتی ہے اور پھر مسلمانوں کے خلاف اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے ،بابری مسجد جو ایک مسلمانوں کی تاریخی مسجد ہے مگر ہندو نے یہ الزام لگا کر یہ جگہ کسی زمانے میں مندر کی ہوا کرتی تھی اب یہاں مسجد نہیں ہو سکتی مسمار کر دیا اور پھر یہ کیس چلتا رہا مگر اب بھارت کی عدالت نے ایک نہ سمجھ آنے والا فیصلہ سنا کر سب کو حیران کر دیا کہ اس کا ایک حصہ مسلمانوں کا ایک ہندوں کا ایک اکگاڑے کا وہاں پر نہ مسجد بن سکتی ہے نہ مندر نہ کچھ اور،اگریہ بات کی جائے کہ آج سے صدیوں پہلے یہاں پر یہ تھا وہ تھا اور پھر یہ فصلے ہونے لگے تو پھر کون اس بات کی ضمانت دے سکتا کہ آج جس جگہ پر ہندر مندر ہے وہاں پر کیا تھا ،یا آج جس جگہ پر بھارت کی ایک عرب آبادی آباد ہے وہاں پر کیا تھا ،تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آج یہاں سحرا ہے سمندر ہیں،جنگل ہیں وہاں کبھی عالی شان محل ہوا کرتے تھے ،اور یہاں قبرستان ہیں وہاں پر شہر آباد رہے ہیں مگر کیا یہ دعویٰ کر دیا جائے کہ ان قبرستان کو ختم کرو اور پھر سے شہر آباد کر دو،مگر بھارتی عدالتی فیصلے نے یہ ثابت کیا کہ تعصب کی بنیاد پر کچھ بھی کہہ دو سب سچ ہے ۔انڈیا نے بابری مسجد کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر سنایا جب کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہی نہیں ہو رہی بلکہ وہاں پر مسلمانوں کے ساتھ تاریخ کا بدترین ظلم ہو رہا ہے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جارہا ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق کے ساتھ بھی کھیلا جا رہا ہے ،اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات کہنا بعید نہ ہوگی کہ بھارت اپنے حالات کو خراب کرنے کے لئے انتشار کو خود دعوت دے رہا ہے بھارت کو یہ بات بھی مد نظر رکھنیچاہیے کہ ایک بار اگر بھارت کے اندر امن و امان کی صورت حال خراب ہو گئیں تو پھر اس کے کنٹرول سے باہر ہو جائے گی اور بھارت کا بھی وہی حال ہوگا جو روس کے ساتھ ہوا تھا ۔یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ انڈیا میں ظلم و بربریت روا رکھی جا رہی ہے مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت مسلمانوں کی تباہی کے زمہ دار بھی خود مسلمان ہی ہیں ،یہاں مسلمانوں کی تاریخ دیانت داری سچاہی ،بہادری سے پر ہے وہاں یہ کرپٹ ،بددیانت اور عیاش بھی مشہور ہوئے اور اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت تمام غیر مسلم قووتیں مسلمانوں کو دبا رہی ہیں ،بد قسمتی یہ بھی ہے کہ جو مسلم ممالک کسی قابل ہیں جو کئیں کوئی بات کر سکتے ہیں ان کے حکمرانوں کو دولت اور عیاشی کے چکر میں پھنسا کر ان کو زر خرید غلام بنا رکھا ہے اور جو طاقت نہیں رکھتے لڑنے کی ان پر پابندیاں لگا رکھیں ہیں اس طرح مسلمانوں کو دباو میں ڈال کر ان پر اپنی اپنی مرضی کے ظلم ڈھائے جاتے ہیںاور اس پر مسلم لیڈروں کی خاموشی نہ صرف سوالیہ نشان ہے بلکہ وہ شرم اور کمزوری بھی ہے
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved