اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔08-08-2010

ایک اور سیاسی بحران
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ارشادمحمود

اکثر کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا ہے بلکہ صرف اتحادی ہوتے ہیں۔یہ کہاوت پوری طرح آزادکشمیر کے موجودہ سیاسی ماحول پرمنطبق ہوتی ہے۔راجہ فاروق حیدر نو ماہ کی مختصر مدت تک وزرات عظمیٰ پر فائز رہ کر مستعفٰی ہوچکے ہیں ۔سردار عتیق احمد خان ازسرنو پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت اور مقامی رہنماﺅں کے تعاون سے برسرقتدار آچکے ہیں،حالانکہ انہی سیاسی پنڈتوں نے آٹھارہ ماہ قبل سردار عتیق پر طرح طرح کے الزمات عائد کرکے انہیں ایوان اقتدار سے چلتا کیا تھا۔یہی پیپلزپارٹی جو آج سردار عتیق کی حمایت کررہی ہے اسی نے راجہ فاروق حیدر کے ساتھ مل کر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرائی تھی۔ عوام حیران ہیںکہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں جن کے باعث سردار عتیق کو اقتدار سے محروم کیا گیا اور آج کیا مجبوریاں ہیں کہ انہیں دوبارہ کندھا دے کر مظفرآباد کی گدی پر فائز کرایا گیا ہے؟ ارکان اسمبلی اور سیاسی جماعتوں کی قیادت نے جس طرح سیاسی طوفاداریاں تبدیل کیں ،اس کے نتیجے میں ان کی ساکھ ہی مجروع نہیںہوئی ہے بلکہ وہ بکاﺅ مال کے طور پر شناخت کیے جانے لگے ہیں۔یہ حقیقت طشت ازبام ہوچکی ہے کہ یہ سیاستدان کسی اصول یا نظریہ کے علمبردار نہیں ہیں بلکہ صرف ذاتی مفادات کے تحفظ اور اپنی کرسی بچانے کے چکر میںکچھ بھی کرگزرسکتے ہیں۔
مسلم کانفرنس میں جاری اقتدار کی کشمکش نے مسلم لیگ ن کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ آزادکشمیر میں اپنی شاخ قائم کرے جس کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔گزشتہ چھ عشروں سے مسلم لیگ نے آزادکشمیر میں مسلم کانفرنس کو ہی اپنی حلیف جماعت تصور کرتے ہوئے اسے بھرپور حمایت سے نوازا۔لیکن یہ رشتہ اس وقت بکھر گیا جب سردار عبدالقیوم خان اور سردار عتیق احمد خان نے صرف جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی بلکہ ملٹری ڈیموکریسی کا نظریہ بھی متعارف کرایا۔چنانچہ۶۰۰۲ءکے متنازعہ انتخابات میں پرویز مشرف کی غیر مشروط حمایت سے سردار عتیق برسراقتدار آگئے۔پاکستان میں پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی تو موصوف نے ان کی حمایت میں اسمبلی سے قرارداد منظور کرائی جس کی راجہ فاروق حیدر نے مخالفت کی ۔
ان واقعات نے شریف برادران کو مسلم کانفرنسی قیادت سے مکمل طور پر بیزار کردیا جبکہ راجہ فاروق حیدر رفتہ رفتہ نواز شریف کے قریب ہوتے گئے حتیٰ کہ نوازشریف نے آزمائش کی ہرگھڑی میں ان کی بھرپور حمایت کی۔دوسری جانب آزادکشمیر کی مقامی سیاست میں فاروق حیدر ان ایشوزکو زیربحث لائے جن کا اسلام آباد کے خوف سے مقامی سیاستدان تذکرہ کرنا بھی گوراہ نہیں کرتے ہیں۔پہلی بار فاروق حیدر نے کشمیر کونسل کے توسط سے وفاقی وزارت امور کشمیر کو حاصل اختیارات کو ختم کرنے مطالبہ کیا تاکہ مظفرآباد کی حکومت بغیر کسی دباﺅ کے اپنے فیصلے کرنے کے قابل ہوسکے۔منگلا ڈیم کے نٹ ہائیڈل پروفٹ اور نیلم جہلم پراجیکٹ کے حوالے سے حکومت پاکستان سے درخواست کی گئی کہ وہ آزادکشمیر کی حکومت سے باقائدہ معاہدہ کرے تاکہ مقامی لوگوںکے جائز اقتصادی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔انہوں نے اسلام آباد کی جانب سے آزادکشمیر کے اندورنی معاملات میں مداخلت کے آگے بندھ باندھنے کی بھی کوشش کی ۔فاروق حیدر کے ان اقدامات نے انہیں آزادکشمیر کے ہر مکتب فکر میں ایک آزاد منش اور باوقار سیاستدان کے طور پر ابھارہ۔ ان کے ابھرتے ہوئے سیاسی قد کاٹھ سے ان کے مقامی حریف اور وفاقی حکومت یکساں طور پرخائف ہوتی گئی ۔ سردار عتیق نے موقع سے فائدہ اٹھا یا اور پیپلزپارٹی کے تعاون سے انہیں ایوان اقتدار سے رخصت کردیا۔
اس سارے ڈرامہ میں پیپلزپارٹی نے اپنے پتے بڑی خوبصورتی سے کھیلے۔انہیں گلگت بلتستان کے بعد آزادکشمیر میں بھی انتخابی فتح حاصل کرنی ہے تاکہ قومی انتخابات سے پہلے دیگر سیاسی جماعتوں پر اس کی نفسیاتی برتری قائم ہوسکے اور یہ دونوں حکومتیں اس کی مدد بھی کرسکیں۔مسلم کانفرنس اگر متحدرہتی اور اسے مسلم لیگ ن کی حمایت دستیاب ہوتی تو پیپلزپارٹی کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ آسانی کے ساتھ آزادکشمیر میں اگلے برس جولائی میں ہونے والے انتخابات میں برتری حاصل کرلیتی۔اب مسلم کانفرنس تقسیم ہوچکی ہے۔مسلم لیگ ن کے قیام سے مسلم کانفرنس کاشیرازہ مزید بکھر جائے گا۔پیپلزپارٹی کے ساتھ سردار عتیق تادیر اپنا اتحاد برقرار نہ رکھ سکیں گے کیونکہ دونوں جماعتیں روایتی طور پر حریف ہیںاور ان میں نظریاتی طور پر بھی بعدالمشرقین پایاجاتاہے۔مسلم لیگ کے قیام سے مسلم کانفرنس کا ووٹر بری طرح تقسیم ہوجائے گا ۔اگر سیاسی بساط طے شدہ منصوبے کے مطابق بچھ جاتی ہے توپیپلزپارٹی کوآزادکشمیرمیں اکثریتی جماعت کے طور پر ابھرنے سے کوئی نہ روک سکے گا۔سیاست کے ایک اور منجھے ہوئے کھیلاڑی بیرسٹر سلطان محمود چودھری ان دنوں بہاﺅ تاﺅ میں مصروف ہیں ۔پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ۔تذبذب کی کیفیت سے دوچار ہیں۔تاہم یہ طے ہے کہ وہ جس بھی جماعت میں شامل ہوں گئے اس کی طاقت میں اضافہ ضرور ہوجائے گا۔سوال صرف یہ ہے کہ کون دام مناصب دے سکتاہے۔یہاں بھی اصول اور نظریات بے معنی تصور کیے جاتے ہیں۔
نوازشریف کا ذاتی اثر رسوخ اور پنجاب حکومت کی موجودگی میں مہاجرین کی نونشتوں میں سوائے ایک آدھ کے سوا تمام کی تمام مسلم لیگ کی جیب میں ہیں،جبکہ میرپور ڈیژن میں سردار سکندر حیات خان کے اثر ورسوخ کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتاہے کہ کوٹلی کے طاقت ور ارکان اسمبلی تمام تر دباﺅ اورلالچ کے باوجود راجہ فاروق حیدر کے ساتھ کھڑے ہیں۔یوں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اگلے انتخابات تک مسلم لیگ آزادکشمیر میں ایک طاقت ور جماعت کے طور پر ابھرسکتی ہے۔سردارعتیق نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر سیاست کرنے کا فیصلہ کرکے ایک سیاسی جوا کھیلا ہے۔یہ پیشگوئی کرنا قبل ازوقت ہے کہ وقت ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی ہی جماعت کے ایک بڑے موثر دھڑے کو کاٹ کر پھینک دیا ہے جو انہیں عشروں تک سیاست میں چیلنج کرتا رہے گا۔یہ ممکن ہے کہ وہ اس مہم جوئی کے نتیجے میں وہ سیاست کے نواب زادہ نصراللہ خان بن جائیں جو چرب زبان اور تر دفاغ تو ضرور تھے مگر ساری زندگی تنہاہی میرکارواں رہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved