اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔11-07-2010

کشمیر کے پاک بھارت مذاکرات پر اثرات
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ارشادمحمود

چھ دن بعد اسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کے وزراءخارجہ کے مابین مذاکرات شروع ہونے والے ہیں لیکن سری نگر سے موصول ہونے والی اطلاعات بڑی مایوس کن ہیں۔بھارتی فورسز کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں، کرفیو، گرفتاریوںاور بھپرے ہوئے نوجوانوں کے خطرناک عزائم نے مذاکراتی ماحول کو ناسازگارکردیا ہے۔خاص طور پر جس بے دردی سے احتجاجی مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں ہیں اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتاہے۔پے درپے رونماہونے والے ان واقعات سے یہ احساس ہوتا ہے کہ بھارتی اسٹبلشمنٹ کشمیریوں کے ساتھ کسی سمجھوتے پر رضامند نہیں ہے۔
موجودہ تحریک کا آغاز مئی میں اس وقت ہوا جب بارہ مولہ میں فوج کی جانب سے تین افراد کی نعشیں پولیس کے حوالے کی گئیں کہ وہ کنٹرول لائن عبور کرتے ہوئے فوج کے ساتھ مقابلہ میں مارے گئے لیکن تحقیقات کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ ہلاک ہونے والے تینوں افراد بے گناہ تھے جنہیں مقامی فوجی کیمپ میں روزگار کے بہانے بلایا گیا اور بعدازاں سرحد پر لے جاکر ہلاک کردیا گیا۔اس واقعے کے خلاف کشمیر کے طول وعرض میںاحتجاج ہوا حتیٰ کہ ایک فوجی کرنل اور میجر کو اس واقعے میں ملوث پایا گیا۔چونکہ جموں وکشمیر میں کچھ ایسے کالے قوانین نافذ ہیں جو فورسز کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی شخص پر گولی چلاسکتے ہیں ۔اس قانون کا بے محابااور غیرذمہ دارنہ استعمال کیا گیا۔ کشمیری جماعتیں خواہ آزادی کی علمبردار ہوں یا بھارت نواز ان قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کرتی آئی ہیں۔
بھارتی فوجی قیادت نے اس قانون کے خاتمے کے بجائے اس کے دفاع کا فیصلہ کیاہے ۔نادرن آرمی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل بی ایس جسوال نے اس قانون کو فوج کے لیے مقدس صحیفہ قراردیاجبکہ بھارتی آرمی چیف وی کے سنگھ نے فرمایا کہ اس قانون کی منسوخی کا مطالبہ کرنے والے قوم دشمن ہیں۔افسوسنا ک امر یہ ہے کہ بھارت کی سیاسی قیادت نے بھی انسانی حقوق کی پامالیوں پر افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے انہیں لشکر طیبہ کی کارستانی قراردے کر ایک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا،حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ لشکرطیبہ کشمیر میں مظاہرین کو متحرک کرنے کی اہل نہیں ہے۔
اکتوبر ۸۰۰۲ کے ریاستی انتخابات کے بعد دہلی کا خیال تھا کہ کشمیری رائے عامہ کے نظریات میں بڑی تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔۵۴ سالہ عمر عبداللہ نے جب ریاستی وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالہ تو ان سے کشمیریوں کو اچھی حکومت اور فوری انصاف کی فراہمی کی توقع تھی لیکن یہ امیدیں اس وقت دم توڑ تی گئیں جب عمرعبداللہ سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کے سامنے بندھ باندھنے میں بے بس نظرآئے۔ رواںاحتجاج میںجس طرح لوگوں نے ریاستی طاقت کو چیلنج کیاہے اس نے مبصرین کو حیرت زدہ کردیا ہے۔یہ حقیقت ایک بار پھر ثابت ہوئی ہے کہ کشمیر میں حالات اس وقت تک معمول پر نہیں آسکتے ہیں جب تک کہ اس مسئلہ کا سیاسی حل دریافت نہیں کیا جاتاہے۔ رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے میں بھی۹۹فیصد کشمیر یوں نے رائے دی تھی کہ وہ موجودہ اسٹیٹس کو کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے وزراءخارجہ کی سطح پر مذاکرات ایک ایسے ماحول میں ہونے جارہے ہیں جب کشمیر کا ایشو ایک بار پھر پوری قوت کے ساتھ ان کھڑا ہوا ہے۔ امکان تھا کہ دونوں ممالک دہشت گردی اور پانی جیسے ایشوز پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے لیکن کشمیر میں جاری احتجاج نے زمینی حقائق کو بڑی حد تک بدل دیا ہے۔پاکستان میں کشمیری کمیونٹی اور ان کے ہمدردچاہتے ہیں کہ اسلام آباد انسانی حقوق کی پامالیوں پر سخت موقف اختیار کرے ۔ماضی میں وزارت خارجہ کشمیر کے حالات پر تبصرہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی لیکن اب ایک پراسرار خاموشی ہے۔پاکستانی ذرائع ابلاغ کشمیر کے حالات کی کوریج کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کی کشمیر سے لاعلمی اور عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہزاروں افراد پر مشتمل جلوسوں کی خبر تک نظر انداز کردیتے ہیں۔بعض حلقے ذرائع ابلاغ کے اس طرزعمل کو سرکاری پالیسی کا حصہ قراردیتے ہیں ۔
سرکاری اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر نظر آنے والی یہ معنی خیر خاموشی مذاکرتی عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ہے یا پھر پاکستان وقتی طور پرکشمیر ایشو کو پس پشت ڈال کر دیگر معاملات پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے؟ایسے ہی متعدد سولات ہیں جن کا کوئی واضح جواب موجود نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسلام آباد میں اندورن خانہ ایک کشمکش برپا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔کئی ایک تزویراتی حکمت کاروں کی رائے ہے کہ یہ وقت کشمیر پر مذاکرات یا سودے بازی کے لیے نامناسب ہے اس لیے دیگر امور پر توجہ مرکوز کی جائے۔یہ عناصر خوش ہیں کہ وادی میں بھارت ایک بار پھر زبردست عوام عتاب کا شکار ہوچکا ہے اور لوگ جوق درجوق اس کے خلاف سڑکوں پر مارچ کررہے ہیں۔اگر یہ احتجاجی تحریک جاری رہی تو پاکستان کا مذاکرات میں پلہ بھاری رہ سکتاہے اور اسے افغانستان کے تناظر میں بھی بھارت کو نیچا دکھانے کا موقع ملے گا۔
جبکہ اس سے مختلف رائے رکھنے والوں کا نقطہ نظر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین گزشتہ برسوں میں جاری امن عمل کے دوران جن نکات پر اتفاق رائے پیدا ہوا تھا انہیں ازسرنو نہ چھڑا جائے بلکہ انہی پر مزید پیش رفت کی جائے۔اگر یہ نقطہ نظر مذاکرات میں غالب رہا تو امکان ہے کہ اعتماد سازی کے مزید اقدامات ہمارے سامنے آئیں گے۔اسلام آباد کی خواہش ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی گرمجوشی کا اظہار سری نگر میں بھی ہوتا نظر آئے تاکہ کشمیر ی عوام مذاکرات کی حمایت کریں۔
بدقسمتی سے دونوں ممالک میں سیکورٹی اسٹبلمشمنٹ ہی پاک بھارت تعلقات کے لیول کا تعین کرتی ہے۔سیاسی قیادت محض ان کی ہدایات پر عمل درآمد کرتی ہے۔لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کشمیر کے مسئلہ اور باہمی تعلقات کو سیکورٹی کے تناظر کے بجائے انسانی پہلوﺅں اور خطے کے معاشی سدھار کے پس منظر میں دیکھیں تاکہ وہ موجودہ حصار سے باہر نکل سکیں۔بصورت دیگریہ پورا خطہ بھوک اور ننگ کا شکا ررہے گا اور طبقہ اشرافیہ مزید کئی عشروں تک ان پر اپنی حکمرانی جاری رکھے گا۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved