اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔13-08-2010

جوتے اور سیلاب کی سیاست
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ارشادمحمود

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین ایک طویل جنگ بندی کے بعد ایک بار پھر سرحدی گولا باری شروع ہوچکی ہے۔صدر آصف علی زرداری پر برمنگھم میں جوتا پھینکا گیا یا نہیں۔پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں کی جانب سے متضاد اطلاعات فراہم کی جاری ہیں۔کس نے سازش کا جال بچھایااور سرمایا فراہم کیا ؟ درجنوں سوالات اور الزامات ہیں جو ذرائع ابلاغ کی خبروں،تجزیوں اور تبصروں کا موضوع ہیں۔الزمات،جوابی الزمات اور صفائی پیش کرنے کی ایک مہم جاری ہے۔یہ کیفیت ۰۹۹۱ءکی دہائی میں دونوں جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی اور تلخی کی یاد دلاتی ہے۔بظاہر ابھی وہ ماحول نہیں بن پایاہے لیکن اگر تلخی کی موجودہ فضا کو روکا نہ گیا تو وہ دن دور نہیں جب ہر سیاسی جلسے میں جوتوںاور گندے انڈوںکی بارش ہوگی۔غالباًاسی قسم کی کیفیت کی جانب وزیرقانون بابر اعوان نے اشارہ کیا ہے کہ پیپلزپارٹی کے جیالے بھی دودوجوتے پہنتے ہیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ بحث ومباحثہ اس وقت ہورہاہے جب آدھا پاکستان سیلاب تلے ڈوبا ہوا ہے۔لاکھوں شہری کھلے چھت تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔عالمی اداروں کا اندازہ ہے کہ اگر ہنگامی بنیادوں پر حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے توپانی اترتے ہی وبائی امراض کا ایک طوفان امنڈ ے گاجو ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اوتارسکتاہے۔
دو کڑور افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ۔سرکار کے باعث وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان گھرانوں کی بحالی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔عالمی برادری سے امداد کی اپیل کی گئی لیکن کوئی حوصلہ افزاءجواب نہیں ملا۔دنیا کے امیر ممالک میں بھی تھکاوٹ پائی جاتی ہے۔آخر وہ پاکستان کی کس قدر مدد کریں۔سالہا سال سے ہمارا یہی وتیرا ہے کہ جھولی پھیلائے رکھتے ہیں۔جو امداد ملتی ہے اس کا حساب کتاب مانگا جائے تو پوری قوم آگ بگولہ ہوجاتی ہے کہ مغرب ہماری حاکمیت اعلیٰ کو چیلنج کررہاہے۔زلزلے کے دوران جو امداد آئی اس کا عشرے عشیرے بھی دیانت داری سے خرچ نہیںکیا گیا ہے۔جو منصوبے غیر ملکی اداروں نے اپنے ذمہ لیے تھے وہ کب کے مکمل ہوچکے ہیں جبکہ جو سٹرکیںاور شہر پاکستانی اداروں نے تعمیر کرنے تھے ان میں سے کئی ایک ابھی تک زیر تعمیر ہیں یا پھران منصوبوں پر کام ہی شروع نہیں ہوسکا ہے۔اسی لیے سونامی سے بڑاطوفان ہمارے سر سے گزرگیا نہ تو عالمی برادری دھیان دے رہی ہے اور نہ ہی مقامی سطح پر اہل خیر متحرک ہوئے۔
اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کوئی قوم کسی مصیبت کا شکار ہوتی ہے تو وہ اتحاد اور یکجہتی کا بے مثال مظاہرہ کرتی ہے لیکن ہماری گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف جنہیں آج وفاقی حکومت کی مدد کی پہلے سے کئی زیادہ ضرورت ہے نہ صرف اسلام آباد سے الجھ رہے ہیں بلکہ سیلاب زدگان کے مسائل اچھال کر اپنی سیاسی دکان چمکا رہے ہیں۔نواز شریف جہاں بھی جاتے ہیں وہاں وہ صدر زرداری کو ہدف بناتے ہیں۔جوابی طور پر صدر زرداری اور ان کے حامیوں نے شریف برادران پر تابڑتوڑ حملوں کے لیے جناب بابر اعوان کو ذمہ داری سونپ دی ہے۔سیاسی درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہاہے۔سوال یہ ہے کہ اس انداز سیاست سے سیلاب زدگان کے مصائب کم ہوسکتے ہیں؟کیا انہیں کوئی سہولت فراہم ہوسکتی ہے یا پھر اسلام آباد اور لاہور کی جنگ میں عام شہری جس کا سیاست کی پیچیدگیوں سے کوئی تعلق نہیں متاثر ہوتاہے۔
سیاستدانوں کی بے معنی بے وقت لڑائی نے انہیں مذاق بنادیا ہے۔ فوجی جوان اور ان کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی عام لوگوں کی بھرپور مددکررہے ہیں۔ جگہ جگہ جاکر جہاں لوگوں کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں وہاں عملی مدد بھی کرتے ہیں۔بدقسمتی سے سویلین حکومت کے پاس ایسی استعداد ہی نہیں ہے جو فوری طور پر لوگوں کو سہولت پہنچاسکتی ہو۔۵۰۰۲ءکے تباہ کن زلزلے کے بعد یہ توقع تھی کہ سرکاری سطح پر ہر ضلع میں ایسے ادارے قائم کیے جاتے جوقدرتی آفات آنے کی صورت میں عوام کی مدد اور بحالی کی ذمہ داریاں اداکرسکتے لیکن اس جانب توجہ نہیں دی گئی ۔
دوسری جانب سیاستدانوں کی کارکردگی اور اہلیت ہر سطح پر زیربحث ہے ۔ان کے ذاتی اور اجتماعی کردار کے بابت بڑی شدومد سے سوال اٹھائے جاتے
ہیں۔امانت ،دیانت اور شفافیت جیسے الفاظ سیاسی لغت سے غائب ہوئے زمانہ بیت گیا ہے ۔رہی سہی کسر ارکان اسمبلی کی جعلی ڈگریوں نے نکال دی۔سیاسی جماعتوں نے ان جال سازوں کے خلاف تعدیبی کارروائی کرنے کے بجائے انہیں دوبارہ ٹکٹوں سے نوازا۔ کمزور عوامی ساکھ اور ناقص انتظامی صلاحیتوں کے سبب غیر جمہوری قوتوں کو یہ موقع ملتاہے کہ وہ رفتہ رفتہ سیاستدانوں کو غیر موثر کرکے خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔
امریکا کے ساتھ ہونے والے اسٹرٹیجک مذاکرت میں سیاسی حکومت کے بجائے عسکری قیادت نے قائدانہ کردار ادا کیا۔پاک امریکامذاکرت میںجنرل اشفاق پرویز کیانی کی موجودگی قابل اعتراض نہ تھی لیکن مروجہ جمہوری روایات کے مطابق یہ ذمہ داری اور حق جمہوری حکومت کا ہوتا ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کے مطابق خارجہ ،داخلی اور معاشی پالیسیاں مرتب کرے مگر حالیہ برسوں میں صورت حال اس کے برعکس رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میںایک عظیم الشان سیاسی تحریک برپا ہے جس نے کشمیری مزاحمت کاروں کو ایک نئی شناخت عطا کی ہے۔ہزاروں مرد اور عورتیں سخت ترین کرفیو کے باوجودسرپائے احتجاج ہیں۔بھارتی فوج نہتے کشمیریوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کرتی ہے۔جس کی بدولت چند ہفتوں میں ۰۵ سے زاہد افراد جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے لیکن پاکستان کی حکومت اور حزب اختلاف نے بھی چپ سادھ لی ہے۔کم ازکم انسانی حقوق کی پامالیوں پر تو دوٹوک موقف اختیار کیا جانا چاہیے۔صدر زرداری نے برمنگھم میں کشمیریوں کے بھرپور اجتماع سے خطاب کیا مگر وہاں بھی کشمیر کے مسئلہ اور بالخصوص وہاں جاری تحریک سے صرف نظر کرگئے۔
یہ وہ امور ہیں جو ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ساکھ اور قومی امور سے وابستگی کی سطح کے بابت خدشات پیدا کرتے ہیں۔بسا اوقات ایسا گمان گزرتا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں نے پوری طرح پاکستان کو ownنہیں کیا اسی وجہ سے وہ ہر فیصلہ کن گھڑی میں قائدانہ کردار ادا کرنے سے کتراتے ہیں۔ جوتے اور سیلابی سیاست سے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا بلکہ سب کا بوریا بستر سمیٹ لیا جائے گا۔بقا اسی میں قومی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں کیں جائیں۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved