اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔07-10-2010

یہ کیسے رویے ہیں
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ

وہ سات بچوں کا باپ ہے اس کی آمدنی کا ذریعہ محنت مزدوری ہے اس نے اپنی ساری زندگی مزدوری کر کے بچوں کا پیٹ پالاوہ ایک ہوٹل میں کام کر رہا تھا اپنے ہوٹل کا سودہ لانے گیا تو دن کے دس بجے ٹلیسلا کے بازار سے اغواہ ہوگیا،اس کے اغواہ کی کسی کو کوئی خبر نہ تھی وہ ایک دن گھر نہیں گیا تو بیوی بچوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا پھر دوسرا دن بھی گزر گیا کوئی خاص پریشانی نہ ہوئی مگر جب پانچویں دن اس کے گھر کے نمبر پر کال آئی تو پتہ چلا کی وہ اغواہ ہوگیا ہے کسی نامعلوم مقام پر ہے اسے کس نے کیوں اغواہ کیا کوئی پتہ نہیں وہ تو ایک مزدور تھا اس کا کسی کے ساتھ ایسا کیا تنازعہ ہو سکتا ہے کہ اس کو اغواہ کر دیا جائے جب یہ اطلاع اس کے رشتے داروں کو ملی تو انہوں نے اپنے اپنے اندازے کے مطابق اپنی اپنی رائے پیش کی کسی نے کہا کہ یہ ایک ڈارمہ ہے کسی نے کہا کہ یہ دشمنی کا نتیجہ ہے کسی نے اس کی تلاش کے لئے ہاتھ پاوں مارنا شروع کر دیے بات پریشانی کی تھی کیوں کہ اس کے چھوٹے چھوٹے سات بچے تھے اور وہ بھوکے تھے ان کو روز کا روز ملتا تھا تو وہ کھاتے تھے ان کے گھر میں کوئی جمع پونجی نہیں تھی اس کے ایک رشتے دار نے مجھے فون کر کہ بتایا کہ اس طرح یہ بات ہو گی ہے آج پانچواں دن ہے کہ اس کا کوئی پتہ نہیں اس کا نمبر جب آن ہوتا ہے تو بات ہوتی ہے مگر یہ پتہ نہیں چلتا کہ اصل معاجرہ کیا ہے ،کوئی پٹھان بول رہا ہے جو پانچ لاکھ کی ڈیمانڈ کر رہا ہے جب کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے ،مختصر کہ میں نے اس کے گھر سے لے کر تمام رشتے داروں کے ساتھ رابطے کئے ان سے ایک ایک کر کے سب کی رائے سنی سب کی اپنی اپنی رائے تھی ایک بات مشترک تھی کہ کوئی بھی اس کی رہائی میں سنجیدہ نہیں تھا بس اپنی اپنی باتیں کرتے اور پھر مجھے مشورے دیتے کہ تم اس میں نہ ہی آو تو اچھا ہے،میں نے اس کے بھائی سے بہنوئی سے اور باقیوں سے سب سے پوچھا کہ آپ نے اس کی ایف ائی آر کٹوائی ہے سب نے انکار کر دیا کہ ہم نہیں کٹوائیں گے اور نہ کسی کو کٹوانے دیں گے،یہ بات میرے لئے بہت حیران کن تھی مگر میں نے کسی سے کوئی بات نہیں کی میں نے اس علاقے کے ایم این اے سے بات کی اس کو سارا قصہ سنایا ،اور پھر کچھ میڈیا کے دوستوں سے بات کی ان کو سب کچھ بتایا انہوں نے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔میں نے پھر اس کے بھائی اور بہنوئی سے بات کی ان کو یہ سب کچھ بتایا کہ اگر آپ لوگ کچھ نہیں کر سکتے تو میرے پاس یہ اپشن ہے میں اس کو استعمال کر وں گا مگر اس میں اپ سب کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے میں دو دن دیکھتا ہوں پھر سب مل کر کچھ کرتے ہیں میری اس بات پر کوئی خاص ریسپانس نہیں دیا گیا مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ دوسرے دن مجھے فون کر کہ کہا گیا کہ اس کو سرائے عالم گیر سڑک پر کوئی پھینک گیا ہے میں نے پوچھا کہ وہ ٹھیک تو ہے پتہ چلا کہ ٹھیک ہے ،پھر میں نے اس سے رابطہ کیاتفصیل سے بات ہوئی اس نے کہا کہ میں بڑی بری حالت میں ہوں آکر آپ کو سب کچھ بتاوں گا وہ آیا میں اس سے ملا اس کی حالت واقعی خراب تھی مختصر اس نے بتایا کہ مجھے ٹکسیلا چوک سے اٹھایا گیا پھر مجھے پتہ نہیں جب مجھے ہوش آیا تو میرے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا اور آٹھ نو بندے میرے ارد گرد تھے رات کو وہ مچھلی صاف کرواتے اور صبح پانچ بجے کشتی پر لوڈ کر کہ لے جاتے ،روزانہ یہی کام ہوتا چوبیس گھنٹوں بعد ایک وقت کھانا ملتا ،پھر ان لوگوں نے مجھے کشتی پر بیٹھایا اور دوگھنٹے کے سفر کے بعدہم خشکی پر اترے پیدل چلے اور پھر کشتی پر بیٹھے اور سفر شروع کر دیا ایک گھنٹے بعد ہم سرائے عالم گیر کی نہر کے قریب پہنچے تو آگے ناکا لگا ہوا تھا وہاں پر ہم روکے میں پیشاب کے بہانے اُترا اور موقع ملتے ہی بھاگ گیا،میرے پیچھے کچھ بندے آئے مگر میں سڑک تک پہنچ گیا تھا جس کی وجہ سے وہ واپس ہوگئے ،وہاں میں نے اپنے ایک رشتے دار کو فون کیا اس نے یہاں کسی جاننے والے سے مجھے کرایہ دلایا اور میں اب یہاں پنڈی پہنچا ہوں ،یہ ایک لمبی کہانی ہے اس کو میں پھر کسی دن بتاوں گا سوچنے والی اور غور کرنے والی جو بات تھی وہ یہ تھی کہ جب اس کے ان رشتے داروں کو پتہ چلا جو ایف ائی آر تک کٹوانے کو تیار نہیں تھے جو اس کی تلاش میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تھے،جواس سارے قصے کو ایک ڈرامہ اور فراڈ کہتے تھے سب سے پہلے جمع ہوئے اور ہمدردی سے کہنے لگے کہ تم نے فون کیا ہوتا ہم تمیں خود لینے آجاتے ،کسی نے کہا کہ مجھے بتاتا میں گاڑی لے کر آجاتا کسی نے کہا کہ مجھے بہت دکھ ہوا اور میں نے اتنے دن سے کھانا نہیں کھایا کسی نے کہا کہ جب سے تم غائب ہوئے ہو مجھے ننید نہیں آئی کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اس سارے معاملے کو کیش کرنا چاہتے تھے مگر ان کو موقع نہیں ملا اپنی طرف سے بلیک میلنگ کے سارے حربے استعمال کئے مگر جب یہ رہا ہو کر آیا تو فون کئے،افسوس کیا اور کہا کہ ہم نے اپنی ساری فوج ،ساری انرجی ساری توجہ تماری طرف لگا رکھی تھی کچھ نے تو یہاں تک نا قابل یقین بیان دے دیا کہ ہم نے پانچ لاکھ روپے بھی بھجوا دیے تھے ایسی کوئی بات نہیں ۔مگر سچ بتاو تو آپ کا کلیجہ منہ کو آجائے گا کہ ان تمام کرم فرماوں کی موجودگی میں اس کے سات بچے اور بیوی تین دن تک بھوکے رہے پانچویں دن جب ان کے گھر آٹا نہیں تھا تو ایک رشتے دار نے آٹا لانے کے لئے پیسے دیے ۔یہ کہانی ٹکسیلا ڈھوک سادو کے رہائشی راجہ ضمیر کی ہے جو اغواہ ہوا ،افسوس کہ ہمارا دل پتھر ہو چکا ہے ہم کتنے بے حس ہو چکے ہیں ہمارے ضمیر مر چکے ہیں ہم زندہ لاشیں ہیں جو دیکھنے میں انسان مگر حقیقت میںظالم بے رحم خود غرض،لالچی،جھوٹے ،مکار،فریبی ہیںہمارے لئے اس سے بڑا شرم کا اور کوئی مقام نہیں کہ بچوں کو ایک وقت کا کھانا نہیں دے سکے مگر جھوٹی انا کے لئے ہم نے اپنا سب کچھ بیچ ڈالا ،کیا ایسا کرنے سے انسانیت مطمئین ہو سکتی ہے ۔یہ سب کیا ہے ؟ میری سمجھ سے باہر ہے
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved