اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔03-07-2010

افغانستان امکانات
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ارشادمحمود



حالیہ چند ہفتوں میں افغانستان کی داخلی سیاست میں متعدد ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں, جنہیں اسلام آباد میں اپنی کامیابیوں سے تعبیر کیا جارہا ہے۔حامد کرزئی اورامریکی قیادت کے مابین ابھرنے والے اختلافات سے بھی کافی امیدیں باندھی جاتی ہیں کہ جیسے کہ اب کرزئی کا انحصار مکمل طور پر پاکستان پر ہوتاجائے گا اوروہ رفتہ رفتہ امریکا اور بھارت دونوں سے فاصلہ پیدا کرلیں گے۔ یہ ثاثر بھی ہے کہ کرزئی طالبان کے ساتھ مفاہمت اور بعدازاں معاہدہ کرکے انہیں حکومت میں شامل کرلیںگے ۔یوں افغانستان کے پشتوں علاقوں سے مزاحمت دم توڑدے گی۔اس ضمن میں یہ تک کہا گیا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور شجاع پاشا کی معیت میں افغان جنگجو سراج الدین حقانی نے حامد کرزئی سے ان کے محل میں ملاقات کی۔اگرچہ بعدازں اس خبر کی پاکستان اور افغان حکومت کے ترجمانوں نے تردید کردی ، لیکن یہ تصور بھی محال ہے کہ پاکستان کے سپہ سالار ایک افغان جنگجو کے ہمراہ کرزائی کے ساتھ ملاقات کریں جس کے خون کی ایک دنیا پیاسی ہے۔
امریکیوں نے تو طے کر لیا کہ وہ اگلے برس ستمبر میں افغانستان سے اپنی افواج کا انخلاءشروع کردیں گے تاہم اس پورے عمل کو مکمل ہونے میں کتنی مدت درکار ہوگی ابھی اس کا تعین ہونا باقی ہے۔سوال یہ ہے کہ امریکا کے افغانستان سے نکلنے سے جو خلا پیدا ہوگا اسے کون بھرے گا؟ہمسائیہ ممالک اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں ۔وہ شاید ہی افغانستان میں قیام امن کے خاطر کسی ایک نقطے پر متفق ہوسکیں۔جہاں تک افغانستان کے اپنے اداروں اور مسلح افواج کا تعلق ہے وہ بھی ناقابل رشک حالت میں ہیں۔امریکیوں کے فراہم کردہ اعداد وشمارکے مطابق 26 ارب ڈالر خرچ کرکے افغان نیشنل آرمی کھڑی کی گئی ہے۔119,400جوانوں پر مشتمل اس فوج کی نفری کو اس برس اکتوبر تک 171,600تک پہچانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔فوج کی موجودہ ضروریات کو پورا کرنے اور مزید نفری کی بھرتی اور عسکری تربیت کے لیے ہرماہ ایک ارب ڈالر خرچ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
اس قدر بھاری سرمایاکاری کے نتیجے میں امریکی افواج کے انخلاءکے بعدافغان فوج کو اس قابل ہوجاناچاہیے کہ وہ ملکی سرحدوں کی حفاظت اور داخلی سلامتی کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرسکے۔لیکن کابل سے ملنے والی اطلاعات بڑی مایوس کن ہیں۔ فوج کو قائم اور متحرک رکھنے کے لیے بنیادی اہمیت مالی وسائل کو حاصل ہوتی ہے۔اس وقت افغان حکومت کو ٹیکسوں کی مدد میں حاصل ہونے والی آمدن محض ایک ارب ڈالر ہے جبکہ موجودہ افغان فوج کو فعال رکھنے کے لیے چھ ارب ڈالر سالانہ درکار ہیں۔ظاہر ہے کہ کابل حکومت اپنے طور پر اتنے وسائل فراہم نہیں کرپائے گی،لہٰذا اسے طویل عرصے تک غیرملکی امداد پر انحصار کرنا پڑے گا۔دوسری جانب پشتون علاقوں سے فوج میں بھرتی کا تناسب مایوس کن حد تک کم ہے۔محض تین فیصد پشتون سپاہی افغان فوج میں موجود ہیں۔ان کا بھی یہ عالم ہے کہ و ہ یہ تعارف کرانے سے گریز کرتے ہیں کہ وہ فوجی ملازمت اختیار کرچکے ہیں۔
خود افغا ن فوج کوئی اکائی نہیں بن پائی ہے بلکہ اس میں ابھی تک زبردست نسلی اورلسانی تقسیم پائی جاتی ہے۔وزیردفاع عبدالرحیم وردگ اور فوج کے سپہ سالار بسمہ اللہ خان کے مابین کشیدگی کی تاریخ عشروں پرانی ہے۔وردک پشتون ہیں جبکہ بسمہ اللہ خان پنج شیری تاجک ہیں۔دونوں کے درمیان پائی جانے والی تلخی سرکاری افسروں تک بھی پھیل چکی ہے۔بسمہ اللہ خان اور دیگر پنج شیری رہنما کرزئی کے طالبان کے ساتھ مفاہمت کے حامی نہیں ہیں۔وہ ان کے راستے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کرتے رہتے ہیں۔علاوہ ازیں شمالی اتحاد میں شامل رہنے والے ان رہنماﺅں کے ایران، بھارت اور روس کے ساتھ ابھی تک گہرے مراسم قائم ہیں جبکہ وردگ امریکا اور پاکستان کے زیادہ قریب تصور کیے جاتے ہیں۔وردگ اور بسمہ اللہ کے مابین جاری ذاتی چپقلش نے نہ صرف فوجی نظم وضبط قائم نہیں ہونے دیا بلکہ فوج کو سیاست زدہ بھی کردیا ہے۔
افغان فوج کی پیشہ ورانہ مہارت پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔بین الاقوامی اداروں کی طرف سے جاری کردہ سروے کے مطابق دس میں سے نو افغان سپاہی تربیتی مقاصد کے لیے لکھی گئی ہدایات بھی پڑنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔بدعنوانی کے قصہ بھی عام ہیں۔فوجی افسر اپنے ماتحتوں کی تنخوائیں تک ہڑپ کرجاتے ہیں۔فوجی سازوسامان فروخت کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔مارکیٹوں میں بڑی آسانی سے فوجی بوٹ،وردیاں اور دیگر سازوسان دستیاب ہوجاتاہے جو انہی فوجیوں نے فروخت کیا ہوتاہے۔سرراہ شہریوں کو ہرساںکرنے اور ان سے رقم ہتھیانے کے واقعات عام ہیں۔اپنی ہی فوج پر بے اعتباری کا یہ عالم ہے کہ حامد کرزئی نے ذاتی حفاظتی حصار میں بھی افغان فوجیوں کے بجائے نیٹو فوجیوں کو رکھا ہوا ہے ۔
ریاست کے دیگر اداروںمثال کے طور پر عدلیہ ، پارلی منٹ اور پولیس کی کارکردگی کی کہانی بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ان حالات میں اگر امریکی اور اتحادی افواج افغانستان سے نکل جاتی ہیں تو کیا منظر نامہ ابھرے گا؟یہ جاننے کے لیے کسی افلاطون کی ضرورت نہیں ہے۔افغانستان کے پشتون علاقوں پر بلامبالغہ طالبان کو کنڑول حاصل ہے۔جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں مقامی وارلارڈ سرکاری گورنروں سے بھی زیادہ طاقت ور ہیں۔افغان امور کے ماہرین نیٹوحکام کو مشورہ دیتے رہے ہیں کہ وہ افغان وارلاڈز کو تحفظ فراہم نہ کریں بلکہ سرکاری ادارے منظم کرنے کی کوشش کریں لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔اب یہ خدشہ حقیقت بنتا نظر آتاہے کہ امریکی اورنیٹو افواج کے انخلاءکے بعد یہ وارلاڑ منتخب حکومت کو پس پشت ڈال کر اپنے اپنے علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیں گے ۔
کابل کے تخت پر کرزئی کب تک اور کیسے برجماں رہیں گے کوئی نہیں جانتاہے۔لیکن یہ طے ہے کہامریکی اور اتحادی افواج کے انخلاءکے ساتھ ہی افغانستان کی وحدت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔گزشتہ تین عشروں سے افغان داخلی سیاسی اختلافات طے کرنے اور قابل عمل عمرانی معاہدے کرنے میںکامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔نسلی ، لسانی اور اب نظریاتی کشمکش اس قدر شدید ہے کہ غیر ملکی افواج کی واپسی کے بعد یہ تمام گرو ایک دوسرے سے حساب برابر کرنے نکل کھڑے ہوں گے۔ایک بار پھر بھارت،ایران،چین ،پاکستان اور روس اپنے اپنے حلیفوں کو ہتھیار ،رقم اور سفارتی مدد فراہم کرتے نظر آئیں تاکہ وہ کابل فتح کرسکیں یا کم ازکم ان کے حامیوں کا پلڑا بھاری رہے۔لہٰذا جشن منانے اور کامیابیوں کے دعوے کرنے کے بجائے افغانستان کو مستحکم کرنے اور کابل کو ایک موثر اور مضبوط مرکزی حکومت قائم کرنے میں مدددی جائے اسی میں پاکستان کا بھلا ہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved