اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔25-07-2010

ناکام مذاکرات کے بعد
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ارشادمحمود

اسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے مذاکرات ناکام ہوگئے لیکن یہ ناکامی ایسی نہیں ہے جس سے بددل ہوکر متبادل حکمت عملی پر غور شروع کردیا جائے۔ایسے دانشوروں کی کمی نہیں ہے جو یہ تجویز کرتے ہیں کہ بھارت معنی خیز بات چیت کے لیے تیار نہیں ہے، لہٰذا اس سلسلے کو ہی بندکردینا چاہیے تاکہ اسٹیٹس کو میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوسکے۔اگر یہ نقطہ نظر غالب آگیا تو برسوں تک پاکستان اور بھارت اپنے مسائل حل نہ کرپائیں گے۔یہ تلخ حقیقت تسلیم کی جانی چاہیے کہ دونوں ممالک کے مابین اعتماد کا گہر ا بحران پایا جاتاہے۔عشروں پر پھیلی ہوئی حریفانہ کشمکش اور محاذآرائی کو لمحوں میںدوستی میں تبدیل نہیں کیا جاسکتاہے۔اس کے لیے صبر آزما مذاکراتی عمل سے گزرنا پڑتا ہے ´ آئر لینڈ کے مسئلہ کے حل میں بیس برس تک مذاکرات ہوئے تب جاکر کوئی معاملہ بنا۔مصراور اسرائیل کے مابین کیمپ ڈیوڈمعائدہ چند ملاقاتوں کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ کئی برسوں تک ملاقاتوں اور گفتگوﺅں کا سلسلہ جارہی رہا۔نیلسن منڈیلا سفیدفام حکمرانوںکے ساتھ طویل مذاکراتی عمل سے گزرے پھر جاکر انہیں رہائی ملی اور ان کے مطالبات بھی تسلیم کیے گئے۔
یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی فیصلہ سازی کا عمل طویل اور پیچیدہ ہے۔پاکستان کے ساتھ تعلقات کے معاملات پر وہاں کی فوج،خفیہ ایجنسیوں اور ریٹائرڈ سفارتکاروں،فوجی افسروں کا نقطہ نظر حاوی رہتاہے بالخصوص گزشتہ بیس برسوں میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور خفیہ اداروں کو پاکستان کے ہاتھوں جو ہزیمت اٹھانا پڑی اس نے ان میں پاکستان سے نفرت اور غصہ بھر دیا ہے جو انہیں متوازن فکر اختیار نہیں کرنے دیتاہے۔پاکستان میں تعینات بھارت کے سابق سفیر جی پارتھا ساتھی سے دہلی میں ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ ذوالفقار علی بھٹونے شملہ میں اندرا گاندھی کو بدھو بنا کر معاہدہ کرالیا حالانکہ اس وقت بھارت کشمیر پر حتمی فیصلہ کراسکتاتھا۔بھارتیوں کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتاہے کہ کئی سودے بازی کے عمل میں پاکستان ان سے کچھ زیادہ نہ لے جائے یا انہیں دھوکہ نہ دے دے۔دوسری جانب فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے عسکریت پسندوں کے خلاف میدان مارلیا ہے لہٰذا پاکستان یا کشمیریوں کو سیاسی سطح پر کسی قسم کی رعایت نہ دی جائے۔
حکمران جماعت کانگریس کے اندر ایسے عناصر کی کمی نہیں ہے جو پاکستان اور کشمیر کے بابت انتہاپسندانہ خیالات کا پرچارکرتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ کشمیر پر کسی مفاہمت یا پاکستان سے اچھے تعلقات کے قیام کی کانگریس کوبہت بڑی سیاسی قیمت ادا کرناپڑسکتی ہے لہٰذا وہ ایسا خطرہ مول لینے کی اجازت نہیں دیتے ہیںجو کانگریس کی سیاست کے لیے مفید نہ ہو ۔صرف یہی کانگریسی ارکان پاکستان کے ساتھ مسائل کے حل کے راستہ میں رکاوٹ نہیں ہیں بلکہ بی جے پی بھی نہیں چاہتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ مسائل کے حل کا کریڈٹ کانگریس کو ملے۔وزیراعظم من موہن سنگھ اور چند ایک افراد ایسے ہیں جو پاکستان کے ساتھ وسیع البنیاد مفاہمت چاہتے ہیں۔ان کا نقطہ نظر ہے کہ بھارت عالمی سطح پر اس وقت تک کوئی بڑا مقام نہیں حاصل کرسکتاہے جب تک وہ علاقائی سطح پر اپنے تنازعات کو حل نہیں کر لیتاہے۔پاکستان کو بھارت کے اندر موجود ان منفی اور مثبت رجحانات کو پیش نظر رکھ کر اپنی پالیسی مرتب کرنی چاہیے۔
دہلی اور اسلام آباد کے پاس جادو کی کوئی چھڑی نہیں ہے کہ وہ گھوما کر راتوں رات باہمی اعتماد پیدا کرسکیںتاہم وہ ایسے اقدمات کرسکتے ہیں۔جومقبوضہ جموں وکشمیر میں زمینی حالات کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکیں۔وہاں جاری انسانی حقوق کی پامالیاںبند ہونی جاہیں تاکہ عوام مذاکرات کو جاری رکھنے کی حمایت کرسکیں۔جب سری نگر میں کرفیو نافذہو،کشمیر ی قیادت پانبد سلاسل ہواور عوام سراپا احتجاج ہوں تواسلام آباد اور دہلی کے مابین معمول کے تعلقات کی بحالی کی توقع کرنا سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
بھارت نے بارہا کوشش کی کہ وہ یک طرفہ طور پر کشمیری قیادت کے ساتھ کوئی معاہدہ کرلے اور اس تنازعہ میں پاکستان کی حیثیت کو غیر متعلق کردے لیکن ماضی میںا یسی جو بھی کوششیں کیں گئیں وہ ناکام ہوئیں۔اب ایسی کسی کوشش کی کامیابی کا تصور بھی محال بھی ہے کیونکہ گزشتہ بیس برسوں میں کشمیریوں کی ایک ایسی نسل پروان پاچکی ہے جس کے لیے مزاحمتی تحریک جاری رکھنا کوئی مشکل چیلنج نہیں ہے۔دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے معاملات میں اسلام آباد کا اثرونفوذ بھی بہت گہرا ہوچکاہے۔کوئی بھی دوطرفہ معاہدہ کشمیر کے مسئلہ کاحل نہیں ہے۔اسی طرح دہلی اور اسلام آباد کشمیریوں کی رضامند ی حاصل کیے بناکوئی قابل عمل معاہدہ نہیں کرسکتے ہیں۔دونوں ممالک کی قیادت کو چاہیے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے مسلسل ایسے اقدامات کی حمایت کریں جو کشمیریوں کو راحت پہنچاسکیں اور مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کا سبب بنیں۔
پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کایہ اعتراض سمجھ میں آنے والاہے کہ بھارت میں خارجہ پالیسی چلانے کا کوئی ایک فرد یا ادارہ ذمہ دار نہیں ہے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد بھی تذبذب کی اسی قسم کی کیفیت سے گزررہا ہے۔جب شاہ محمود قریشی نے سخت گیر رویہ اپنانے کی کوشش کی تو وزیرداخلہ رحمان ملک نے بڑا ہی نرم بیان داغ دیا ۔ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا نقطہ نظر بھی حکومت سے زیادہ ہم آہنگ نہیں رہتاہے۔جب کہ آزادکشمیر کی سیاسی قیادت بھی کنفیوژہے کہ وہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالے وزیراعظم فاروق حیدر تو بھارت کے ساتھ کشمیر پر مذاکرات یا کسی قسم کی مفاہمت کو موجودہ حالات کے تناظر میں مفید تصور نہیںکرتے ہیں۔حریت کانفرنس سمیت تمام آزادی نواز گروہ اسلام آباد کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیا پالیسی اپناتا ہے ۔ذرائع ابلاغ مقامی سیاسی ایجنڈے بالخصوص جعلی ڈگریوں اور دیگر امور پر بحث ومباحثے میں مصروف ہیں۔وہ بھارت کے ساتھ تعلقات ،کشمیر اور پانی جیسے مسائل پر کم ہی سنجیدہ گفتگو کرتے ہیں۔عمومی طور پر ان موضوعات پر ہونے والا مباحثہ جذباتیت کا شکار ہوجاتاہے۔
وقت آگیا ہے کہ دہلی اور اسلام آباد کے حکمرانوں سمیت دونوںممالک کی سول سوسائٹی اور رائے عامہ ہموار کرنے والے افراد اور ادارے مشترکہ طور پر خطے کی عمومی بھلائی کے تناظر میں سوچیںاور مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔ دونوں ممالک کی سول سوسائٹی اور میڈیا اپنے اپنے حکمرانوں کو خطے میں پائے جانے والے تنازعات کو حل کرنے پرآمادہ کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتاہے۔دنیا بھر میںسیاستدان اس وقت تک کوئی خطرہ مول نہیں لیتے ہیں جب تک انہیں کوئی سیاسی فائدہ نظر نہ آتاہو۔اگر سول سوسائٹی اور میڈیا رائے عامہ کو مثبت خطوط پرہموار کریں تومذاکرات کا موجودہ عمل نہ صرف جاری رہ سکتاہے بلکہ نتیجہ خیز بھی ہوسکتاہے۔علاوہ ازیںدہلی اور اسلام آبادکو بھی وقتی سیاسی مفادات اور تعصبات سے اوپر اٹھ کر علاقائی مفاد کی فکر کرنی چاہیے۔مذاکرات کے سلسلے کو نہ صرف جار ی رکھا جائے بلکہ اسے نتیجہ خیز اور بامعنی بنانے کی کوشش کی جائے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved